Column

نشان پاکستان شہید بھٹو کی46ویں برسی

تحریر :روہیل اکبر
چار اپریل پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن جب ایشیاء کے عظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو شہید کو تختہ دار پر لٹکا یا گیا شہید بھٹو نے پاکستان کے غریب عوام کی خاطر پھانسی کے پھندے کو قبول کر لیا لیکن کسی ڈکٹیٹر کے سامنے سر نہیں جھکایا انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بی بی شہید نے بھی جمہوریت کی بحالی کی خاطر اپنی جان کی قربانی دے دی بھٹو شہید آج بھی غریب انسانوں کے دلوں میں زندہ ہے ملک کو ایٹمی قوت بنانا شہید بھٹو کا عظیم کارنامہ ہے اس وقت کے ڈکیٹر نے ایک منظم سازش کے ذریعے عالم اسلام کے عظیم ہیرو شہید ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر پاکستان پر کاری ضرب لگائی بھٹو کا قتل پوری انسانیت کا قتل تھا جو وطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ ایک سیاہ علامت کے طور پر یاد رکھا جائے گا شہید ذوالفقار علی بھٹو کوبچھڑے 46برس بیت چکے ہیں لیکن آج بھی پاکستان کی سیاست قائد عوام شہیدبھٹوکے گرد گھومتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنی مختصر زندگی میں پاکستان کے محنت کش ہاریوں،کسانوں،مزدوروں،صحافیوں،دانشوروں،قانون دانوں،خواتین اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی فلاح وبہبود کیلئے جو کچھ کیا وہ ایک ناقابل فراموش کارنامہ ہے شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ملک پاکستان کو متفقہ آئین دیا وطن عزیز کے غریب، محکوم، محنت کش، مظلوم، مزدور طالب علم، ریڑھی بان او رپسے ہوئے طبقات کی آواز بن کر انھیں جینا سکھایا اور اپنا حق لینے کا ڈھنگ سکھایا 90ہزار پاک فوج کے جو انوں کی باعز ت واپسی، اٹامک انرجی کی بنیاد اور اس ملک کو ایٹمی قوت بنایا شہید ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دے کر ایک انقلاب بر پا کیا جس کو عملی جامع پہنانے کے لیے بی بی شہید نے اپنا تاریخی کر دار ادا کیا قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو شہید امت مسلمہ کے عظیم لیڈر تھے بھٹوشہید کا نعم البدل آج تک امت مسلمہ کو نہ مل سکا ہے۔
بین الاقوامی سیاست میں بھٹو شہید کے انتہائی اعلیٰ اور جا ندار کر دار پر پوری دنیا شہید بھٹو کی معترف ہے پاکستان پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے جس کی بنیاد مسئلہ کشمیر پر رکھی گئی ہے قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے کہا تھا کہ ہم کشمیر کی آزادی کے لیے ہزار سال تک جنگ لڑیں گے بھٹوشہید کی انتھک محنت کی بدولت آج پاکستان ایٹمی قوت ہے اورعالمی برادری کی صف اول میں انتہائی مضبوط انداز میں کھڑا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو 5جنوری 1928ء کو لاڑکانہ کے قریب شاہ نواز بھٹو اور خورشید بیگم کے ہاں پیدا ہوئے ان کے والد جوناگڑھ کی شاہی ریاست کے دیوان تھے اور برطانوی راج کے عہدیداروں کے ساتھ ان کے بااثر تعلقات تھے ذوالفقار ان کا تیسرا بیٹا تھا ان کا پہلابیٹا سکندر علی 1914ء میں سات سال کی عمر میں نمونیا سے انتقال کر گیا تھا اور دوسرابیٹا امداد علی 1953ء میں 39سال کی عمر میں انتقال کر گیا تھا بھٹو کیتھیڈرل اور جان کونن اسکول بعد میں سینٹ زیویئر کالج ممبئی میں پڑھے اس کے بعد وہ تحریک پاکستان میں بھی سرگرم ہو گئے 1943ء میں ان کی شادی شیریں امیر بیگم سے طے پائی 1947ء میں بھٹو کو پولیٹیکل سائنس پڑھنے کے لیے یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں داخل کرایا گیا 1949ء میں ایک سوفومور کے طور پر بھٹو کا تبادلہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے ہو گیا جہاں انہوں نے B.Aکی ڈگری حاصل کی اور پھر 1950 ء میں سیاسیات میں ( آنرز) ڈگری حاصل کی ایک سال بعد 8ستمبر 1951ء کو انہوں نے ایرانی نژاد خاتون نصرت اصفہانی سے شادی کی جو بعد میں بیگم نصرت بھٹو کے نام سے مشہور ہوئیں ان کے ہاں پہلی بیٹی بے نظیر 1953ء میں پیدا ہوئی اس کے بعد 1954ء میں مرتضیٰ، 1957ء میں صنم اور 1958ء میں شاہنواز پیدا ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے 1971 ء سے 1973ء تک پاکستان کے چوتھے صدر اور بعد میں 1973ء سے 1977ء تک پاکستان کے نویں وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں ذوالفقار علی بھٹو صدر اسکندر علی مرزا کے دور میں کابینہ کے رکن تھے 1958ء سے صدر ایوب خان کے فوجی دور میں مختلف وزارتوں پر فائز رہے بھٹو 1963ء میں وزیر خارجہ بنے بھٹو نے 1967ء میں پی پی پی قائم کی اکتوبر 1966ء میں بھٹو نے اپنی نئی پارٹی کے عقائد کو واضح طور پر بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ "اسلام ہمارا عقیدہ ہے، جمہوریت ہماری پالیسی ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے اور تمام طاقت عوام کے لیے ہے بھٹو نے اسلامی سوشلسٹ ایجنڈے پر توجہ مرکوز کی اور 1970ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا عوامی لیگ اور پی پی پی اقتدار کی منتقلی پر متفق نہ ہو سکے جس کی وجہ سے بنگلہ دیش الگ ہوگیا جس کے بعد بھٹو نے دسمبر 1971ء میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے صدارت کا عہدہ سنبھالا اپنی صدارت کے دوران بھٹو نے 93000جنگی قیدیوں کی رہائی حاصل کی اور شملہ معاہدے کے ذریعے پانچ ہزار مربع میل ہندوستان کے زیر قبضہ علاقہ واپس لیا بھٹو نے چین اور سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات مضبوط کیے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا اور 1974ء میں لاہور میں اسلامی کانفرنس کی میزبانی کی بھٹو حکومت نے 1973ء میں پاکستان کے موجودہ آئین کا مسودہ تیار کیا جس کے بعد وہ وزیر اعظم کے عہدے پر منتقل ہو گئے انہوں نے ملک کے ایٹمی پروگرام کو شروع کرنے میں اہم کردار ادا کیا 1977ء کے پارلیمانی انتخابات جیتنے کے باوجود بھٹو کو بڑے پیمانے پر ووٹوں میں دھاندلی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا جس سے ملک بھر میں حالات خراب ہوگئے اور 5جولائی 1977ء کو فوجی سربراہ محمد ضیاء الحق نے بھٹو کو ایک فوجی بغاوت میں معزول کر دیا 1979ء میں متنازعہ طور پر مقدمہ چلا اور پھانسی دی گئی ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزیر اعظم پاکستان رہ چکی ہیں اور ان کے داماد آصف علی زرداری اب دوسری بار صدر پاکستان ہیں لیکن ان کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے انہیں کراچی کے ہسپتال میں زیر علاج رکھا ہوا ہے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے جبکہ بھٹو کا نواسہ بلاول بھٹو زرداری پی ڈی ایم حکومت میں وزیر خارجہ اور اس وقت رکن قومی اسمبلی ہیں بھٹو کی نواسی آصفہ بھٹو زرداری بھی رکن قومی اسمبلی ہیں ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق سندھی راجپوت خاندان سے تھا۔
Owen BennettJonesلکھتے ہیں کہ اس خاندان کاشجرہ نسب 9ویں صدی کے بھاٹی قبیلے کے ایک راجپوت شہزادے سے ملتا ہے جس نے تنوٹ ( موجودہ راجستھان ہندوستان میں) کے قصبے پر حکومت کی تھی بھٹو کے آبا اجداد بعد میں مختلف راجستھانی تاریخوں میں نمایاں کرداروں میں نظر آئے جن میں سے 7ویں صدی سے پہلے سندھ کے خاندان نے اسلام قبول کیا تھاذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حکومت کے دوران بے تحاشا اور بے شمار کام کیے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والا کام تو سب کو معلوم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے دیہی اور شہری اسکولوں کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کیا ۔
جس میں تقریباً 6500ایلیمنٹری اسکول، 900مڈل اسکول، 407ہائی اسکول، 51انٹرمیڈیٹ کالج، اور 21 جونیئر کالج شامل تھے 1974ء میں اسلام آباد میں عالمی معیار کی قائد اعظم یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے قیام کا سہرا بھی بھٹو کوجاتا ہے 1973ء میں ڈیرہ اسماعیل خان میں گومل یونیورسٹی کی بنیاد رکھی 1967 ء میں عبدالسلام کے ساتھ مل کر انسٹی ٹیوٹ آف تھیوریٹیکل فزکس قائم کیا 1975ء میں علامہ اقبال میڈیکل کالج کی بنیاد رکھی 1974ء میں عبدالسلام کی مدد سے بھٹو نے نتھیاگلی میں بین الاقوامی نتھیاگلی سمر کالج آن کنٹیمپریری فزکس (INSC)کی منظوری د ی 1976ء میں بھٹو نے شمالی وزیرستان میں انجینئرنگ کونسل، انسٹی ٹیوٹ آف تھیوریٹیکل فزکس، پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز اور کیڈٹ کالج رزمک قائم کیا اس کے علاوہ انہوں نے ملتان، بہاولپور اور خیرپور میں چار نئی یونیورسٹیوں کا افتتاح کیا پیپلز اوپن یونیورسٹی منصوبے نے اسلام آباد میں کام شروع کیاانکی حکومت کی تعلیمی پالیسی میں فیس میں کمی اور کم تنخواہ والے ملازمین کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے متعدد وظائف کی فراہمی شامل تھی۔
1957ء میں بھٹو اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے سب سے کم عمر رکن بنے انہوں نے اکتوبر میں اقوام متحدہ کی چھٹی کمیٹی برائے جارحیت سے خطاب کیا اور 1958ء میں سمندر کے قانون پر اقوام متحدہ کی پہلی کانفرنس میں پاکستانی وفد کی قیادت کی اسی سال بھٹو پاکستان کے سب سے کم عمر کابینہ کے وزیر بن گئے اپنی مدت کے دوران بھٹو نے بھارت کے خلاف جارحانہ جیوسٹریٹیجک اور خارجہ پالیسیاں بنائیں 1965ء میں بھٹو نے اپنے دوست منیر احمد خان سے بھارت کے ایٹمی پروگرام کی صورتحال کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور کہا کہ پاکستان لڑے گا ہزار سال تک لڑے گا اگر ہندوستان ( ایٹم) بم بناتا ہے تو پاکستان گھاس یا پتے کھائے گا یہاں تک کہ بھوکا سوئے گا لیکن ( پاکستان) اپنا ایک ( ایٹم بم) حاصل کرے گا ہمارے پاس ( پاکستان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے!)2اپریل 2011ء کو، بھٹو کے مقدمے اور پھانسی کے 32سال بعد پیپلز پارٹی ( اس وقت کی حکمران جماعت) نے سپریم کورٹ آف پاکستان (SCP)میں بھٹو کے مقدمے کو دوبارہ کھولنے کے لیے درخواست دائر کی اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ نے مقدمے کو دوبارہ کھولنے کے لیے ایک قانونی ٹیم کا اہتمام کیا صدر آصف علی زرداری نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت نتیجے میں آنے والے صدارتی حکم پر رضامندی ظاہر کی اور سپریم کورٹ نے 13اپریل 2011ء کو اس درخواست پر سماعت کی چیف جسٹس افتخار چودھری نے بالآخر تین ججوں پر مشتمل بینچ کی صدارت کی ( جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے ماہرین قانون کے ساتھ توسیع کی گئی) اور آخر کار 6مارچ 2024ء کو چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک نو رکنی بینچ نے صدارتی ریفرنس کے جواب میں یہ رائے دی کہ بھٹو کو منصفانہ ٹرائل فراہم نہیں کیا گیا جیسا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 4اور 9میں بتایا گیا ہے ذوالفقار علی بھٹو 11کتابوں کے مصنف بھی ہیں ان کی پہلی کتاب اقوام متحدہ کی طرف سے امن کی حفاظت جو پاکستان پبلشنگ ہاس کراچی نے 1967ء شائع کی۔ دوسری کتاب پاکستان میں سیاسی صورتحال ویششر پرکاشن نئی دہلی 1968ء ، تیسری کتاب آزادی کا افسانہ، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی اور لاہور 1969ء ، چوتھی کتاب عظیم سانحہ پاکستان پیپلز پارٹی کراچی 1971ء ،پانچویں کتاب جمہوریت کی طرف مارچ ( تقریروں کے مجموعے) 1972ء ، چھٹی کتاب لوگوں کی سیاست ( تقریریں، بیانات اور مضامین) 1948۔1971ء ، ساتویں کتاب دی تھرڈ ورلڈ: نیو ڈائریکشنز کوارٹیٹ بکس لندن 1977ء ،آٹھویں کتاب میرا پاکستان بسون سادی پبلی کیشنز نئی دہلی 1979ء ، نویں کتاب اگر میں قتل ہو گیا ہوں وکاس نئی دہلی 1979ء ،دسویں کتاب مائی ایگزیکیوشن مساوات ویکلی انٹرنیشنل، لندن 1980ء اور گیارہویں کتاب نیو ڈائریکشنز نرمارا پبلشرز، لندن 1980ء کو شائع ہوئی۔ ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دینے کے 46سال بعد بے گناہ قرار دیا گیا اور 23مارچ کو انہیں ان کے داماد اور صدر پاکستان آصف علی زرداری نے نشان پاکستان کا اعزاز عطا کیا۔

جواب دیں

Back to top button