بھٹو کا دوبارہ ہیرو بننے کا سفر

تحریر : روشن لعل
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا نام اور ناقابل فراموش کردار ہے۔ جنوری کی 5تاریخ اس عہد ساز شخصیت کا یوم پیدائش اور 4اپریل تاریخ شہادت ہے۔ بھٹو نے 1958سے 1966تک وزیر خارجہ کے اہم عہدے سمیت دیگر مختلف وزارتوں پر کام کیا۔ 16دسمبر 1971کو جب مشرقی پاکستان ، ایک الگ ملک ، بنگلہ دیش بن گیا تو اس وقت کے صدر پاکستان اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان کے ماتحت فوجی جرنیلوں نے اسے سبکدوش ہونے پر مجبور کرتے ہوئے بھٹو کو شکست خوردہ پاکستان کی حکومت سنبھالنے کی پیشکش کی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔ یوں بھٹو نے 20دسمبر 1971کو صدر پاکستان اور سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے حکومت سنبھالی۔ حکومت سنبھالنے کے بعد بھٹو نے جس قدر جلد ممکن تھا ایک عبوری آئین تیار کیا اور اسے اسمبلی سے منظور کرانے کے بعد اپریل 1972میں سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سے جان چھڑائی۔ بعد ازاں بھٹو نے تمام اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے ایک متفقہ آئین تیار کیا جسے اپریل1973 میں قومی اسمبلی سے منظور کرایا گیا۔ 1973کے آئین کی تشکیل کو بھٹو کا تاریخ ساز کارنامہ تصور کیا جاتا ہے۔ اسی آئین کے تحت بھٹو نے 14اگست 1973کو ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے 5سال کی مدت کے لیے حلف اٹھایا۔ جنوری 1977میں بھٹو نے اپنی حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے اسی سال مارچ میں عام انتخابات منعقد کرانے کا اعلان کر دیا۔ انتخابات اعلان کردہ شیڈول کے مطابق ہوئے لیکن اپوزیشن جماعتوں کے قومی اتحاد نے انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے پرتشدد احتجاجی تحریک شروع کردی ۔ کچھ ناخوشگوار واقعات کے بعد بھٹو سراپا احتجاج اپوزیشن کو مذاکرات کی میز تک لے آئے ۔ اپوزیشن لیڈروں نے مذاکرات کے دوران قومی اسمبلی کی جن نشستوں کے نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ان کے لئے طے ہوا کہ ان نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرائے جائیں گے ۔ یہ بات 4جولائی 1977کو طے ہوئی جس کے مطابق اگلے روز یعنی 5جولائی کے دن طے شدہ معاہدے پر دستخط ہونا تھے لیکن جنرل ضیاء نے 4اور5جولائی کی درمیانی رات کو ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔
یاد رہے اس کے فوراً بعد ضیاء الحق ملک کا چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور وہ لوگ اس کے وزیر بنے جنہوں نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا تھا جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے بے بنیاد مقدمے میں پابند سلاسل کر دیا گیا۔ اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے ساتھی تو ضیا حکومت سے انتخابات کے فوری انعقاد کا مطالبہ کرتے رہے مگر وہ لوگ جنہوں نے پیپلز پارٹی پر دھاندلی کا الزام لگاکر احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے ضیا مارشل لاء کی راہ ہموار کی تھی وہ انتخابات سے فرار کے راستے ڈھونڈتے پائے گئے۔ اس ناقابل تردید تاریخی حقیقت سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ پیپلز پارٹی پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگانے والوں کی سیاسی حیثیت بھٹو کے مقابلے میں کس قدر کم تر تھی اور دھاندلی کے الزامات کی بنیاد پر شروع کی گئی ان کی پرتشدد تحریک کے درپردہ مقاصد کیا تھے۔
قتل کے جس مقدمے میں بھٹو کو گرفتار کیا گیا اس میں جسٹس صمدانی نے فوراً بھٹو کی ضمانت لیتے ہوئے اپنے فیصلے میں واضع طور پر لکھا کہ مقدمے کے لیے پیش کئے گئے ثبوت ناکافی اور ان میں تضاد موجود ہے لہذا عدالت کے احکامات کے بغیر بھٹو صاحب کو دوبارہ گرفتار نہ کیا جائے ۔ اس واضع عدالتی حکم کے باوجود مارشل لاء کے ضابطہ 12 کے تحت انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد یہ واضح ہوا کہ ضیاء الحق ایک بے بنیاد مقدمے کو کس سمت میں لے کر جانا چاہتا ہے۔ اس کے بعد بھٹو شہید سے عناد رکھنے والے اور ضیاء سے مراعات لینے والے ججوں کے ذریعے پہلے لاہور ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ سے اس عظیم لیڈر کو سزائے موت دلوائی گئی۔ قانون کی تاریخ کے جس بد ترین اور معاندانہ فیصلے کے ذریعے بھٹو کو پھانسی دی گئی اسے عرف عام عدالتی قتل کہا گیا۔ اس عدالتی قتل پر عملدرآمد 4اپریل 1979کو کیا گیا لیکن اس کے باوجود بھٹو کو مارا نہیں جا سکا کیوں کہ بھٹو اس ملک کے غریب عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہنے کی راہ ہموار کر چکا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی بدنام زمانہ قتل کے مقدمہ میں پھانسی کے بعد بھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر انہیں ایک نامور اور زیرک سیاستدان کے طور پر یاد کیا جاتا رہا۔ عالمی سیاست اور حالات پر نظر رکھنے والے لوگوں نے بھٹو کی سزائے موت کی وجہ قتل کے الزام کی بجائے ن کا سیاسی طرز عمل کو قرار دیا۔ بھٹو کی سزائے موت کے متعلق اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ جس دور میں انہیں پھانسی دی گئی اس دور کی بین الاقوامی سیاست نے ان کی سزائے موت کے فیصلے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ بھٹو ایک بہت بڑا سیاسی لیڈر تھا۔ اس کی قائم کردہ پیپلز پارٹی آج بھی اس کے نام پر ووٹ حاصل کر کے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے باوجود بھٹو کا نام عرصہ دراز تک عدالتی ریکارڈ میں ایک مجرم کے طور پر درج رہا۔ بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والے ایک جج نسیم حسن شاہ نے جب یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ دبائو میں آکر دیا تھا تو نہ صرف بھٹو کو بے گناہ سمجھنے والے لوگوں کی تعداد میں زیادہ اضافہ ہوا ہے بلکہ ایسے لوگوں کے ہاتھ بھٹو کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے زیادہ دلائل آگئے جنہوں نے بھٹو کو کبھی بھی مجرم تسلیم نہیں کیا تھا ۔ بھٹو کی پھانسی کی سزا کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کو کئی برس تک سپریم کورٹ میں زیر التوا رکھا گیا۔ نسیم شاہ کے اعتراف کے بعد بھی بھٹو کی سزائے موت کو جائز سمجھنے والی کچھ گنی چنی آوازیں زیر لب بھٹو کے لیے اپنے تعصب کا اظہار کرتی رہیں۔ ایسی آوازیں گو کہ اب بھی کہیں نہ کہیں سننے میں آجاتی ہیں تاہم یہ اس قدر کمزور ہیں کہ بھٹو کو بے گناہ قرار دینے والی پرزور اور بلند آہنگ آوازوں کے نیچے دب کر رہ جاتی ہیں۔
یہ ایک عیاں حقیقت ہے کہ بھٹو کے عدالتی قتل میں ضیاء الحق نے مرکزی کردار ادا کیا تھا ۔ جس بھٹو کو ضیاء الحق نے عدالتوں کے ذریعے قتل کروایا تاریخ نے اس بھٹو کے حق میں فیصلہ سنایا۔ تاریخ کا یہ فیصلہ ہمیشہ بھٹو کے عدالتی قتل کے فیصلے پر حاوی رہا اور بھٹو کو پاکستان کے لازوال سیاسی رہنما کے طور پر تسلیم کیا جاتا رہا۔ بھٹو کے عدالتی قتل پر مہر ثبت کرنے والے سپریم کورٹ نے 44سال بعد مارچ 2024میں یہ تسلیم کیا کہ بھٹو کو دی پھانسی کی سزا میں عدالت کا کردار شفاف نہیں تھا۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد بھٹو کو حکومت پاکستان کی طرف سے نشان پاکستان سے نوازا گیا ۔ یوں پاکستان کا ایک غیر متنازعہ ہیرو جس کا نام عدالتی ریکارڈ میں مجرم کے طور پر درج کر دیا گیا تھا اسے پھر سے ریاستی سطح پر ہیرو تسلیم کر لیا گیا۔