لانگ مارچ سے خوشحالی مارچ تک کا سفر

عبدالقدوس ملک
پاکستان کی سیاست میں لانگ مارچ اور دھرنے ہمیشہ سے ایک اہم عنصر رہے ہیں، لیکن حقیقی ترقی اور خوشحالی کا سفر صرف عملی اقدامات سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ وزیرِاعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان معاشی بحالی، ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل، اور عوامی فلاح و بہبود کی راہ پر گامزن ہے۔ دوسری طرف، عمران خان کے دورِ حکومت میں سیاسی کشیدگی، غیر مستحکم معیشت، اور سخت گیر پالیسیوں نے ملک کو کئی بحرانوں سے دوچار کیا۔ آج کا پاکستان احتجاجی سیاست کے بجائے حقیقی ترقی کی راہ پر چلنے کی کوشش کر رہا ہے، جس میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی، توانائی کے منصوبے، اور سفارتی تعلقات کی بہتری جیسے اقدامات شامل ہیں۔ شہباز شریف کی حکومت نے کئی اہم منصوبے شروع کیے، جن میں کراچی کے K۔IVپانی منصوبے کی بحالی، موٹرویز کی تعمیر، اور سی پیک کے منصوبوں کو تیز کرنا شامل ہیں۔ انہوں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو وسعت دی، کسانوں اور مزدوروں کے لیے سبسڈی متعارف کروائی، اور مہنگائی کے خلاف اقدامات کیے۔ اگرچہ چیلنجز موجود ہیں، لیکن انفراسٹرکچر اور معیشت میں بہتری کی امید پیدا ہوئی ہے۔عمران خان کے دور میں روپے کی قدر میں کمی، مہنگائی میں اضافہ، اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی جیسے مسائل دیکھنے میں آئے۔ ان کی حکومت نے آئی ایم ایف معاہدہ کیا، مگر اس پر مکمل عمل نہ ہوا، جس سے مالی بحران مزید گہرا ہوا۔ شہباز شریف نے فوری طور پر آئی ایم ایف سے مذاکرات کر کے قرض پروگرام بحال کیا، جس سے دیوالیہ ہونے کا خطرہ کم ہوا، لیکن مہنگائی قابو میں نہ آ سکی۔ عمران خان کے دور میں زیادہ توجہ احتساب اور مخالفین پر تنقید پر رہی، جبکہ ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار رہے۔ شہباز شریف نے سی پیک، انفرا سٹرکچر، اور توانائی کے منصوبوں پر کام تیز کیا، جس سے صنعتی پیداوار اور روزگار میں بہتری کی امید پیدا ہوئی۔ عمران خان نے اپوزیشن کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیا، جس سے سیاسی کشیدگی بڑھی۔ ان کی حکومت میں بیوروکریسی غیر فعال رہی، اور پالیسیوں میں تسلسل نہ رہا۔ شہباز شریف نے مفاہمتی پالیسی اپنائی اور انتظامی معاملات میں بہتری لانے کی کوشش کی، تاہم عمران خان کے خلاف قانونی کارروائیوں نے سیاسی ماحول کو مزید کشیدہ کیا۔
عمران خان کے دور میں امریکہ اور مغربی ممالک سے تعلقات متاثر ہوئے، جبکہ چین اور روس کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کی
گئی۔ شہباز شریف نے متوازن خارجہ پالیسی
اپنائی، امریکہ، یورپ، اور چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے پر زور دیا، اور سی پیک منصوبوں کی رفتار تیز کی۔ عمران خان کی ضد اور اکڑ نے پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ عمران خان کی سخت گیر سیاست اور غیر لچکدار حکمت عملی نے کئی مسائل کو جنم دیا۔ ریاستی اداروں سے ٹکرائو اور مسلسل محاذ آرائی نے بے یقینی کی فضا پیدا کی۔ آئی ایم ایف معاہدے سے انحراف اور غیر یقینی پالیسیوں نے ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا۔: امریکہ اور یورپ کے ساتھ کشیدہ تعلقات نے عالمی سطح پر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ بار بار وزراء اور سرکاری افسران کی تبدیلی سے حکومتی امور میں خلل پیدا ہوا۔ وزیرِاعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان ترقی اور خوشحالی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان کی حکومت کی پالیسیوں کا محور معیشت کی بحالی، ترقیاتی منصوبے، اور سفارتی تعلقات کی بہتری ہے۔ دوسری طرف، عمران خان کی سخت گیر سیاست اور غیر لچکدار رویے نے ملک کو کئی بحرانوں میں مبتلا کر دیا۔ اگر پاکستان کو حقیقی خوشحالی کی راہ پر ڈالنا ہے تو تمام سیاسی قوتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا، تاکہ ملک کو بحرانوں سے نکال کر حقیقی ترقی اور خوشحالی کے سفر پر گامزن کیا جا سکے۔ پاکستان کو لانگ مارچ اور دھرنوں سے نکال کر خوشحالی مارچ کی طرف لے جانا ہو گا ہمیں بھی اپنا حق نبھانا ہو گا۔







