
سی ایم رضوان
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے کے بیان نے نام نہاد سیاسی، مراعات یافتہ صحافتی اور جعلی قسم کے عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ ویسے تو یہ عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا اعلان ہے لیکن وسائل اور سسٹم پر ناجائز قبضے کے خواہشمند لوگ اور مذموم عزائم رکھنے والے پھرتیلے فائدہ خور اسے ہائبرڈ نظام کا ایک نیا موڑ قرار دے کر سکیورٹی فورسز کا راستہ روکنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد آئی ایس پی آر نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ہمیں بہتر گورننس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔ ہم کب تک سافٹ اسٹیٹ کی طرح بے شمار جانیں قربان کرتے رہیں گے۔ جنرل عاصم منیر نے مزید کہا تھا کہ ملک کی سلامتی سے بڑھ کر کوئی ایجنڈا، تحریک یا شخصیت نہیں۔ پائیدار استحکام کے لئے قومی طاقت کے تمام عناصر کو ہم آہنگی سے کام کرنا ہو گا۔ اس بیان کو لے کر حکومت پاکستان کے حامی اور مخالفین اپنی اپنی تشریح پیش کر رہے ہیں۔
ہارڈ اسٹیٹ کی درست تعریف یہ ہے کہ ایک ہارڈ اسٹیٹ ایک مضبوط مرکزی اتھارٹی، سخت قوانین اور قومی سلامتی کو شہری آزادیوں پر ترجیح دینے والی ریاست ہوتی ہے جو فیصلہ کن اقدامات اور طاقت کے ذریعے مسائل حل کرتی ہے۔ یہ ریاست سخت طرزِ حکمرانی، مضبوط قانون نافذ کرنے والے اداروں اور داخلی و خارجی خطرات سے نمٹنے کے لئے سخت اور فیصلہ کن اقدامات کی خصوصیات رکھتی ہے۔ ہارڈ اسٹیٹ سادہ الفاظ میں اپنے مخالفین یا نقصان پہنچانے والوں سے سختی سے پیش آتی ہے اور لچک کی بجائے طاقت سے مسائل حل کرتی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ’’ موجودہ دور میں سختی سے حل ممکن نہیں۔ اعلان کرنا آسان ہے، عملدرآمد نہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ کس کے ساتھ کتنی سختی کا ارادہ ہے، لیکن ریاست طاقت کے استعمال میں سنجیدہ دکھائی دیتی ہے‘‘۔ یعنی جب سے آرمی چیف نے پاکستان کو ایک ہارڈ سٹیٹ بنانے کا بیان دیا ہے تب سے ملک کے مختلف طبقات اور عناصر کی جانب سے مختلف قسم کی آرا سامنے آ رہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوابزدہ جمال رئیسانی کا کہنا ہے کہ آرمی چیف نے جس ’’ ہارڈ اسٹیٹ‘‘ کا ذکر کیا، اس کا مطلب ہے کہ جتنے بھی دہشتگرد ہوں اور کوئی بھی دہشتگرد تنظیم ہو، بی ایل اے ہو یا بی ایل ایف ہو، ان سے ہم دہشتگردوں کی طرح سلوک کریں گے۔ سافٹ اسٹیٹ سے آرمی چیف کی مراد یہ تھی کہ یہ جو افواہ پھیلائی گئی تھی کہ یہ تنظیمیں درست ہیں اور بلوچوں اور اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ جمال رئیسانی نے کہا کہ اجلاس میں یہ طے ہوا ہے کہ جو ہاتھ پاکستان کے امن کو خراب کرنے کی کوشش کرے گا اس سے ہم آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر ثناء اللہ بلوچ نے کہا ہے کہ ’’ ہارڈ اسٹیٹ‘‘ کا خیال کثیر القوامی اور کثیر اللسانی ملکوں میں کبھی بھی کامیاب نہیں رہا، یہ ان ملکوں میں کچھ عرصے کے لئے کامیاب ہوتا ہے جو ایک لسانی ہوں، جہاں ایک زبان ایک نسل اور ایک طبقے کے لوگ آباد ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جو لفظ ہے ہارڈ اور سافٹ اسٹیٹ کا، اس کا فیصلہ سیاسی لوگوں یا پاکستان کی پارلیمنٹ کو کرنا چاہئے تھا، ’ کسی نے شاید جنرل صاحب کو ویکیبلری اور ان سب چیزوں کے بارے میں بتایا نہیں ہوگا‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہارڈ اسٹیٹ میں سول سوسائٹی، اپوزیشن، سیاسی جماعتوں، جمہوری اداروں کیلئے جگہ نہیں رہتی، فری اینڈ فئیر الیکشن نہیں ہوتے۔ ہمارے ملک میں پہلے ہی 50سے 60فیصد علامات ہارڈ اسٹیٹ کی موجود ہیں۔ لیکن اگر آپ سرکاری طور پر اعلان کر دیں گے کہ پاکستان ایک ہارڈ اسٹیٹ ہے تو اس کے ملک کے لئے کئی سفارتی اثرات ہوں گے۔ یہ سارا تبصرہ اور دلیلیں یکطرفہ ہیں کیونکہ ریاست کا یہ مطلب و مقصد ہر گز نہیں ہے۔ ساتھ ہی کئی مبصرین بلوچستان اور دیگر شورش زدہ علاقوں میں فوجی آپریشن کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان پہلے ہی سکیورٹی اسٹیٹ ہے۔ ان کے بقول آئین معطل، عدلیہ دبائو میں، میڈیا آزاد نہیں اور ہائبرڈ نظام رائج ہے۔ اسے اور کتنا سخت بنائیں گے؟۔ ایسے مبصرین یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ ’’ بلوچستان میں 20 سال سے آپریشن ہو رہے ہیں، کیا مزاحمت ختم ہوئی، بغاوت کم ہوئی؟ مزید سختی سے بہتر ہے کہ اعلانیہ مارشل لا لگا دیں‘‘۔ سوشل میڈیا پر بھی اسی طرح کا ردعمل تیز ہے۔ حکومت کے حامی اس بیان کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اسے تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ ایک صارف وسیم ملک نی ایکس پر لکھا، ’’ آئین معطل ہے، سکیورٹی ایجنسیوں نے گھروں کی حرمت پامال کی، عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے، مینڈیٹ چھینا گیا اور غیر علانیہ مارشل لا نافذ ہے۔ اس سے زیادہ ہارڈ اسٹیٹ کیا ہوگی؟‘‘، حالانکہ ملکی ادارے بہتری کے لئے کام کر رہے ہیں اور شرپسند عناصر درست طور پر گوشمالی کر رہے ہیں ان کی نیت پر شک کرنے یا اس شک کی بنیاد پر پروپیگنڈا کرنے والوں کے لئے یہ امر حوصلہ شکن ہے کہ افغانستان سے دہشت گردی اور بلوچستان میں غیر ملکی ایجنسیوں کے کھیل کو دیکھتے ہوئے آرمی چیف نے یہ درست موقف اپنایا اور یہ بیان خوشی سے نہیں، بلکہ درجنوں جوانوں کی شہادتوں کے بعد آیا ہے کیونکہ یہ امر درست ہے کہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے پیچھے بین الاقوامی پاکستان دشمن طاقتیں کار فرما ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ بلوچستان کو اس حد تک آتش زدہ کر دینے والے قوم پرستوں اور علیحدگی پسند لیڈروں کے ساتھ عام بلوچی عوام نہیں ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ اس جھوٹے انقلاب کے علمبردار وہ طبقات اور پارٹیاں ہیں جن کو سسٹم سے کچھ فوائد نہیں مل رہے اور جو آج کل اقتدار اور ڈیل سے محروم ہیں اب ان کا سسٹم پر بس نہیں چلتا تو ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار بن کر مملکت کے اختتام تک جیسی غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ پاکستان اکیلا ملک نہیں، جہاں شورش ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں اور جس ملک میں بھی ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں اس ملک کی سکیورٹی فورسز اور مرکز نے اسی طرح ہارڈ سٹیٹ بن کر ہی اپنے سسٹم کو بچایا اور آئین و قانون کی عملداری کو یقینی بنایا ہے۔ جہاں صورت حال یہ ہو کہ ناراض طبقات دہشت گردی پر اتر آئیں اور کسی صورت بھی ہتھیار نہ ڈالیں تو وہاں طاقت ہی واحد حل رہ جاتا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس وقت کی حکومت کی جانب سے اشرافیہ اور با اثر افراد و طبقات کو امداد اور گرانٹس دیئے جانے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جو آج بھی جاری ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ انہی طبقات کو نہ صرف تمام حکومتی اداروں میں اثرورسوخ بلکہ عہدے بھی دیئے جاتے ہیں۔ ابتداء میں اگر پاکستان کے پالیسی ساز اپنی سمت درست رکھتے اور ملکی معیشت، وقار اور استحکام کو سیاسی و اسٹرٹیجک معاملات پر ترجیح دیتے تو آج پاکستان جنوبی کوریا اور ملائیشیا کے برابر ترقی ضرور کرتا لیکن پاکستان کے ماضی کے اکثر پالیسی سازوں نے عالمی مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ ممالک سے جو بھی امداد اور قرض ملا اسے غیر پیداواری سرگرمیوں پر خرچ کیا، ریاستی مشینری کے ڈھانچے کو وسعت دی اور اپنی مراعات میں مسلسل اضافہ جاری رکھا۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بغیر محنت کیے امراء کا طبقہ اگنا شروع ہوا جو اب عفریت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس امیر طبقے نے آکٹوپس کی طرح پورے ملک میں اپنا جال بچھا رکھا ہے۔ بیوروکریسی، عدلیہ، فوج اور سیاست میں اس طبقے کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہیں۔ اس طبقے کے لوگ کاروباری اجارہ دار بھی بن چکے ہیں اور زرعی معیشت میں بھی بڑے اسٹیک ہولڈر بن گئے ہیں۔ بیرون ملک روابط میں بھی اس طبقے کے لوگ بہت اثر و رسوخ کے مالک ہیں۔ مختلف قسم کے ٹرسٹ وغیرہ بنا کر ٹیکس نیٹ سے بھی باہر ہیں۔ پاکستان کے معاشی زوال کی سب سے بڑی وجہ بھی اس طبقے کا بے جا پھیلائو، اثر و رسوخ، مراعات اور سرکاری اداروں میں ٹاپ عہدوں پر قابض ہونا ہے۔ ظاہری طور ہر یہ طبقہ بڑا نفیس اور بے داغ نظر آتا ہے مگر عملاً یہ اصلاحی اور تعمیری فکر سے ہی نابلد ہے۔ وطن پرستی اور مذہب کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے بھی اس طبقے کے افراد کی سوچ سواد اعظم کی سوچ سے الگ ہے۔ اس طبقے کی خارجہ، داخلہ اور معاشی امور میں بڑھتی ہوئی مداخلت کی وجہ سے ہی ملک کے معاملات درست سمت میں ترقی نہیں کر سکے اور آج نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ان طبقات میں چند عناصر پی ٹی آئی، بی ایل اے اور بی ایل ایف کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے ملک میں آگ لگانے میں مصروف ہیں۔ خوش قسمتی سے اس وقت کی آرمی قیادت حب الوطنی کے تحت ان آگ لگانے والوں کو نکیل ڈالنے کے لئے ہارڈ اسٹیٹ جیسا رویہ اپنانے جا رہی ہے جس کے تحت کسی بھی عام پاکستانی کو کچھ نقصان یا تکلیف نہیں ہو گی صرف دہشت گردوں کی کمین گاہیں تباہ ہوں گی مگر یہ شاطر لوگ اس آپریشن کلین اپ کو بھی متنازعہ بنانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں حالانکہ وطن دشمنوں کے خلاف ہارڈ اسٹیٹ بننے کا فیصلہ درست ہے۔





