بہتری کی طرف جاتا راستہ

تحریر : سیدہ عنبرین
بلوچستان قومی منظر نامے میں نظر نہیں آ رہا۔ اگر کہیں ذکر ہوتا ہے تو بس صرف اس حوالے سے کہ فلاں علاقے میں دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز پر حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں متعدد افسر اور جوان جام شہادت نوش کر گئے اور اتنی تعداد میں خوارج ہلاک کر دیئے گئے یا فلاں جگہ بسوں سے اتار کر ان کے شناختی کارڈ چیک کر کے درجن بھر یا اس سے زائد پنجابیوں کو قتل کر دیا گیا۔ دو درجن سے زائد ٹی وی چینلز پر کسی پروگرام میں کوئی بلوچ رہنما، کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی شخصیت بطور مہمان یا مبصر نظر نہیں آتی، کسی اخبار کے ادارتی صفحے پر کسی بلوچ دانشور، کالم نگار، کسی ادیب کی نگارشات نظر نہیں آتیں۔ کیا یہ سب کچھ کسی منصوبہ بندی کے تحت کیا جا رہا ہے، کیا اسی منصوبے کے تحت بلوچستان میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں پر پردہ ڈالا جا رہا ہے؟۔ یہ سوالات ایک شدت سے سامنے آ رہے ہیں، ان کا جواب ملنا چاہئے، مگر خیال رہے کہیں دیر نہ ہو جائے۔ 23مارچ یوم پاکستان کی قومی مرکزی تقریبات میں بلوچستان نظر نہیں آیا، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کو لحد میں اتارتے ہی اس دن پر بھی منوں مٹی ڈال دی گئی تھی، پھر اسے جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے زندہ کیا، اسے قومی تہوار کے طور پر منانے کے انتظامات انہی کے زمانے میں کئے گئے۔ پاکستان ٹیلی ویژن ان اہم قومی ایام کے حوالے سے خصوصی پروگرام تیار کرتا تھا، جس میں کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ سب نمایاں ہوتے تھے۔ پروگراموں کی جان تھے ادبی پروگرام اور ان ایام کی نسبت سے ڈرامے بھی پیش کئے جاتے تھے، جن میں آزادی کی اہمیت، اس کے ثمرات سے روشناس کرایا جاتا ہے، اسی حوالے سے اسلام آباد ٹیلی ویژن سینٹر و دیگر اپنی باری پر ایک کل پاکستان مشاعرے کا انعقاد کرتے تھے، جس میں چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے شعراء کرام کو مدعو کیا جاتا تھا، ایک گلدستہ نظر آتا تھا، جس میں مختلف رنگوں کے پھول اپنی بہار دکھاتے تھے، اب تو سب کچھ خواب ہوا۔
سابق وزیراعلیٰ عطاء اللہ مینگل کے صاحبزادے اختر مینگل جو خود بھی وزیراعلیٰ بلوچستان رہے ہیں، ایک جلوس لے کر کوئٹہ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ یہ احتجاجی جلوس روانہ ہوا تو ہر طرف خاموشی تھی، غالباً انتظار کیا جا رہا تھا کہ اس کے شرکاء کی تعداد واضع ہو جائے۔ پرانی حکمت عملی تھی کہ تعداد کم ہو تو خاموش رہو، تعداد معقول حد تک ہو یا اس سے زیادہ نظر آئے تو بیان بازی شروع کر دو کہ ہم ان سے بات کرنا چاہتے ہیں، مسائل کا حل سڑکوں پر نہیں میز پر بیٹھ کر نکلے گا۔
اختر مینگل کو ایوان سے اٹھا کر میدان میں کس نے پھینکا، کوئی ہے جو یہ ذمہ داری قبول کرے، اس گناہ کو اپنے سر لے۔ اختر مینگل اپنی جماعت کے ساتھ ایوان میں موجود تھے۔ 26ویں آئینی ترمیم کو بزور بازو پاس کرانے کا فیصلہ ہو چکا تھا، پکڑ دھکڑ اپنی انتہا پر تھی۔ اختر مینگل ایوان کے دروازے پر کھڑے اپنے پارٹی ممبران اور ممبران قومی اسمبلی و سینیٹ کا انتظار کر رہے تھے، انہوں نے اس ترمیم میں حکومت کا ساتھ نہ دینے کا اعلان کر دیا تھا، بس یہی ان کا گناہ عظیم تھا، وہ ایوان کے صدر دروازے پر کھڑے رہ گئے، ان کے ممبران پارلیمنٹ کو خفیہ دروازوں سے لایا گیا۔ کیمرے یہ منظر دکھاتے رہے، ایک عمر رسیدہ ممبر پارلیمنٹ ویل چیئر پر لائے گئے، وہ حد درجہ ضعیف اور علیل تھے، ان کی دائیں بائیں سیاہ پوش تھے، آس پاس کسی شخص کو ان کے قریب آنے یا ان سے بات کرنے کی اجازت نہ تھی، وہ آئے، ان سے ترمیم کے حق میں ووٹ ڈلوایا گیا، پھر انہیں اسی خفیہ راستے سے واپس باہر نکالا گیا۔ اختر مینگل یہ سب کچھ بے بسی کی تصویر بنے دیکھتے رہے، ترمیم پاس ہو گئی، خوشی کے شادیانے بجنے لگے، مبارک سلامت کا ایسا شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اختر مینگل نے پھر بھی اپنے جذبات پر قابو رکھا، انہوں نے نہایت شائستہ زبان استعمال کرتے ہوئے تحفظات کا اظہار کیا اور قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں وہ قومی اسمبلی میں اپنا کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ گونگے بہرے تو ہیں نہیں، لیکن اب جہاں ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں وہاں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اختر مینگل اسمبلی سے رخصت ہوئے تو کوئی ان کی دلجوئی کیلئے آگے نہ بڑھا۔ ان کا لانگ مارچ عالمی توجہ کھینچنے میں کامیاب رہا تو کوششیں کی گئی اسے سبوتاژ کیا جائے، تمام کوششیں ناکام بناتے وہ اور شرکاء جلوس مستونگ سے آگے اور کوئٹہ سے کچھ پیچھے تھے کہ خود کش حملہ آور کی آمد ہو گئی، جس نے جلوس کے اندر گھس کر تباہی پھیلانے، متعدد افراد کی جانیں لینے کیلئے ہجوم سے کافی فاصلے پر ہی اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لینا مناسب سمجھا، اس دھماکے میں صرف اس کی جان گئی ہے، لیکن اس خودکش بمبار کا طرز عمل اپنے پیچھے متعدد سوال چھوڑ گیا ہے۔ خودکش بمبار اپنی مرضی سے وہاں نہیں آیا، وہ کسی کی جان لینے کیلئے بھی تیار نہ تھا، اسے زبردستی وہاں بھیجا گیا، لیکن پھر بھی وہ ہجوم سے دور ہی رہا۔ ریموٹ کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں تھا، جب انہوں نے دیکھا کہ خودکش بمبار اپنے ٹارگٹ کو نشانہ نہیں بنا رہا اور اس کے پکڑے جانے اور سارا بھانڈا پھوٹنے کا امکان ہے تو بذریعہ ریموٹ کنٹرول دھماکہ کر دیا گیا۔ باری النظر میں یہ نیک دل خودکش بمبار تھا جس نے اپنی جان دے دی، لیکن درجنوں افراد کی زندگی سے کھیلنا مناسب نہ سمجھا اسے ’’ تمغہ امتیاز‘‘ دیا جانا چاہئے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ خودکش بمبار کو بتایا گیا تھا کہ اس نے حقیقی خودکش حملہ نہیں کرنا، بلکہ نمائشی حملہ کرتا ہے، صرف اپنی جان گنوانی ہے اور احتیاط کرنی ہے کسی اور کی جان ضائع نہ ہو۔ نمائشی حملہ آور ہدایات کے مطابق اپنی جگہ پر پہنچا تو اسے خاصے فاصلے پر رکھ کر اڑا دیا گیا، ہدف کامیابی سے حاصل کر لیا گیا کہ مزید کوئی عوامی جانی نقصان نہ ہو۔
غالب امکان ہے اس حوالے سے بھی حملہ آور پاکستان کیلئے کہیں کوئی نرم گوشہ رکھتے تھے، انہوں نے یاد کیا ہو گا جب بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ میں نشانہ بنایا گیا تو پورے ملک میں اس کا ردعمل دیکھنے میں آیا، پورا ملک دو روز شعلوں کی لپیٹ میں رہا، بالخصوص سندھ میں تو ایسی تباہی ہوئی جس کی نظیر نہیں ملتی ،املاک نذر آتش کر دی گئیں، بینک لوٹ لئے گئے، گاڑیوں پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی، جو بیچ بچائو کرانے آگے بڑھے ان کی جان لینے سے دریغ نہ کیا گیا۔
خودکش بمبار یا اس کا ریموٹ چلانے والے اگر ہجوم کے درمیان دھماکہ کرتے اور اختر مینگل کے ساتھ ان کے رفقاء اس کا نشانہ بن جاتے تو آج بلوچستان کی صورتحال کیا ہوتی، اس کا تصور کر کے روح کانپ اٹھتی ہے۔ اختر مینگل سے مذاکرات کرنے کی بات کرنے والے ان کے ممبران اسمبلی انہیں واپس کریں۔ 26ویں ترمیم کی آئینی ڈکیتی ختم کریں۔ آئینی لوٹ کھسوٹ میں لوٹا ہوا مال واپس کریں، اختر مینگل بھی واپس آجائیں گے اور بلوچستان بھی، بہتری کی طرف جاتا دوسرا راستہ اور کوئی نہیں۔







