Column

پاکستان میں ڈرون حملے

تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے بعض علاقے ان دنوں دہشت گردی کے واقعات کی زد میں رہے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے ان علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف متعدد فوجی آپریشن کیے گئے ہیں، جن میں آپریشن راہ راست، آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد شامل ہیں۔ ان آپریشنز کا مقصد دہشت گرد تنظیموں اور ان کے نیٹ ورک کو ختم کرنا تھا۔ تاہم دہشت گرد عناصر کی طرف سے حملے اور جوابی کارروائیاں وقتاً فوقتاً جاری رہی ہیں۔
ڈرون حملے جو پہلے زیادہ تر قبائلی علاقوں میں ہوتے تھے اب دیگر علاقوں میں بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ ان کا مقصد دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا ہوتا ہے مگر ان حملوں میں معصوم شہریوں کی جانیں جانا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔
عیدالفطر سے دو روز قبل مردان کی تحصیل کاٹلنگ کے پہاڑی علاقے میں ایک ڈرون حملہ کیا گیا جس کا مقصد مبینہ شدت پسندوں کو نشانہ بنانا تھا جو کہ عید کے موقع پر ممکنہ دہشت گردی کی کارروائیاں کر سکتے تھے۔ اس حملے میں چرواہے خاندان کے 9افراد ہلاک ہوگئے جن میں دو خواتین اور دو بچے بھی شامل ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت نے اس واقعے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثا کے لیے پچاس پچاس لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے ۔
یہ واقعہ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کیا گیا ہے جس کا مقصد دہشت گردوں کے ممکنہ حملے کو ناکام بنانا تھا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انٹیلی جنس معلومات مکمل طور پر درست اور مصدقہ تھیں؟ اگر نہیں تو اس کی ناکامی کی وجوہات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
ڈرون حملے اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کا ایک موثر طریقہ سمجھا جاتا ہے، مگر اس میں غلطیوں کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ خصوصاً ایسے علاقوں میں جہاں خانہ بدوش اور چرواہے عارضی طور پر قیام پذیر ہوتے ہیں، وہاں شناخت میں غلطی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
مظاہرین نے مقتولین کی لاشیں سوات ایکسپریس وے پر رکھ کر احتجاج کیا اور سڑک کو کئی گھنٹے بند رکھا۔ اس ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام میں اس طرح کے حملوں کے خلاف گہرا غصہ اور مایوسی پائی جاتی ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور متاثرین کے لیے امداد کا اعلان بھی کیا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات کافی ہیں؟ محض مالی امداد دینا متاثرین کی دلجوئی کے لیے ناکافی ہے۔ اس قسم کے واقعات کے تدارک کے لیے مثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
یہ واقعہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ ڈرون حملوں کے دوران معصوم جانوں کا ضیاع ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اگرچہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں ضروری ہیں، مگر ان کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد میں احتیاط اور درستگی کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
بلا شبہ سرچ آپریشنز اور دہشت گردوں کی نشاندہی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے، مگر انٹیلی جنس معلومات کی درستی کو یقینی بنانا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ، حکومت کو چاہیے کہ متاثرہ خاندانوں کی بحالی اور ان کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کری، تاکہ عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور غم و غصہ کم ہو سکے۔
یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انسانی جانوں کے تحفظ کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے انٹیلی جنس معلومات کی جانچ پڑتال، ڈرون حملوں کے طریقہ کار میں بہتری اور متاثرہ علاقوں کے عوام کے ساتھ بہتر روابط قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button