انقلاب بذریعہ آلو

سیدہ عنبرین
برسوں پرانی بات ہے قوم کو ذہنی طور پر گھاس کھانے کیلئے تیار کرنے کے منصوبے پر کام شروع ہوا، وطن کی محبت میں ہر مرد و زن پیرو جوان گھاس کھانے کیلئے تیار ہو گیا۔ بتایا گیا کہ ہم ایٹمی بجلی گھر بنائیں گے، جس کی تیار کردہ بجلی 5پیسے فی یونٹ صارفین تک پہنچائی جائے گی، اس زمانے میں بجلی کا ریٹ ایک روپیہ یونٹ سے بھی کچھ کم تھا، ایک بلب اور ایک پنکھا چلانے والے کا بل دس، پندرہ روپے سے زیادہ نہ آتا تھا، اس وقت غریب آدمی نے سوچا گھاس کھا کر اگر چند برس بعد 5پیسے فی یونٹ بجلی مل جائے تو بل 5روپیہ مہینہ آئے گا، یوں ہر ماہ قریباً 10روپے کی بچت ہو گی ، جس میں وہ سرکاری سکول میں فی بچہ 5روپے فیس دے کر پڑھائے گا، پھر اس کے بچے وظیفے حاصل کر کے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے اور بجلی کے محکمے میں اعلیٰ افسر بن جائیں گے، جہاں بجلی مکمل فری ہو گی، یوں گھر کا تمام نظام بجلی کے زور پر چلے گا، حتیٰ کہ کھانا بھی بجلی سے چلنے والے چولہے پر پکا کرے گا، یوں سوئی گیس کے بل کی مد میں جانے والے 10روپے بھی بچ جایا کریں گے، جس میں بیگم کی دو عدد لپ اسٹک آ جایا کریں گی۔ اس زمانے میں غریب آدمی کے خواب خیال اور خواہش اسی طرح کی ہوا کرتی تھیں۔ ایٹمی طاقت سے چلنے والا بجلی گھر بن گیا، حتیٰ کہ ایٹم بم بھی بن گیا، بجلی تو 5پیسے فی یونٹ نہ مل سکی البتہ یہ امید دلائی گئی کہ اب آزادی کشمیر تو چند دنوں کی بات ہے، کشمیر جنت نظیر آزاد ہو جائے گا تو تمام دریائوں کا منہ ہمارے کنٹرول میں ہو گا، ہم ڈیم پر ڈیم بنائیں گے اور 5پیسے فی یونٹ نہ سہی 50پیسے فی یونٹ تو بجلی ضرور گھر گھر پہنچائیں گے۔ کالا باغ ڈیم کی بات چھیڑی گئی بات بڑھتی گئی اور بالآخر بگڑ گئی، پوری قوم اس کیلئے ایک نیا ٹیکس دینے کیلئے تیار تھی، لیکن پھر اچانک اس پراجیکٹ سے منہ موڑ کر نیلم جہلم شروع کر دیا گیا۔ کالا باغ ڈیم کی فزیبلیٹی تیار تھی، سروے ڈرائینگ مکمل تھی،
سائٹ پر کام کرنے والوں کی رہائش گاہیں تعمیر ہو چکی تھیں، ڈیم پر کام کرنے والی ٹیم فائنل ہو چکی تھی، مشینری کی پہلی قسط پہنچ چکی تھی، پھر اچانک جمہوریت کے کتی نے صاحبان اقتدار کو کھاٹ کھایا، ملک میں سیاسی بے چینی پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر پراجیکٹ بند کر دیا گیا، معاملہ سیاسی بے چینی کا نہ تھا، اس منصوبے پر کام روکنے اور اسے ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کیلئے ہمسایہ دشمن ملک سے ایک خطیر رقم بطور رشوت آنے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں، جو بعض سیاسی جماعتوں، نام نہاد لیڈروں اور ان کے بغل بچوں میں باقاعدگی سے تقسیم ہوئی تھیں، ان کا کام فقط یہ تھا کہ جب بھی اس منصوبے پر کام شروع ہو، اس کی مخالفت میں بیان بازی شروع کر دیں، سڑکوں پر آنے اور ملک بھر میں پہیہ جام کرنے کی دھمکیاں دیں اور منصوبے پر کام ایک انچ آگے نہ بڑھنے دیں۔ غیر ملکی مداخلت کے سبب یہ منصوبہ آج تک کھٹائی میں پڑا ہے، جس پر آج بھی کام شروع ہو جائے تو ملک میں سستی بجلی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے، مہنگی بجلی کے ہاتھوں بند کارخانے چل سکتے ہیں، پاکستانی مصنوعات عالمی منڈی میں مقابلے پر آ سکتی ہیں، لیکن ہر دور میں نیا پاکستان بنانے والے تعمیر نو کے جھانسے دینے والے، ملک کو لندن اور پیرس بنانے والے، میائوں میائوں کرتے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کی باتیں کرنے والے مداری ڈگڈی بجاتے رہے اور قوم کو بچاتے رہے، پھر اچانک موٹر وے کا جھنجھنا قوم کے ہاتھ پکڑا دیا گیا اور گیم چینجر کی نئی اصطلاح میدان میں پھینکی گئی۔ بتایا گیا کہ موٹر وے سے پورا پاکستان ایک دوسرے سے جڑ جائے گا اور انقلاب برپا ہو جائے گا، حالانکہ کئی سو سال پہلے شیر شاہ سوری پورے برصغیر کو جی ٹی روڈ کے ذریعے جوڑ گیا تھا جس کے ثمرات پاک و ہند آج تک سمیٹ رہا ہے، اس کو اپ گریڈ کر کے اسے ’’ ملٹی لین‘‘ بنا کے عہد حاضر کے مطابق ڈھالا جا سکتا تھا، لیکن موٹر وے کے پردے میں اور بہت کچھ تھا، جو برسوں بعد سامنے آیا، موٹر وے بن گیا، سفر کی فیس عام آدمی کے بس میں نہ تھی، مہنگی گاڑیوں والے ہی ادا کر سکتے تھے، لیکن موٹر وے کا بخار ہر شخص کو ادھر لے گیا، سفر طویل ہو گیا، پٹرول کا خرچ بڑھ گیا، پھر اس پر سفر کرنے کی فیس میں ہر سال اضافہ ہوتا چلا گیا، آج یہ فیس عذاب بن چکی ہے، موٹر وے کی قیمت کئی مرتبہ پوری ہو چکی، بڑھتے ہوئے ٹال ٹیکس سے جان نہیں چھوٹ رہی، بلکہ اس عذاب میں ہر سال شدت آ جاتی ہے، موٹر وے کے ساتھ ساتھ ریل کی یعنی بلٹ ٹرین کی پٹری بچھ سکتی تھی، لیکن چھوٹی کھوپڑیوں میں یہ بڑی بات کہاں آ سکتی تھی، موٹر وے بنانے والی کمپنی نے مشورہ بھی دیا، لیکن چھوٹے سروں میں یہ بات نہ سما سکی، بتایا گیا لگے ہاتھوں یہ کام سستا ہو جائے گا، لیکن بادشاہ سلامت نے جواب دیا ’’ نئیں نئیں فیر ویکھاں گے‘‘، اس کے بعد ’’ فیر‘‘ تو نہ آیا ہیر پھیر ہی نظر آیا۔
انگریز دنیا میں جہاں جہاں گیا اس نے ریل کی پٹری سڑک کے ساتھ ساتھ بچھائی، ہر سٹیشن کے قریب بسوں کا اڈہ بنایا تاکہ عوام الناس دہری سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ایک کمپنی کو حکومت پاکستان نے ایئر کنڈیشنڈ بسیں چلانے کا ٹھیکہ دیا، اس کے ساتھ ہی تمام بسوں، ویگنوں کے اڈے شہروں سے باہر نکال دیئے، صرف اس من پسند کمپنی کو اجازت دی وہ شہر کے بیچوں بیچ اپنا اڈہ رکھ سکتی ہی، مقصد دوسروں کے کاروبار کو ٹھپ کرنا، ایک بس کمپنی کے کاروبار کو چلانا تھا، وجہ آپ خوب سمجھتے ہیں ایسا کیوں کیا گیا۔
ہر ماہ اربوں روپے کی سبسڈی ہڑپ کر جانے والے لاہور کے ٹرین پراجیکٹ کے بعد اب لاہور میں انڈر گرائونڈ ریلوے چلانے کے منصوبے پر تیزی سے کام شروع ہے، یہ پراجیکٹ اربوں روپے کے قرض سے شروع ہو گا، اس کا سود اربوں روپے میں ہو گا اور شاید آئندہ ربع صدی تک بھی ادا نہ ہو سکے، اب انقلاب اس ٹرین کے ذریعے لانے کا منصوبہ ہے۔ ریلوے زمین پر چل نہ سکی، زیر زمین چلے گی؟ آیا آیا آلو آیا، انقلاب کی آمد میں جو کسر باقی رہ جائے گی وہ بذریعہ آلو پوری کرنے کا منصوبہ بھی سامنے آ چکا ہے۔ کپاس، گندم، گنے کی فصلوں کا خانہ خراب کرنے کے بعد اسے بہتر بنانے کا اب کوئی منصوبہ سامنے نہیں، کیونکہ پڑھایا جا چکا ہے کہ آلو دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے، لہٰذا آلو کا بیج تیار کرنے کا ایک کارخانہ ایک غیر ملک کے تعاون سے لگ چکا ہے، جو معیاری بیج فراہم کرے گا اور آلو کی فصل سے نسبتاً زیادہ پیداوار حاصل ہو سکے گی۔ اگلے 5برس آلو کے ذریعے انقلاب لانے کی کہانی چلتی رہے گی۔ عین ممکن ہے ٹرم پوری کرنے کے بعد خبر آ جائے ’’ آلو کے ذریعے انقلاب‘‘ بس ایک انچ کے فاصلے پر رہ گیا ہے، لہٰذا ہمیں ایک ٹرم اور دی جائے۔ ایک زرعی ماہر کو چند روز قبل بہترین خدمات پر اعلیٰ قومی اعزاز سے نوازا گیا ہے، ٹھیک تیسرے روز اسے معطل کرنے کی خبر گردش کر دی ہے، تاہم ابھی اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ ’’ آلو انقلاب‘‘ کے ثمرات سمیٹنے کیلئے بوریوں کا بندوبست ابھی سے شروع کر دیں، فصل آنے کے بعد بوریوں کے لالے پڑ جاتے ہیں، آلو کا بیج تیار کرنے والی مقامی 392کمپنیوں پر پابندی کر دی گئی ہے تاکہ گلشن کا کاروبار خوب چلے۔







