عزت و حیثیت

محمد مبشر انوار(ریاض)
ماہ مقدس کی مقدس ساعتوں میں اللہ رب العزت کی طرف سے بے پایاں عنایات کا شکر ادا کرنے کے لئے الفاظ ہی نہیں کہ اولا تو ایک اور رمضان کی سعادت نصیب فرمائی تو دوسری طرف پھر در نبیؐ کی حاضری عطا کی کہ ہم گنہگاروں کی اول و آخر پناہ گاہ بتوسط نبی اکرمؐ اللہ کا دربار ہے کہ اس کے بغیر ہمارا ایمان ہی مکمل نہیں۔ در نبی ؐ کی حاضری کے دوران یہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ انسان کسی اور طرف سوچ بھی پائے کہ یہاں کہ شب و روز اس کی اجازت ہی نہیں دیتے ۔ مسجد نبوی میں موجود رہتے ہوئے کہیں اور دھیان ہو تو اسے حرمت مسجد نبوی کی گستاخی سمجھتا ہوں اس لئے کوشش یہی رہتی ہے کہ ان ساعتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے اور نمازوں، نوافل اور تراویح کے علاوہ ذکر اذکار یا تلاوت قرآن پر توجہ مرکوز رہے تو دوسری طرف اپنے اس فرض سے غافل رہنا بھی گوارا نہیں، اس لئے کوشش کرتا ہوں کہ اپنی کوئی پرانی تحریر قارئین کی نذر کردوں تا کہ یہاں بھی غیر حاضری نہ ہو سکے۔ اس وقت بھی مسجد نبوی میں موجود ہوں البتہ سفر سے قبل ہی ایک پرانی تحریر منتخب کرکے قارئین کی نذر کر رہا ہوں کہ جولائی 2017ء کی تحریر کے پاکستانی حالات اور آج کے حالات میں کوئی خاطر خواہ فرق نہیں آیا، جو تحریر پڑھ کر آپ پر واضح ہو جائیگا تو دوسری طرف اجتماعی طور پر بھی امت مسلمہ کے حالات میں بہتری کے آثار ہویدا نظر نہیں آتے۔2017ء کی تحریر بعنوان ’’ عزت و حیثیت‘‘ درج بالا ابتدائیہ کے بعد من و عن آپ کی نذر ہے۔
’’ اس گنہگار پر یہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان رمضان المبارک کے مہینے میں اللہ اور اس کے محبوبؐ کے درکی حاضری کے متمنی ہوتے ہیں، لاکھوں جتن کر کے اس ماہ مبارک میں ان دو مقامات کی زیارت کرنے کی سعی کرتے ہیں اوراس در پر آ کر اپنی التجائیں، دعائیں، درخواستیںاور معافی کے طلبگار ہوتے ہیں۔ جہاں اپنی دنیاوی حاجات کی خاطر دامن دراز کرتے ہیں، وہیں اس کے حضور اس کی خوشنودی مانگتے ہیں، اس کے حضور گڑگڑاتے ہیں کہ اے خالق ارض و سماء تو ہم سے راضی ہو جا، ہمیں اپنے مقرب بندوں میں شامل فرما اور اسی طرح اس کے محبوبؐ کے در پر جوق در جوق حاضر ہو کر اپنی عقیدت، محبت کا والہانہ اظہار کرتے ہیں، اپنے امتی ہونے کے واسطے دیتے ہیں، اللہ کے احکامات کی پابندی کے وعدے وعید بھی کرتے ہیں۔ بعینہ باقی سب مسلمانوں کے ،ماہ مقدس میں اس گنہگار کو بھی یہ توفیق اللہ رب العزت نے بخشی کہ نہ صرف اپنے گھر کی حاضری نصیب فرمائی بلکہ رمضان المبارک کے آخری نو/دس دن اپنے محبوبؐ کے روضہ مبارک پر گزارنے کی سعادت بھی عطا کی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نعمت کا جتنا بھی شکر ادا کروں ،کم ہے ،کہ مجھ خطا کار کے پاس اس عنایت خاص کا شکر ادا کرنے کے لئے الفاظ ہی نہیں کہ اپنے رب کا شکر ادا کر سکوں ،فقط یہ آرزو ہے کہ اے میرے رب،جب تک زندگی باقی ہے،اے مسبب الاسباب کوئی ایسا وسیلا،ایسا سبب پیدا کردے کہ اس شہر مبارک میںقیام مستقل ہو جائے یا کم ازکم اس ماہ مقدس کی مقدس ساعتوں میں میری حاضری اپنے اور اپنے حبیب کے در پر مستقل کردے، وہ روح پرور مناظر میری زندگی کا نصیب کر دے،ممکن ہے کہ کسی ایک لمحے کی گئی بے ریاعبادت ہی تجھے بھا جائے اور اس پر تقصیر کی بخشش کا سامان ہو جائے۔ اپنے تئیں جو ٹوٹی پھوٹی عبادت کر سکا،تیرے حضور پیش کر دی،صرف اس امید پر کہ تو غفور الرحیم ہے،رحمان و کریم ہے،علیم و بصیر ہے،اس ٹوٹی پھوٹی عبادت اور حاضری کو فقط اپنے رحم و کرم سے قبول فرما کہ میں تیرا عاجز و گنہگار بندہ ہوں،تیری بندگی کا حق ادا کرنے سے قاصر ہوں اور اتنی توفیق اور لگن عطا فرما کہ تیری عبادت اور بندگی تیری ہدایت کے مطابق کر سکوں۔ماہ مقدس کی مبارک ساعتوں میں اللہ کی رضااور اپنی بخششوں کے متلاشیوں کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح بھی آخری عشرے کی طاق راتوں،بالخصوص پچیس یا ستائیس رمضان،کی خصوصی عبادات میں ان کی شمولیت ہو جائے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ان دو خصوصی راتوں میں جس طرح حرمین شریفین میں امت مسلمہ کی سربلندی کی خاطر دعائیں مانگی جاتی ہیں،گڑگڑایا جاتا ہے،رویا جاتا ہے،جو رقت آمیز مناظر دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں،ان لمحات میں شمولیت ہر مسلمان کی آرزو ہوتی ہے۔
دعائوں کی نوعیت دو طرح کی ہے ،ایک وہ جو انفرادی اور دوسری وہ جو اجتماعی /پوری امت مسلمہ کے لئے مانگی جاتی ہیں۔ انفرادی دعائوں کی خاطر رونا،گڑگڑاناتو ممکن ہے اللہ رب العزت کو پسند آجائے اور وہ انفرادی حیثیت میں ہم گنہگاروں کی دعاؤں کو سن کر ہمیں وہ عطا فرما دے جس کی تمنا،آرزو،جستجواور خواہش لے کر ہم حرمین میں حاضر ہوتے ہیں لیکن کیا امت کے مسائل ،سربلندی اور عظمت رفتہ کے لئے کی گئی دعائیں بھی قبو ل ہو ں گی؟ہر سال ہم دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں کہ نہ صرف حرمین شریفین بلکہ ساری دنیا میں مسلمان گڑگڑا ،گڑگڑا کر اللہ کے حضور امت کی سر بلندی کی دعائیں کرتے ہیں ،انتہائی رقت آمیز لہجے میں اللہ سے فریاد کناں ہوتے ہیں اللہم اعز الاسلام والمسلمین ،بار بار اور مسلسل یہ دعا حرمین کے علاوہ پوری اسلامی دنیا میں گونجتی سنائی دیتی ہے، مگر بد قسمتی دیکھئے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلم ممالک میں بد امنی شدید تر ہوتی جا رہی ہے،مسالک کی دیواریں مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہیں،خون مسلم کرہ ارض کی ارزاں ترین شے بن چکی ہے۔ کون سا اسلامی ملک ایسا ہے جہاں زیر زمین چنگاریاں نہیں سلگ رہیں،وہ تو خدا کا شکر ہے کہ اس رمضان میں بھی خوارجیوں کے نا پاک عزائم کو روبہ عمل ہونے سے قبل ہی سعودی ایجنسیوں نے قابو کر لیا وگرنہ اس مرتبہ ان خوارجیوں کے ارادے حرم کعبہ میں گڑ بڑ کرنے کے تھے۔ارادے پختہ اور عزم صمیم ہوں تو اللہ کی مدد بھی شامل حال رہتی ہے،کچھ ایسا ہی اس ماہ رمضان میں سعودی عرب میں ہوا کہ فرض شناسوں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ان عناصر کو گرفتارکرلیا ،دوسری طرف ہمارے حکمران ہیں، جنہیں اپنی کرپشن چھپانے سے فرصت نہیں ،ان کی بلا سے اگر کراچی دوبارہ بارود کے ڈھیر پر آ جائے، بلوچستان میں پھر قتل و غارت گری ہو یا پاڑہ چنار میں خون کی ہولی کھیلی جائے اور احمد پور شرقیہ میں الٹے پٹرول ٹینکر سے پٹرول بھرتے ہوئے تقریباً 250عام شہری آگ میں جھلس جائیں کہ جن کے نزدیک مال مفت ہی ان کے لئے مال غنیمت ہے کہ اشرافیہ نے ان کے لئے کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ ایسے حالات میں امت کے لئے کی گئی دعائوں کا اثر کیا ہو گا؟ کیا قوموں کی ترقی فقط دعائوں سے ممکن ہے؟
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو،دور جدید میں تحقیق و ایجادات کا سارا سہرا غیر مسلموں کے سر،انسانیت کی خدمت سے انسانیت کی تباہی تک کے تمام انبار غیر مسلموں کے ہاتھوں میں،اس زمین پر ہونے والے تمام تر جغرافیائی،سیاسی ،لسانی،مسلکی تغیرات پر غیر مسلموں کا قبضہ،ہر نئے روز ایک نئی سائنسی ایجاد ان کے نام،زمین کی تہوں سے افلاک کے خلائوں تک ان کا اثرو رسوخ،بٹنوں کی موجودہ جنگی صورتحال میں غیر مسلم کوسوں آگے اور فرق بھی اس قدر زیادہ کہ مسلم دنیا ان کی گرد کو پہنچنے سے قاصر کہ نہ تو غیر مسلم اس کی اجازت دیتے ہیں اور نہ ہی مسلمانوں میں یہ ذوق وشوق کہ وہ جدید علوم پر دسترس حاصل کریں۔ رہی سہی کسر ہمارے علمائے سو نے پوری کر رکھی ہے کہ ہر نئی ایجاد کو غیر اسلامی قرار دے کر اس سے فیضیاب ہونے کی بجائے اس سے دوری اختیار کرنے کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے علماء کرام الا ماشاء اللہ اسلام کو داڑھی میں،لباس کو ٹخنوں سے اوپر،رفع یدین پر جھگڑا،سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد بآواز بلند آمین کہنے پر اختلاف،امام کے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد مقتدی کا سورۃ فاتحہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں،جہاد کے حوالے سے ہر مسلک کا اپنا مکتبہ فکر ،’’ واعتصمو بحبل للہ جمیعا ولا تفرقو‘‘ کی اساس سے کوسوں دور ہر دوسرے مکتبہ فکر کو کافر قرار دینے کی دوڑ،اور دعوے ہیں دنیا کی قیادت و سیادت کے؟؟؟ نبی اکرمؐ کی تبلیغ ،روزمرہ زندگی کے حوالے سے اسلامی تعلیمات اور حضرت عمر فاروقؓ کے قائم کردہ معیارات ،جن کی تقلید میں آج کی مہذب دنیا بسروچشم عمل پیرا ہو کر مسلسل ترقی کی نئی منازل کو چھو رہی ہے ،قرآن حکیم پر تدبر و فکروتحقیق سے نت نئی دنیائیں دریافت کر رہی ہے اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ آج ساری دنیا کا انتظام غیر مسلموں کے ہاتھ میں ہے،وہ جو چاہتے ہیں،جیسے چاہتے بعینہ ویسے ہی اس دنیا کو چلا رہے ہیں۔ دوسری طرف ہماری اسلامی دنیا ہے جہاں ہم قومی معاملات میں بھی فقط دعائوں کے بل پر دنیا فتح کرنے کی آرزو دل میں پال رہے ہیں کہ اللہ کے حضور صرف گڑگڑانے، رونے سے ہی ہمیں دین و دنیا حاصل ہو جائے گی،ہم بھی کتنے سادہ ہیں،نہیں سمجھتے کہ اقوام عالم میں عزت ،کردار کی مرہون منت ہونے کے ساتھ ساتھ کمانی پڑتی ہے تو حیثیت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ منوانی پڑتی ہے۔ ہمارے کردار نہ تو ہمیں عزت دلوا سکتے ہیں اور پانامہ لیکس کی بے توقیری کے ہنگام ہماری حیثیت تقریباً نہ ہونے کے برابر ہو چکی ہے،ایسی صورت میں اس کو کون مانے گا یا ہم کس سے منوائیں گے‘‘!!!





