عید سعید

تحریر : صفدر علی حیدری
عید کے حوالے سے باب شہر علم کا فرمان اکثر یاد آتا ہے۔ عید کے حوالے سے اس سے زیادہ گہری اور بامعنی بات کوئی اور نہیں ہو سکتی۔
’’ مومن کے لئے ہر وہ دن عید ہے جس دن اس سے کوئی گناہ سر زد نہ ہو ‘‘
گویا ہم اپنے ہر دن کو عید کا دن بنا سکتے ہیں ۔ بس ہمیں گناہ سے بچنا ہو گا۔ رب کی نافرمانی سے اجتناب کرنا ہو گا۔ اسی طرح ہر رات ، شب قدر بن سکتی ہے اگر ہم اس کی قدر کریںقیامت کے دن یہ سوال ضرور پوچھا جائے گا کہ سرمایہ عمر کہاں خرچ کیا ؟
گویا ہمیں اپنے وقت کا حساب دینا ہے۔ بتانا پڑے گا کہ جوانی کیسے گزاری ؟ کن کاموں کو اہمیت دی ؟
سانس سانس آزمائش ہے
فرمان علوی ہے ’’ انسان کی ہر سانس ایک قدم ہے جو اسے موت کی طرف بڑھائے لئے جا رہا ہے ‘‘
اور ہماری حالت یہ ہے کہ’’ دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے ۔
حالاں کہ ’’ موقع کو ہاتھ سے جانے دینا رنج و اندوہ کا باعث ہوتا ہے ‘‘
احتساب کا احساس ہی ایسا دل شکن ہے کہ انسان مچل کر رہ جائے ۔ پہلو بدل کر رہ جائے ۔
سچ ہے کفرانِِ نعمت کی کڑی سزا ملنے والی ہے ۔ ہم دنیا میں عبرت کے مقامات سے ہنستے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔ یہ سوچ کر کہ ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہو گا ۔ حالاں کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔
’’ سنگریزے ‘‘ میں کبھی لکھا تھا ’’ ہم میں سے اکثر لوگ اس غیر محتاط رویے کی وجہ سے مختلف حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہو گا۔
حکیم اسلام نے بجا فرمایا ہے عبرت کے مقامات بہت سے ہیں مگر عبرت حاصل کرنے والے بہت تھوڑے ہیں۔
سچ ہے زندگی کے دن گنتی کے ہیں ۔ جن کے گزرنے کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ رزق اور دیگر مصروفیات ایسی ہیں کہ سر جھکانے کی فرضت نہیں ملتی ۔ ایسے میں بعض اوقات کچھ واقعات ہمیں چونکانے آتے ہیں، جگانے آتی ہیں۔ خوشا بخت ہیں وہ لوگ جو چونک اٹھتے ہیں، سنبھل جاتے ہیں، سنور جاتے ہیں۔ اصلاح کر لیتے ہیں۔ پلٹ آتے ہیں۔ راہ مستقیم پر لوٹ آتے ہیں۔ لٹنے سے بچ جاتے ہیں۔ زندگی خالق اکبر کا عظیم تحفہ ہے۔ یہ ایک بار ملتی ہے۔ جو چیز اتنی قیمتی ہو کہ ایک بار ہاتھ آئے اور جس کا نعم البدل بھی کوئی نہ ہو تو حق بنتا ہے کہ اسے بہتر بلکہ بہترین انداز سے گزارا جائے۔ اس کی قدر کی جائے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی ترجیحات کا تعین کرے۔ اسے اس بات کا شعوری احساس ہو کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ تبھی انسان کی زندگی میں جوہری تبدیلی ممکن ہے۔ کایا پلٹ کا امکان موجود ہے ۔
کسی نے سچ کہا ہے
زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی
سو شرمندگی سے بچنے اور اے کاش کہنے کا واحد حل یہی ہے کہ انسان اس مہلت سے فائدہ اٹھائے۔ آلائشوں بھرے اس راستے پر چلتے ہوئے دامن کو سمیٹ کر آگے بڑھے تاکہ وہ کانٹوں سے الجھے بنا ، زخمی ہوئے بغیر آگے بڑھ سکے۔ اپنی منزل کی طرف قدم اُٹھاتا رہے۔ منزل سے راستہ زیادہ اہم ہوتا ہے کہ منزل تک جانے کا واحد راستہ، راستہ ہی ہوتا ہے۔ اگر وہی درست نہ ہو ، مستقیم نہ ہو تو سالک کا ہر اٹھتا قدم اسے منزل سے دور کرتا چلا جاتا ہے۔
پائوں گرد آلود ہوتے ہیں مگر منزل ملتی ہے نہ منزل کا نشان ۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے
دائروں کے راہی تھے منزلیں کہاں ملتیں
بے مراد ہیں پائوں گرد راہ سے اٹ کر بھی
اور
ہم لوگ دائروں میں چلتے ہیں، دائروں میں چلنے سے دائرے تو بنتے ہیں، فاصلے نہیں کٹتے۔ راہ کی مشکلات سے ڈر کر راستہ بدلنے والوں کا شمار خسارہ پانے والوں میں ہوا کرتا ہے۔
کیوں کہ حادثوں نے ہر صورت اپنی زد میں رکھنا تھا
ہم نے چل کے دیکھا ہے راستے سے ہٹ کر بھی
سو مشکلات کے ڈر سے راہ مستقیم چھوڑنا کوئی دانش مندی نہیں بلکہ پرلے درجے کی بزدلی ، بے وقوفی اور کم ہمتی ہے ۔
اس مختصر سے کالم میں اول تو خود کو جگانا مقصود ہے پھر اپنے پڑھنے والوں کو کہ جو بات سوچی بولی یا لکھی جائے اس کا اثر ضرور پڑتا ہے ۔ اور مجھے یقین ہے کہ اس کالم کے مندرجات کا اثر مجھ پر اور پڑھنے والوں پر ضرور پڑے گا، ان شاء اللہ۔
آخر میں شہر علم سے علم کی سوغات پیش کی جاتی ہے۔ یہ پانچ باتیں اس قابل ہیں کہ انھیں حرز جاں بنا لیا جائے ۔ ان پر سوچا جائے اور کوشش کی جائے کہ یہ ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں ’’ میں تمہیں ایسی پانچ باتوں کی ہدایت کرتا ہوں کہ اگر انہیں حاصل کرنے کے لیے اونٹوں کو ایڑ لگا کر تیز ہنکائو تو وہ اسی قابل ہوں گی: تم میں سے کوئی شخص اللہ کے سوا کسی سے آس نہ لگائے اور اپنے گناہ کے علاوہ کسی شے سے خوف نہ کھائے اور اگر تم میں سے کسی سے کوئی ایسی بات پوچھی جائے کہ جسے وہ نہ جانتا ہو تو یہ کہنے میں نہ شرمائے کہ ’’ میں نہیں جانتا‘‘ اور اگر کوئی شخص کسی بات کو نہیں جانتا تو اس کے سیکھنے میں شرمائے نہیں اور صبر و شکیبائی اختیار کرو کیوں کہ صبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کو بدن سے ہوتی ہے۔ اگر سر نہ ہو تو بدن بیکار ہے، یونہی ایمان کے ساتھ صبر نہ ہو تو ایمان میں کوئی خوبی نہیں۔





