میری بہن عافیہ سے غداری کیوں؟

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی
میری والدہ محترمہ عصمت صدیقی مرحومہ نے گھر کے دروازے پر قرآن کی یہ آیت نصب کی ہوئی ہے
’’ لا تحزن ان اللہ معنا‘‘
اور واقعی اگر قرآن پاک قدم قدم پر ہماری رہنمائی نہ کررہاہوتا تو شاید آج میں مایوسی کے عالم میں کسی نفسیاتی عارضے کا شکار ہوکر بستر سے لگ چکی ہوتی ، یہ قرآن ہی کا اعجاز ہے کہ جب ہم پر مایوسی کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو قرآن لاتقنطو کہہ کر ہمیں اس کیفیت سے نکالتا ہے ، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہنسوں یا روئوں میں اس وقت جہاں دل شکستہ اور مشتعل ہوں وہیں شدید ہیجان میں ہوں کہ جب سے ہماری وزارت خارجہ (MOFA)نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے میری پیاری بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے’’ میری تمام درخواستیں پوری کر دی ہیں‘‘ جبکہ حقیقت میں انہوں نے دس سال انصاف میں تاخیر اور عدالت کی حکم عدولی میں گزارے، اور کوئی اہم کامیابی حاصل نہیں کی۔ اور انصاف میں تاخیر بجائے خود ناانصافی ہے۔ یہ ایک ظلم ہے، اور میں اپنے سوالات کا جواب چاہتی ہوں۔
دو دہائیوں سے میں عدالتوں سے وزارت خارجہ سے صرف اس کی بنیادی ذمہ داری پوری کروانے کی درخواست کر رہی ہوں، ان کا کام ہر آنے والے امریکی صدر کی چاپلوسی کرنے کی کوشش کرنا نہیں، بلکہ بیرون ملک مصیبت میں پھنسے پاکستانی شہریوں کی مدد کرناہے۔ شاید ہمارے حکمران اور وزارت خارجہ عافیہ کو بار بار ڈالروں کے عوض فروخت کرتے ہوئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید کو بھول گئے کہ آپ نے فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تین طرح کے لوگ ایسے ہوں گے جن کا مدعی میں بنوں گا، ان میں سے ایک وہ آزاد شخص ہے جس کو بیچ کر اس کی قیمت کھا لی گئی‘‘۔ ( بخاری)
میرا دل لرز جاتا ہے اس کا انجام سوچ کر مگر شاید ان کے دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہیں۔
میری بہن عافیہ کے ساتھ جو زیادتی ظلم اور نا انصافی ہوئی ہے اس کو تاریخ سیاہ دور کے طور پر یاد رکھے گی۔
سب سے پہلے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں ہمیں چپ رہنے کے لیے کہا جاتا ہے عافیہ کو 2003ء میں کراچی سے ان کے بچوں سمیت اپنوں ہی نے اغوا کیا تھا۔ وزارت خارجہ کو لگتا ہے کہ اب عافیہ کے لیے کچھ نہیں کیا جا سکتا، لیکن صدر پرویز مشرف امریکیوں کا ہر حکم پورا کرنے کے لیے ہمہ تن تیار تھے، خاص طور پر جب بش انتظامیہ نے ان کی جیبیں بھرنے کے لیے55000ڈالر ایک بیٹی کے عوض دئیے۔ اس کا حوالہ گورڈن ڈف نے بھی دیا ہے۔
میں نے 2015ء میں رٹ پٹیشن دائر کی تاکہ ہماری علیل والدہ اپنی موت سے پہلے اپنی لاڈلی اور سب سے چھوٹی بیٹی کو آزاد دیکھ سکیں۔ لیکن کچھ نہیں کیا گیا، اور وہ 2022ء میں انتقال کر گئیں۔ اور ہماری وزارت خارجہ کچھ نہ کرکے بے حسی سے کہتی ہے کہ سب کچھ کر دیا۔ افسوس وزارت خارجہ ڈھٹائی سے یہ کہنے کی جرات کر رہی ہے کہ انہوں نے میری بہن سے ملنے کے لیے ڈاکٹر اقبال آفریدی کو اندر جانے میں مدد کر کے کافی کچھ کیا ہے، حالانکہ ڈاکٹر اقبال یہ کہہ کر آئے تھے کہ عافیہ کو فوری طور پر اس طبی امداد کی ضرورت ہے جو انہیں امریکی بیورو آف پرزنز کی طرف سے نہیں دی جا رہی۔
اس بے حسی کے رویے نے ہمیں دکھ ضرور دیا ہے لیکن وہ ہمیں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں کر سکتے۔
یہاں بھی قرآن ہی نے تسلی دی کہ ’’ کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے ‘‘۔ (نمل: 62)۔
اس لئے ہم تو اسی کو پکارتے ہیں اور پکارتے رہیں گے، اور دنیاوی اسباب بھی کرتے رہیں گے۔
میں نے پچھلے کئی سالوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وزارت خارجہ عافیہ کے ساتھ ایف ایم سی کارسویل میں ہونے والی عصمت دری اور جنسی زیادتی کو روکے۔ میں آپ سے پوچھتی ہوں کہ ایک حقیقی غیرت مند حکومت ’ قوم کی بیٹی‘ کی عصمت دری کو روکنے کے لیے کیا کرے گی؟، اور پاکستان کیا کرتا ہے : انہوں نے عدالت میں دلیل دی کہ انہوں نے کافی کچھ کیا ہے ( حالانکہ کچھ نہیں کیا )۔ وہ تو، اس کا حساب بھی نہیں دے سکے کہ قوم کی بیٹی نے 8000سے زیادہ دنوں میں کتنی آہیں بھری ہیں۔
میرا مطالبہ ہے کہ وزارت خارجہ ہمارے امریکی وکیل، کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ کے موقف کی حمایت کرے، جو عافیہ کی سزا کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ compassionate releifہمدردانہ رہائی کی پٹیشن دائر کرنے والے ہیں۔ وہ یہ سب کام مفت میں کر رہے ہیں، جبکہ ہم پاکستانی شہری وزارت خارجہ میں موجود لوگوں کو تنخواہ دے رہے ہیں۔ اس بارے میں وہ کیا کہتے ہیں ؟ وزارت خارجہ عافیہ کی حمایت اس لئے نہیں کرے گی کیونکہ انہیں وہ سچ پسند نہیں جو کلائیو اسٹافورڈ بتا رہے ہیں۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ حکومت کے قانونی مشیر ( اٹارنی جنرل) نے خود کہا کہ ان کی حمایت کرنا بالکل ممکن ہے بلکہ قومی فریضہ ہے۔ حکومت چاہے تو عافیہ کو اغوا کرنے کے اپنے جرم سے انکار جاری رکھے، حالانکہ یہ ایک کھلا راز ہے۔ اس کا حساب وہ اللہ کی عدالت میں مدعی اعظم اللہ جل جلالہ کے سامنے تیار رکھیں۔
میرا خیال ہے کہ ہم سی یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ ہم اس تمام کوشش کو نظر انداز کر دیں جو ہماری قابل فخر عدلیہ کو دبانے کے لیے کی گئی تھی۔ اب کسی چیز پر کیسے یقین کیا جا سکتا ہے؟ ہمارے ملک میں اچھے لوگ ہیں، لیکن اندر کے شیاطین عدالتی انصاف کے نظام کو پٹڑی سے اتارنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
میں کبھی کسی سیاسی جماعت کی رکن نہیں رہی لیکن کسی سیاسی شخصیت کے ساتھ ناانصافی کی بھی حمایت نہیں کرسکتی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج سردار اعجاز اسحاق خان کے بارے میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ ایک ایماندار اور شریف آدمی ہیں۔ وہ صرف ہماری قوم کی اعلیٰ روایات کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، دوسرے لفظوں میں، وزارت خارجہ کے برعکس، وہ اپنا کام کر رہے ہیں جس کے لیے انہیں مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن وزارت خارجہ ناانصافی کے خواہشمند گروہ میں شامل ہو گئی ہے اور چاہتی ہے کہ عافیہ کا مقدمہ کسی منظور نظر جج کے پاس لے جایا جائے جو انہیں اپنا کام کرنے کا حکم نہ دے۔ ان کی تابعداری کرے۔
سابق وزیر اعظم محترم جناب نواز شریف نے کہا تھا کہ ’’ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی غیر قانونی اور پوشیدہ قید بین الاقوامی سطح پر پاکستانی شہریوں کے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک مثال ہے۔ یہ قوم کے وقار پر ایک سیاہ دھبہ ہے جب اس کی ایک خاتون اس قدر گھنائونے صدمے سے گزر رہی ہے۔۔۔ اس واقعے میں فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔۔۔ ان کے غیر قانونی قید انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے، اس لیے ان کے مقدمے کو اقوام متحدہ میں اجاگر کیا جانا چاہیے‘‘۔۔۔ اور ان کے بھائی، ہمارے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف نے صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر انصاف کا مطالبہ دہرایا۔ لیکن ان کی وزارت خارجہ نے وزیر اعظم کا خط جو بائیڈن تک نہیں پہنچایا اور اب کہتی ہے کہ انہوں نے کافی کچھ کیا ہے۔
میں جانتی ہوں کہ مجھ سے خاموشی سے بیٹھنے اور اسے قبول کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ نا انصافی کے علمبرداروں نے پہلے بھی مجھے ڈرانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے میرے گھر کے باہر لاشیں پھینکی ہیں۔ انہوں نے مجھے آنکھوں پر پٹی باندھ کر کسی نامعلوم تہہ خانے میں لے جا کر دھمکیاں دی ہیں۔ انہوں نے انصاف کے حصول کے لیے ہماری کوششوں کو کمزور کرنے کے لیے میری بہن کے بارے میں جھوٹ شائع کرنے کی دھمکی دی ہے۔ بلاشبہ اس کا خدشہ ہے کہ وہ دوبارہ ایسی کوشش کریں گے۔ لیکن پھر قرآن کا وعدہ ہے کہ وہ جھوٹ کو مٹا کر سچ کو غالب کر دے گا۔
ہمارے خاندان نے بہت اذیت برداشت کی ہے لیکن مجھے یہ خیال واقعی ناگوار لگتا ہے کہ اگر میں عافیہ کی رہائی کی کوششوں میں اپنے حکمرانوں کی جانب سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کی وجہ سے دنیا کے کسی اور ملک چلی جائوں یا کہیں پناہ لینا چاہوں تو مجھے یقین ہے کہ برطانیہ اور کئی ممالک مجھے منصفانہ تعاون دیں گے۔ لیکن کیا میں بھاگنا چاہتی ہوں؟، بالکل نہیں۔ میں اپنے ملک سے پیار کرتی ہوں۔ میں اپنے لوگوں سے پیار کرتی ہوں۔ اور میں خاموش بھی نہیں بیٹھوں گی، جب میری حکومت اپنے ہی شہریوں سے غداری کر رہی ہے تو کون خود کو محفوظ محسوس کر سکتا ہے، جب ہماری حفاظت کرنے والے ملک کی سب سے مظلوم خاتون، میری بہن سے منہ موڑ لیتے ہیں؟، یہ رویہ پاکستان کے مقصد وجود کو خطرہ میں ڈالتا ہے، اور ہم میں غداروں کی موجودگی کی عکاسی کرتا ہے۔
آخر میں میں ہر سطح پر انصاف، احتساب اور تمام پاکستانیوں کی تذلیل اور استحصال کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہوں۔ پوری پاکستانی قوم اور حکمرانوں کو یاد دلانا چاہتی ہوں کہ اللہ نے قرآن پاک کی سورہ بلد میں فرما دیا ہے کہ قیدی کو چھڑانے کی ذمہ داری ادا کرو، اس کے لئے گھاٹی سے اترنے کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے، یعنی قیدی کو چھڑانا، یہ ذمہ داری حکمرانوں کی اولین ذمہ داری ہے اور تمام مسلمانوں کی بھی ہے، اور زکوٰۃ کے مصارف میں بھی ہے، مجھے یقین ہے کہ پاکستانی قوم اس کام میں ضرور اپنا حصہ ڈالے گی۔ ہم نے اپنا معاملہ اللہ کی عدالت میں بھی دائر کر دیا ہے اور ہماری والدہ اس کی پیروی کی لیے اللہ کے حضور پیش ہوچکی ہیں۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی







