پاکستان ’’ ہارڈ اسٹیٹ‘‘ ماڈل کتنا موثر ؟
تحریر: قادر خان یوسف زئی
پاکستان کے حوالے سے یہ سوال اہم بنتا ہے کہ کیا ہم ہارڈ اسٹیٹ کی طرف بڑھ کر اپنی داخلی اور خارجی چیلنجز کا حل نکال سکتے ہیں؟ کیا ہماری ریاست ایسی مضبوطی اختیار کر سکتی ہے جس سے ہمارے معاشرتی و اقتصادی مسائل حل ہوں اور ہمیں ان خطرات کا سامنا نہ ہو جو ہر دن بڑھتے جا رہے ہیں؟ ان سوالات کا جواب صرف فوج یا حکومت نہیں، بلکہ عوام بھی اس میں شریک ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان ایک پیچیدہ جغرافیائی و سیاسی صورتحال کا شکار ہے۔ یہاں دہشت گردی، انتہاپسندی اور دوسرے داخلی مسائل اپنی شدت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان مسائل کا سامنا کرتے ہوئے سخت اقدامات کے بجائے نرم حکومتی پالیسیوں کو اپنانا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ لیکن یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ آیا اس صورتحال میں ’’ ہارڈ اسٹیٹ‘‘ کی طرف بڑھنا اتنا آسان ہے؟، کیا ہمیں طاقت کے استعمال میں احتیاط کی ضرورت نہیں؟، جنرل منیر کے بیان میں یہ بات بھی واضح کی گئی کہ ’’ موجودہ دور میں سختی سے حل ممکن نہیں‘‘، اور یہی وہ اہم نکتہ ہے جو پاکستان جیسے ملک کے لیے بہت غور و فکر کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں جہاں ایک طرف دہشت گردوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی بات ہو رہی ہے، وہاں دوسری طرف یہ سوال بھی اہمیت رکھتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ہم آہنگی اور اس کے ادراک کی کتنی اہمیت ہے۔ جنرل عاصم منیر کے بیان میں یہ بات واضح کی گئی کہ ’’ ملک کی سلامتی سے بڑھ کر کوئی ایجنڈا، تحریک یا شخصیت نہیں‘‘۔ اس بیان میں ایک طرف تو ریاستی طاقت اور حکومتی اقدامات پر زور دیا گیا ہے، لیکن دوسری طرف یہ بھی پیغام دیا گیا ہے کہ یہ طاقت صرف اُس صورت میں موثر ہو سکتی ہے جب اس کے پیچھے تمام ریاستی اداروں کی حمایت اور ہم آہنگی ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی ذاتی مفادات سے بڑھ کر ملکی مفاد کو ترجیح دیں اور ایک متفقہ قومی حکمت عملی پر متفق ہوں۔ پاکستان کی تاریخ میں مختلف حکومتوں نے مختلف مواقع پر ’’ ہارڈ اسٹیٹ‘‘ کے ماڈل کو اپنانے کی کوشش کی ہے، مگر ان تمام تجربات کے نتائج ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ ریاست طاقت کا استعمال کرے، بلکہ یہ ہے کہ وہ طاقت کب اور کس موقع پر استعمال کرے تاکہ اس کے نتائج ریاستی استحکام کے حق میں ہوں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا کردار اس وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہے، خاص طور پر جب بات ریاستی استحکام اور سلامتی کی ہو۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ سیاسی جماعتیں اپنے آپ میں ایک قوت ہیں، اور جب یہ جماعتیں آپس میں متفق نہیں ہوتیں، تو ریاستی پالیسیوں کا نفاذ بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک مضبوط اور طاقتور ریاست بننے کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی قوتیں ایک میز پر آ کر مذاکرات کریں اور مشترکہ قومی مفاد کے لیے ایک واضح لائحہ عمل تیار کریں۔ پاکستان کی تاریخ میں ہم نے متعدد بار یہ دیکھا ہے کہ جب سیاسی جماعتیں آپس میں متفق ہو جاتی ہیں، تو ریاستی معاملات میں ایک نئی روح پھولتی ہے اور عوام میں بھی ایک نیا جذبہ آتا ہے۔ اسے کئی مواقع پر دیکھا جا چکا ہے۔
جب ہم ’’ ہارڈ اسٹیٹ‘‘ کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا مطلب صرف طاقت کا استعمال نہیں ہوتا، بلکہ ریاستی اداروں کی ہم آہنگی، قومی طاقت کے تمام عناصر کا مل کر کام کرنا اور سب سے بڑھ کر عوام کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر پاکستان واقعی ایک ہارڈ اسٹیٹ بننا چاہتا ہے، تو اسے اپنی داخلی و خارجہ پالیسیوں میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ طاقت کا استعمال ہمیشہ سیاسی و سماجی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے، تاکہ اس کے اثرات ریاست اور عوام دونوں کے حق میں ہوں۔ ریاست اپنے داخلی مسائل کو حل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کی بجائے ایک حکمت عملی اپناتی ہے جو قومی مفاد میں ہو۔ لیکن اس حکمت عملی کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ اس میں طاقت اور سیاست کا توازن کس طرح قائم رکھا جاتا ہے۔ پاکستان کو ’’ ہارڈ اسٹیٹ‘‘ کی طرف بڑھنا ہے تو اسے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ طاقت کے استعمال کے باوجود عوام کی آزادیوں اور حقوق کی ضمانت دی جائے، تاکہ اس کا نتیجہ ریاستی استحکام میں اضافہ ہو، نہ کہ عوامی بے چینی اور احتجاجات کا سبب۔
یہ سوال کہ ’’ کیا ہمیں ہارڈ اسٹیٹ کے ماڈل کی طرف جانا چاہیے؟‘‘، صرف فوج یا حکومتی اداروں کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری سے بھی ہے۔ جب تک سیاسی جماعتیں اپنی صفوں میں اتحاد قائم نہیں کرتیں، اس وقت تک ملک میں استحکام پیدا کرنا ممکن نہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایک متفقہ قومی حکمت عملی پر بات کرنی ہوگی۔ اس کے بغیر دہشت گردی کے خلاف ’’ ہارڈ اسٹیٹ‘‘ کے تصور کو عملی جامہ پہنانا نہ صرف مشکل ہوگا بلکہ اس کے منفی اثرات بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ پاکستان میں جب تک تمام سیاسی قوتیں اپنے آپسی اختلافات کو ختم نہیں کرتیں اور مشترکہ مقصد کے لیے کام نہیں کرتیں، اس وقت تک ریاست کی طاقت میں یکجہتی پیدا کرنا ایک خواب ہی رہے گا۔ یہاں تک کہ اگر ریاست ’’ ہارڈ اسٹیٹ‘‘ بننے کی کوشش بھی کرتی ہے، لیکن اگر سیاسی جماعتیں اس کے ساتھ نہیں ہوں گی تو اس کے اثرات اس سے بالکل مختلف ہو سکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اپنے عہد و پیمان کو مضبوط کرنا ہوگا اور قومی مفاد کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم پر متحد ہونا ہوگا۔
پاکستان کی تاریخ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ جب سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر آتی ہیں تو ریاستی استحکام میں اضافہ ہوتا ہے اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کی طاقتور ریاست کے طور پر شناخت قائم ہوتی ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں کے اندر تضادات اور لڑائیاں بڑھتی رہیں تو اس کا فائدہ صرف دشمنوں کو ہوگا اور پاکستان کے داخلی استحکام کو مزید نقصان پہنچے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ سیاست دان اپنے ذاتی مفادات سے بڑھ کر ملک کی سلامتی کو سب سے اہم ترجیح دیں۔ اس میں شک نہیں کہ سخت فیصلے ملک کے مستقبل کے لیے ضروری ہو سکتے ہیں، مگر ان فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے تمام اداروں کو ایک صفحے پر آنا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں سخت فیصلے اہم ہو سکتے ہیں، مگر ان فیصلوں کا نفاذ سوچ سمجھ کر اور درستی کے ساتھ کیا جانا چاہیے تاکہ اس سے قوم کے اتحاد میں اضافہ ہو اور نہ کہ تقسیم۔





