سولر صارفین کو ریلیف دیا جائے

تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
توانائی کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے پاکستانی صارفین پر غیرمعمولی مالی بوجھ ڈال دیا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے مہنگے وسائل جیسے تیل اور گیس سے بجلی پیدا کرنے کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں صارفین نے شمسی توانائی کو بطور متبادل اختیار کرنا شروع کر دیا۔ دسمبر 2024ء تک ملک میں سولر پینل استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 2لاکھ 82ہزار تک جا پہنچی، جبکہ صرف دو ماہ قبل یہ تعداد 2لاکھ 25ہزار تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سولر انرجی کی طرف رجحان غیرمعمولی رفتار سے بڑھ رہا ہے اور اسی کے ساتھ شمسی توانائی کی پیداوار بھی 4ہزار میگاواٹ تک جا پہنچی ہے جو 2021ء میں صرف 321میگاواٹ تھی۔
پاکستان میں توانائی بحران کی جڑیں کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں نجی پاور پروڈیوسرز (IPPs)کے معاہدے کیے گئے جن کے تحت مہنگی بجلی خریدنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ اس کے بعد 2000ء کی دہائی میں تھرمل پاور، ایل این جی اور دیگر مہنگے ذرائع پر زیادہ انحصار کیا گیا جو بعد ازاں قومی خزانے پر بوجھ بنتے گئے۔ اس کے برعکس، دنیا بھر میں شمسی توانائی سمیت قابل تجدید ذرائع کو فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ سستی اور ماحول دوست بجلی پیدا کی جا سکے۔ پاکستان میں بھی 2016ء میں نیٹ میٹرنگ کا آغاز ہوا جس کے تحت صارفین اپنی اضافی بجلی گرڈ کو فروخت کر سکتے تھے مگر اب حکومت نے اس پالیسی میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے سولر صارفین سے بجلی خریدنے کی قیمت 27روپے فی یونٹ سے کم کر کے 10روپے فی یونٹ کر دی ہے۔
نیٹ میٹرنگ پالیسی میں حالیہ تبدیلی کا مقصد گرڈ صارفین کو ریلیف فراہم کرنا ہے کیونکہ سولر صارفین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث ان پر 159ارب روپے کا مالی بوجھ منتقل ہو گیا تھا۔ اس پالیسی کے تحت نئے سولر صارفین کو وہی قیمت نہیں ملے گی جو پہلے سے نیٹ میٹرنگ میں شامل صارفین کو دی جا رہی تھی۔ نتیجتاً جو لوگ سولر پینلز لگانے کا سوچ رہے تھے وہ اب ممکنہ طور پر متذبذب ہوں گے کیونکہ ان کی متوقع بچت کم ہو جائے گی۔
حکومت کا موقف ہے کہ بڑھتی ہوئی شمسی توانائی کی پیداوار کے باعث گرڈ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جسے قابو پانے کے لیے نئے سولر صارفین کے لیے بجلی خریدنے کی قیمت کم کی گئی ہے۔ تاہم اس پالیسی سے قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے کے بجائے سولر انرجی کے شعبے کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ مہنگے تیل اور گیس پر انحصار کم کرے اور متبادل توانائی ذرائع جیسے شمسی، ہوا اور پن بجلی کے فروغ پر توجہ دے۔ اس کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں۔ نیٹ میٹرنگ اور شمسی توانائی سے متعلق پالیسیاں ایک سال کے بجائے کم از کم 5سے 10سال کے لیے بنائی جائیں تاکہ سرمایہ کار اور صارفین پر اعتماد فیصلے کر سکیں۔
سولر پینلز، انورٹرز اور بیٹریز کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے حکومتی سبسڈی دی جائے تاکہ عوام زیادہ سے زیادہ شمسی توانائی کی طرف راغب ہو سکیں۔
کوئلہ، فرنس آئل اور ایل این جی سے پیدا ہونے والی بجلی مہنگی پڑتی ہے۔ حکومت کو ہائیڈرو، ونڈ، اور سولر توانائی کو مزید ترقی دینی چاہیے تاکہ بجلی سستی ہو سکے۔
گھریلو سطح پر شمسی توانائی کے ساتھ ساتھ صنعتی اور تجارتی سطح پر بھی شمسی توانائی کے استعمال کو فروغ دینا چاہیے تاکہ توانائی بحران سے نمٹا جا سکے۔
شمسی توانائی کی طرف رجحان بڑھنا پاکستان کے لیے مثبت پیشرفت ہے مگر حالیہ حکومتی پالیسی شمسی توانائی کی ترقی کی رفتار کو کم کر سکتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک کو جہاں توانائی کا بحران عرصہ دراز سے موجود ہے، نیٹ میٹرنگ جیسی سہولتوں کو مزید بہتر بنانا چاہیے، نہ کہ انہیں محدود کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ توانائی بحران کا واحد پائیدار حل یہی ہے کہ مہنگے ایندھن پر انحصار کم کر کے قابل تجدید توانائی کو فروغ دیا جائے تاکہ صارفین کو سستی اور ماحول دوست بجلی فراہم کی جا سکے۔





