Column

سیرت امام حسن مجتبیٰ

تحریر : صفدر علی حیدری

اہل بیت اطہار کی زندگانی کے سلسلہ میں دو طرح سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ایک یہ کہ ان کی بائیوگرافی پیش کی جائے یعنی ان کی تاریخ ولادت، تاریخ وفات، ازواج کی تعداد ، اولاد کی تعداد، خلفائے وقت وغیرہ وغیرہ بیان کئے جائیں ۔ دوسرے یہ کہ قرآنی طرز سے گفتگو کی جائے ۔ قرآنی طرز یہ ہے کہ ہم انہیں نمونہ عمل کے عنوان سے پیش کریں۔ تمام اہل بیت اطہار فضائل کی کلیات میں یکساں ہیں۔ مثلاً عبادت میں سب کے سب پہلی صف میں نظر آتے ہیں۔ اہل بیت کی نماز حقیقت میں ’ معراج‘ ہوتی تھی۔ اہل بیت اطہار جب لبیک کہتے تھے تو خود کو بارگاہ خداوندی میں پاتے تھے۔ آپ کے کریمانہ اخلاق کی ایک جھلک اس واقعے میں بخوبی نظر آتی ہے کہ ایک بار ایک شامی نے امام حسنؓ کو دیکھا تو گالیاں دینے لگا۔ آپ خاموش رہے اور ساتھیوں سے بھی خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ جب وہ گالیاں دے کر تھکا اور خاموش ہو گیا تو امامؓ نے اس سے فرمایا’’ مجھے لگ رہا ہے کہ تم سفر سے آئے ہو شاید تمہارے پاس رہنے کے لیے جگہ نہیں ہو گی ، کھانے کے لیے کچھ نہیں ہو گا ، تو آئو میرے گھر چلو، میں رہنے کے لیے جگہ دوں گا ، کھانا دوں گا‘‘، امامؓ کے فرمان پر وہ اس قدر اسے متاثر کیا کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گیا: آج سے پہلے پوری دنیا سب سے برا انسان کوئی نہیں تھا، اور آج میری نظر میں آپ سے بہتر انسان کوئی دوسرا نہیں ہے ‘‘۔
آپؓ 15رمضان 3 ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں سورہ کوثر کی پہلی تفسیر بن کر صحن علی المرتضیٰ و خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ میں تشریف لائے ۔ رسولؐ خدا کے لیے امام حسنؓ کی آمد بہت بڑی خوشی تھی کیوں کہ جب مکہ مکرمہ میں رسول کریم ؐ کے بیٹے یکے بعد دیگرے رحلت فرماتے رہے تو مشرکین طعنے دیتے اور آپؐ کو بڑا صدمہ پہنچتا۔ مشرکین کو جواب کے لیے قرآن مجید میں سورۃ الکوثر نازل ہوئی، جس میں آپؐ کو خوش خبری دی گئی ہے کہ خدا نے آپؐ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل آپؐ نہیں ہوں گے بلکہ آپؐ کا دشمن ہو گا۔
دنیا میں ہر انسان کی نسل اس کے بیٹے سے ہے، لیکن کائنات کی اشرف ترین ہستی سرور کونین حضرت محمد مصطفیٰؐ
کی نسل کا ذریعہ ان کی بیٹی حضرت فاطمہ زہراؓ یعنی امام حسن ؓو حسین ؓکو قرار دیا گیا۔ حضرت عمرؓ ابن خطاب اور حضرت جابرؓ ابن عبد اللہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا’’ ہر عورت کی اولاد کا نسب اس کے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہؓ کے، میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا باپ ہوں‘‘۔ حضرت عمرؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہر نسب منقطع ہو جائے گا سوائے میرے نسب ( اولاد فاطمہ ) اور رشتہ کے۔نصاری نجران کے ساتھ مباہلہ کے لیے بھی رسول ؐ خدا امام حسنؓ و حسینؓ کو اپنے فرزندان کے طور پر ساتھ لے کر گئے جس پر قرآن کی آیت گواہ ہے۔ جب امام حسن ؓ سرور کائناتؐ کی خدمت میں لائے گئے تو آنحضرتؐ نے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی۔ امام حسنؓ اسے چوسنے لگے اس کے بعد آپؐ نے دعا کی ’’ خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا‘‘۔ ولادت کے ساتویں دن سرکار کائناتؐ نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی۔ اس کے بعد آنحضرتؐ نے حضرت علیؓ سے پوچھا ’’ آپؓ نے اس بچہ کا کوئی نام بھی رکھا؟‘‘، امیر المومنین نے عرض کی ، آپؐ پر سبقت میں کیسے کر سکتا تھا۔ پیغمبر ؐ نے فرمایا ’’ میں بھی خدا پر کیسے سبقت کر سکتا ہوں‘‘۔ چند ہی لمحوں کے بعد جبرائیلٌ ، پیغمبر ؐ کی خدمت میں وحی لے کر آگئے اور کہا ’’ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ اس بچہ کا نام حسن ؓ رکھیے۔
تاریخ خمیس میں یہ مسئلہ تفصیلاً مذکور ہے۔ ماہرین علم الانساب بیان کرتے ہیں کہ خداوند عالم نے خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ کے دونوں شہزادوں کا نام پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسن و حسین نام سے کوئی موسوم نہ ہوا تھا۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ کے ساتھ امام حسنؓ سے زیادہ مشابہت رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ حضرت امام حسنؓ رسول کریمؐ سے چہرے سے سینے تک اور امام حسینؓ سینے سے قدموں تک رسولؐ کی شبیہہ تھے۔ خدا کی وحی کے بغیر کوئی کام اور کلام نہ کرنے والے رسولؐ خدا کی نواسوں سے محبت اور اللہ کے نزدیک مقام کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے ۔ روایت ہے کہ رسول کریم ؐ نماز عشاء ادا کرنے کے لیے باہر تشریف لائے اور آپؐ اس وقت حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کو گود میں اٹھائے ہوئے تھے۔ آپؐ اس وقت آگے بڑھے ( نماز کی امامت فرمانے کے لیے) اور ان کو زمین پر بٹھایا ۔ پھر نماز کے واسطے تکبیر فرمائی۔ آپ ؐ نے نماز کے درمیان ایک سجدہ میں تاخیر فرمائی تو میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ صاحب زادے ( یعنی رسول کریم ؐ کے نواسے) آپؐ کی پشت مبارک پر ہیں اور اس وقت آپؐ حالت سجدہ میں ہیں۔ پھر میں سجدہ میں چلا گیا جس وقت آپؐ نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ آپؐ نے نماز کے دوران ایک سجدہ ادا فرمانے میں تاخیر کیوں فرمائی۔ آپؐ نے فرمایا ایسی کوئی بات نہ تھی میرے نواسے مجھ پر سوار ہوئے تو مجھ کو ( برا) محسوس ہوا کہ میں جلدی اٹھ کھڑا ہوں اور اس کی مراد ( کھیلنے کی خواہش) مکمل نہ ہو۔ آنحضرتؐ ایک دن محو خطبہ تھے کہ حسینؓ آ گئے اور حسنؓ کے پائوں دامن عبا میں اس طرح الجھے کہ زمین پر گر پڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت ؐنے خطبہ ترک کر دیا اور منبر سے اتر کر انہیں آغوش میں اٹھا لیا اور منبر پر تشریف لے جا کر خطبہ شروع فرمایا۔ حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ؐ نے حضرت حسنؓ بن علیؓ کو اپنے مبارک کندھے پر اٹھایا ہوا تھا اور آپؐ فرما رہے تھے،’’ اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی اس سے محبت فرما‘‘۔ ایک بار آپؐ سے سوال کیا گیا کہ اہل بیت سے آپ کو سب سے پیارا کون ہے؟ فرمایا ، ’’حسنؓ اور حسینؓ‘‘ ۔ آپؐ ، حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کرتے، ’’ میرے دونوں بیٹوں کو میرے پاس بلائو۔ پھر آپ ؐدونوں کو سونگھا کرتے اور انھیں اپنے ساتھ لپٹا لیا کرتے‘‘۔ ( ترمذی)۔
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرمؐ نے فرمایا، حسنؓ اور حسینؓ دونوں دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں۔  حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ؐ کا ارشاد ہے ’’ جس نے ان دونوں یعنی حسنؓ و حسینؓ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا’’ کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتائوں جو اپنے نانا نانی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟، کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتائوں جو اپنے چچا اور پھوپھی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟، کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتائوں جو اپنے ماں باپ کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟، وہ حسنؓ اور حسینؓ ہیں‘‘۔ سیدہ فاطمہؓ سے روایت ہے کہ وہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو رسول کریم ؐکے مرض الوصال کے دوران آپؐ کی خدمت میں لائیں اور عرض کی، یا رسولؐ اللہ! انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا، حسنؓ میری ہیبت اور سرداری کا وارث ہے اور حسینؓ میری جرات اور سخاوت کا وارث ہے۔
امام حسن مجتبیٰ ؓ نے سات سال اور کچھ مہینے تک اپنے نانا رسولؐ خدا کا زمانہ دیکھا اور آنحضرتؐ کی آغوش محبت میں پرورش پائی۔ امام حسن مجتبیٰؓ اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد امامت کے درجے پر فائز ہوئے، اس کے ساتھ خلافت اسلامیہ پر بھی متمکن ہوئے اور تقریباً چھ ماہ تک آپ نے امور مملکت کا نظم و نسق سنبھالا۔ آپ کا عہد بھی خلفائے راشدین میں شمار کیا جاتا ہے۔ امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ امام حسنؓ زبردست عابد، بے مثل زاہد، افضل ترین عالم تھے، آپ نے جب بھی حج فرمایا پیدل فرمایا، کبھی کبھی پابرہنہ حج کے لیے جاتے تھے، آپ اکثر یاد خداوندی میں گریہ کرتے تھے، جب آپ وضو کرتے تھے تو آپ کے چہرہ کا رنگ زرد ہو جایا کرتا تھا اور جب نماز کے لیے کھڑ ے ہوتے تھے تو بید کی مثل کانپنے لگتے تھے۔
امام شافعیؒ لکھتے ہیں کہ امام حسنؓ نے اکثر اپنا سارا مال راہ خدا میں تقسیم کر دیا اور بعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایا ۔ جب آپ کی بیعت کی گئی تو آپ نے صاف صاف فرمایا ’’ اگر میں صلح کروں تو تم کو صلح کرنا ہو گی اور اگر میں جنگ کروں تو تمہیں میرے ساتھ مل کر جنگ کرنا ہو گی‘‘، سب نے اس شرط کو قبول کر لیا ۔ آپ نے انتظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لیا لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اسلامی معاشرہ انتشار کا شکار ہے اور تو آپ تخت حکومت کو خیر باد کہہ دیا کیونکہ امام حسنؓ کا واحد مقصد حکم خدا اور حکم رسولؐ کی پابندی کا اجرا تھا۔ امام حسن ؓ نے دین خدا کی سر بلندی، فتنہو فساد کا سر کچلنے، کتاب خدا اور سنت رسولؐ پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے تخت حکومت کو ٹھوکر مار کر جو تاریخی صلح کی وہ اسلام کی تاریخ کا ایسا ناقابل فراموش باب ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔
امیر معاویہؓ نے کوفہ والوں کے خطوط امامؓ کو بھیج دیئے اور آپ سے صلح کرنے کی پیشکش کی۔ امام حسنؓ نے وقت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے معاویہؓ کے ساتھ صلح کرنے اور خلافت کو معاویہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ معاویہؓ قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوگا، اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے گا اور تمام لوگوں خاص کر شیعیان علی کو امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرے گا۔ لیکن بعد میں معاویہؓ نے مذکورہ شرائط میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا۔
آپ اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نشین ہو گئے تھے ، لیکن حق کے مرکز اور تعلیمات محمدی ؐکے سرچشمہ امام حسنؓ کا قائم رہنا دشمنان دین کو کب گوارا تھا اسی لیے جعدہ بنت اشعث کو انعام و اکرام کا لالچ دے کر نواسہ رسول امام حسنؓ کو زہر دے کرے شہید کر دیا گیا۔ رسولؐ کے پیارے نواسے امام حسن ؓ نے 28 صفر 50ھ کو جام شہادت نوش کیا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ روایتوں میں ہے کہ حضرت حسنؓ نے نہایت کثرت کے ساتھ شادیاں کیں اور اسی کثرت کے ساتھ طلاقیں دیں، طلاقوں کی کثرت کی وجہ سے لوگ آپ کو ’’ مطلاق‘‘ کہنے لگے تھے، بعض روایتوں سے آپ کی ازواج کی تعداد نوے تک پہنچ جاتی ہے۔ لیکن یہ روایتیں مبالغہ آمیز ہیں اس کی تردید اس سے بھی ہوتی ہے کہ آپ کے کل دس اولادیں تھیں اور یہ تعداد شادیوں کے مقابلہ میں بہت کم ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شادیوں کی کثرت کی روایت مبالغہ سے خالی نہیں لیکن جب تک کوئی عورت آپ کے حبال عقد میں رہتی تھی اس سے بڑی محبت اور اس کی بڑی قدر افزائی فرماتے تھے، چنانچہ جب ناگزیر اسباب کی بنا پر کسی عورت سے قطع تعلق کرتے تھے تو آپ کے حسن سلوک اور محبت کی یاد برابر اس کے دل میں رہتی تھی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم امام حسن کو اپنے مبارک کندھے پر لے کر باہر نکلے، یہ دیکھ کر ایک شخص نے کہا ’’ اے لڑکے کتنی اچھی سواری ہے! تو ر سولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا ’’ اور کتنا اچھا سوار ہے‘‘۔ آپؐ نے اپنے دونوں نواسوں کو جوانان جنت کے سردار قرار دیا۔ آپؐ نے امام حسنؓ اور امام حسینؓ کو اپنی دنیا کے دو پھول کہا۔ آپؐ سے پوچھا گیا، آپؐ کے اہل بیت میں آپؐ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟، پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’ حسنؓ اور حسینؓ فاطمہؓ ۔ آپؐ فرماتے کہ میرے دونوں صاحبزادوں کو بلا کر لائو پھر ان دونوں کو سونگھتے اور اپنے جسم اطہر سے چمٹا لیتے ۔
آپ کی مرویات کی تعداد کل تیرہ ہے، شبیہ رسول حضرت امام حسنؓ کا لقب تھا، یہ مشابہت محض ظاہری اعضا و جوارح تک محدود نہ تھی، بلکہ آپ کی ذات باطنی اور معنوی لحاظ سے بھی اسوہ نبویؐ کا نمونہ تھی۔ یوں تو آپ تمام مکارم اخلاق کا پیکر مجسم تھے، لیکن زہد ورع دنیاوی جاہ و چشم سے بے نیازی اور بے تعلقی آپ کا ایسا خاص اور امتیازی وصف تھا جس میں آپ کا کوئی حریف نہیں ۔
در حقیقت جس استغنا اور بے نیازی کا ظہور آپ کی ذات گرامی سے ہوا وہ نوعِ انسانی کے لیے ایک معجزہ ہے ۔ عموماً قصر سلطنت کی تعمیر انسانی خون سے ہوتی ہے لیکن حضرت حسن نے ایک ملتی ہوئی عظیم الشان سلطنت کو محض چند انسانوں کے خون کی خاطر چھوڑ دیا ۔ تاریخ انسانی ایسی مثالی پیش کرنے سے عاجز ہے ۔
عبادت الٰہی آپ کا محبوب ترین مشغلہ تھا اور وقت کا بڑا حصہ آپ اس میں صرف فرماتے تھے۔ امیر معاویہؓ نے ایک شخص سے آپ کے حالات دریافت کیے اس نے بتایا کہ فجر کی نماز کے بعد سے طلوع آفتاب تک مصلیٰ پر بیٹھے رہتے ہیں ، پھر ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور آنے جانے والوں سے ملتے ہیں ۔ دن چڑھے چاشت پڑھ کر امہات المومنین کے پاس سلام کرنے کو جاتے ہیں ۔ پھر گھر ہو کر مسجد چلے آتے ہیں۔
امام نووی لکھتے ہیں کہ امام حسن نے متعدد حج پا پیادہ کیے ، فرماتے تھے کہ مجھے خدا سے حجاب معلوم ہوتا ہے کہ اس سے ملوں اور اس کے گھر پا پیادہ نہ گیا ہوں ۔ صدقہ وخیرات اور فیاضی و سیر چشمی آپ کا خاندانی وصف تھا لیکن جس فیاضی سے آپ خدا کی راہ میں اپنی دولت اور مال و متاع لٹاتے تھے اس کی مثالیں کم ملیں گی ۔ تین مرتبہ اپنے کل مال کا آدھا حصہ خدا کی راہ میں دے دیا اور تنصیف میں اتنی شدت کی کہ دو جوتوں میں سے ایک جوتا بھی خیرات کر دیا آنحضرتؐ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: ’’ حسن کو میرا علم اور میری صورت ملی ہے‘‘۔
صفدر علی حیدری

جواب دیں

Back to top button