ڈیجیٹلائزیشن ہر ایک کو ہی متاثر کر رہی ہے

تحریر : شاہد ندیم احمد
اس وقت جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی معیشتوں اور معاشروں میں جہاں انقلاب برپا کر رہی ہے ،وہیں اس کے بطور ہتھیار استعمال سے انسانوں اور کرہ ارض کے لیے خطرات بھی بڑھتے جا رہے ہیں،یہ بات سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے سائبر سپیس میں بڑھتے ہوئے خطرات پر سلامتی کونسل کے مباحثے میں کہی ہے ، انہوں نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی انقلابی طاقت پر روشنی ڈالتے ہوئے، لاحق خطرات کا تفصیلی تذکرہ بھی کیاہے ،ان کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی انتہائی تیزرفتار سے ترقی پا رہی ہے اور اس کی بدولت لوگ ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں اور معیشت، تجارت و مالیاتی شمولیت کو تیزی سے فروغ حاصل ہو رہا ہے، تاہم اس سے ناصرف ریاست بلکہ غیرریاستی کرداروں اور جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے سائبر سپیس میں ضرررساں سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں ،اس سے عام لوگوں، معاشروں، ممالک اور دنیا کو نقصان بھی ہو رہا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھتے ہوئے فوائد و نقصانات یکساں ہورہے ہیں ، اس میں ضروری ہے کہ فوائد کے تناسب کو بڑھایا جائے ،اور نقصانات کو کم کیا جائے ،لیکن یہ اس وقت ہی ممکن ہو گا کہ جب مل کر کوئی مشتر کہ کاوشیں کی جائیں گی ،یہ مسئلہ کسی ایک ملک یا کسی ایک خطے کا نہیں ہے ، اس سے امر یکہ ،بر طانیہ جسے ممالک بھی نہیں بچے ہوئے ہیں۔ بر طانیہ میں ایک رپورٹ کے مطابق نو عمر لڑکوں کے آن لائن گروہ ایک نئے بڑے خطرے کے طور پر سامنے آئے ہیں، جو کہ سائبر کرائم کے ساتھ دیگر سنگین جرائم میں بھی ملوث ہو رہے ہیں، نیشنل کرائم ایجنسی کے مطابق، یہ گروہ فحش، متشدد اور خواتین مخالف مواد شیئر کر کے دھوکا دہی، بلیک میلنگ، جنسی استحصال اور دیگر سنگین جرائم کو فروغ دے رہے ہیں۔
یہ سائبر کرائم کا خطرہ صرف برطانیہ تک ہی محدود نہیں رہا ہے بلکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بھی سنگین نتائج کا سبب بن رہا ہے ،ہمارے ہاں پہلے ہی سوشل میڈیا پر بلیک میلنگ، ہیکنگ، اور آن لائن ہراسانی کے متعدد کیس رپورٹ ہو رہے ہیں،ہمارے نوجوانوں میں آن لائن گیمنگ اور سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رحجان کے باعث خدشات بڑھ رہے ہیں کہ وہ بھی ایسے ہی گروہوں کا حصہ بن سکتے ہیں، جو کہ ان کی اخلاقی تباہی کا نہ صرف باعث بنیں گے، بلکہ انہیں دیگر جرائم کا بھی عادی بنادیں گے، تاہم، ہمارے یہاں ڈیجیٹل کرائم کا مطلب صرف وہی جرم لیا جاتا ہے ،جو کہ حکومت مخالف بیانیی سے جڑا ہو، جبکہ ایسے سنگین جرائم بچوں کے ذہنی اور جسمانی استحصال، بلیک میلنگ اور آن لائن تشدد سے متعلق ہیں، لیکن ان پر خاطر خواہ توجہ ہی نہیں دی جا رہی ہے۔
اس ملک میں پیکا ایکٹ بنیادی طور پر سائبر کرائمز کے خاتمے کے لیے ہی متعارف کروایا گیا تھا، مگر اس کا زیادہ تر استعمال آزادیِ اظہار کو دبانے، صحافیوں کو دیوار سے لگانے اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف ہی استعمال کیا جا رہا ہے، جبکہ دوسری جانب ، بلیک میلنگ، چائلڈ ایکسپلوٹیشن، آن لائن ہراسانی اور مالیاتی دھو کا دہی جیسے حقیقی ڈیجیٹل جرائم پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی ہے ، اس مسئلہ کا سد باب کر نے کیلئے ضروری ہے کہ والدین، تعلیمی ادارے اور ریاستی ادارے مل کر کام کر یں،اس وقت آن لائن سیکورٹی کے سخت قوانین، سائبر کرائم کے خلاف موثر کارروائیاں، اور والدین کی جانب سے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھنا ناگزیر ہو چکا ہے ، اگر حکو مت کے ساتھ اب بھی دیگرطبقہ فکر کے لو گوں نے مل کر ساتھ نہ دیا تو یہ مجازی دنیا کا اندھیرا ہماری نئی نسل کو تباہی کی طرف دھکیل دے گا۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ڈیجیٹل دور میں سائبر کرائم ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے، اس کا مثر حل مضبوط قوانین اور ان پر سختی سے عمل درآمد میں ہی ہے،جو کہ نہیں ہو رہا ہے ، اس لیے ہی سائبر کرائم بے قا بو ہو تا جارہا ہے ،اگر اس پر قابو پانا ہے تو اس بارے آگاہی اور مزید قوانین کے نفاذ کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان قوانین کی آڑ میں سیاسی مخالفین کو ہدف بنانے کے بجائے، انھیں عوام کی حفاظت اور پرائیویسی کے تحفظ کے لیے ہی بروئے کار لایا جائے ، اس ڈیجیٹلائزیشن کے دور میںسائبر کرائم کے خلاف اقدامات حکومت کی اوّلین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے ،مستقبل میں قانون کے مزید موثر نفاذ اور لوگوں کی تعلیم و آگاہی کے ذریعے ہی سائبر کرائمز کے واقعات میں کمی ممکن ہو سکتی ہے، دنیا میں عالمی تعاون اور ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کے ساتھ ہی ہم سائبر دنیا کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔





