پوری قوم پاک فوج کے پیچھے کھڑی ہے

امجد آفتاب
مملکتِ خداداد میں حالیہ دہشتگردی کے بڑھتے واقعات میں جہاں عوام میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے وہاں سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں پر بھی سخت سوالات اُٹھتے ہیں، جنہوں نے دہشتگردوں کے لیے نرم گوشہ پالیسی اپنا کر اُن کو تقویت بخشی اور ان کی مجرمانہ سرگرمیوں میں اُن کے حصہ دار بنے۔ ایک بات سب کو ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ان دہشتگردوں، خارجیوں کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے نہ ان کا کوئی دین ہے اور نہ ہی ان کا انسانیت سے کوئی تعلق ہے، یہ کھلم کھلا انسانیت کے دشمن ہیں یہ انسانیت کی تذلیل کرنے والا خارجی ٹولہ ہے، یہ فتنہ الخوارج ہے۔ یہ انسانیت کو ناحق قتل کرنے والے ہیں۔
فتنہ الخوارج اس وقت پاک دھرتی پر فساد و انتشار برپا کئے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں حکم فرماتا ہے کہ۔۔۔ ترجمہ: ’’ یہی ہے سزا ان لوگوں کی جو لڑائی کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسولؐ سے اور زمین میں فساد پھیلاتے پھرتے ہیں کہ انہیں ( عبرت ناک طور پر) قتل کیا جائے یا انہیں سولی چڑھایا جائے یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں میں کاٹ دئیے جائیں یا انہیں ملک بدر کر دیا جائے، یہ تو ان کے لیے دنیا کی زندگی میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے ( مزید) بہت بڑا عذاب ہے‘‘۔
ہر ملک کی اپنی خارجہ پالیسی ہوتی ہے جس کے تحت وہ دیگر ممالک سے اپنے تعلقات قائم کرتے ہیں،مگر سب سے پہلے اپنے ملک اور اس میں بسنے والے افراد کی جان و مال کے تحفظ کو مقدم رکھا جاتا ہے اور اپنے ملک کی سلامتی کی اولین سطح پر رکھ کر پالیسی مرتب رکھنی ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب روزانہ کی بنیاد پر کئی کئی دھماکے ہو رہے تھے جہاں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ پاکستان کا کوئی شہر کوئی علاقہ ان دہشت گرد حملوں سے محفوظ نہیں تھا، ہماری پاک فوج نے ان خارجیوں کی سرکوبی کیلئے فیصلہ کن آپریشن شروع کئے،ان کو جہنم واصل کیا۔ پاکستان کے تمام شہروں حتی کہ قبائلی علاقے جہاں پر ریاست کی رٹ بالکل ختم ہو چکی تھی وہاں سے بھی ان خارجیوں کو بھگا کر ان علاقوں کو کلئیر کرا لیا مگر 2018ے کے بعد سے یہ حالات دوبارہ خراب ہونا شروع ہوئے۔ موجودہ حکومت کے وزیروں اور کچھ رپورٹس کی مانیں تو ان دہشتگروں کو دوبارہ بسانے میں تحریک انصاف اور بانی پی ٹی آئی کا ہاتھ تھا۔ گزشتہ روز خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان کی حکومت میں ان کو مکمل چھوٹ دی گئی، اگر واقعی ایسا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف اور عمران خان کا سب سے بڑا گناہ یہی ہے کہ انہوں نے ان دہشتگروں کو دوبارہ چھوٹ دے کر ان علاقوں کی جانب بھیجا جہاں اب دوبارہ حالات بالکل کشیدہ ہیں ۔ دہشتگردوں کی سہولت کاری اور اُن کو چھوٹ بھی ان کے گناہوں میں برابری کی شراکت داری ہے۔
حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ’’ قیامت کے دن مقتول بیٹھا ہو گا، جب اس کا قاتل گزرے گا تو وہ اسے پکڑ کر اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرے گا: اے میرے رب! تو اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟، اللہ پاک قاتل سے فرمائے گا: تو نے اسے کیوں قتل کیا؟۔ قاتل عرض کرے گا: مجھے فلاں شخص نے قتل کا حکم دیا تھا، چنانچہ قاتل اور قتل کا حکم دینے والے دونوں کو عذاب دیا جائے گا‘‘۔
سیاسی وزارتی بنیادوں پر ان دہشتگردوں کو حاصل چھوٹ کی وجہ سے، بلکہ یوں کہیے کہ ان کے گناہ کبیرہ کی وجہ سے پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے، عالمی دہشتگردی انڈیکس 2025ء میں پاکستان دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی رپورٹ میں گزشتہ 17سال کے دوران دہشتگردی کے رجحانات اور اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔2024ء میں میں پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں 45فیصد اضافہ ہوا۔ پاکستان میں 2023میں 517حملے رپورٹ ہوئے جو 2024ء میں بڑھ کر 1099تک جا پہنچے جو ایک دہائی میں سب سے بڑا سالانہ اضافہ ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی ملک میں تیزی سے بڑھنے والی خطرناک دہشتگرد کے طور پر سامنے آئی جو پاکستان میں 52فیصد ہلاکتوں کی ذمہ دار تھی۔ گزشتہ سال ٹی ٹی پی فتنہ الخوارج نے 482حملے کیے، جن میں 558افراد جاں بحق ہوئے جو 2023ء میں 293ہلاکتوں کے مقابلے میں 91فیصد زیادہ ہیں، افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد دہشتگردوں کو سرحد پار محفوظ پناہ گاہیں مل گئیں جس سے پاکستان خصوصا خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تیزی سے بڑھے ہیں۔ بلوچستان لبریشن آرمی نے 2024ء میں پاکستان کا سب سے مہلک حملہ کیا، کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے خودکش دھماکے میں 25افراد جاں بحق ہوئے۔ بلوچ عسکریت گروہوں کے حملے 116سے بڑھ کر 504ہو گئے جبکہ ان حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 4گنا بڑھ کر338ہو گئی۔
پاکستان کا ہمسایہ ملک افغانستان سے دہشتگردوں کی پاکستان میں دراندازی بڑھنے لگی، جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشتگردی میں حالیہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔5مارچ کو بلوچستان میں پاک افغان سرحد کے قریبی علاقے ٹونہ کاکڑی میں سکیورٹی فورسز نے 4اہم دہشتگرد گرفتار کئے، ان سے کاشنکوفیں،دستی بم اور دیگر آتشی اسلحہ برآمد ہوا ۔ ان دہشتگردوں نے بڑی منصوبہ بندی کا اعتراف بھی کیا، ایک نے اعترافی بیان میں کہا کہ میرا نام اسامہ الدین ولد گلشاد ہے، افغانستان سے آیا ہوں ہمارا نظریہ ہماری ٹریننگ ہے۔ پہلے بھی کئی افغان دہشتگرد سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جہنم واصل ہو چکے ہیں، جن میں افغان صوبے باغدیس کے گورنر کا بیٹا خارجی بدرالدین بھی شامل تھا۔28فروری کو ہلاک ہونے والے افغان دہشتگرد مجیب الرحمٰن حضرت معاذ بن جبل نیشنل ملٹری اکیڈمی میں کمانڈر تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان دہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے اور اس میں افغان عبوری حکومت کی مکمل خاموشی دراصل دہشت گردوں کی مکمل حمایت ہے۔
پاکستان کو اور اس میں بسنے والے افراد کو فتنہ الخوارج، دیگر دہشتگرد جماعتوں اور اُن کے سہولت کاروں سے بچانے کے لیے ہمیشہ کی طرح پاک فوج میدان عمل میں موجود ہے، فرنٹ پر ان دہشتگردوں سے نبردآزما ہے جس کی وجہ سے آئے روز سکیورٹی فورسز کے جوان وطن پر اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کی قیادت میں پاک افواج کے جوان ان دہشتگروں کے آگے چٹان کی طرح مضبوط سے کھڑے ہیں، اس جنگ میں پوری قوم اپنی پاک فوج کے پیچھے کھڑی ہے، وہ دن دور نہیں جب ہماری بہادر سکیورٹی فورسز ایک بار پھر ان خارجیوں سے اس ملک کو پاک کرے گی اور اس دھرتی پر ان کا نام و نشان نہیں رہے گا، ان شاء اللہ۔
پوری قوم پاک فوج کے پیچھے کھڑی ہے!
امجد آفتاب
مملکتِ خداداد میں حالیہ دہشتگردی کے بڑھتے واقعات میں جہاں عوام میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے وہاں سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں پر بھی سخت سوالات اُٹھتے ہیں، جنہوں نے دہشتگردوں کے لیے نرم گوشہ پالیسی اپنا کر اُن کو تقویت بخشی اور ان کی مجرمانہ سرگرمیوں میں اُن کے حصہ دار بنے۔ ایک بات سب کو ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ان دہشتگردوں، خارجیوں کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے نہ ان کا کوئی دین ہے اور نہ ہی ان کا انسانیت سے کوئی تعلق ہے، یہ کھلم کھلا انسانیت کے دشمن ہیں یہ انسانیت کی تذلیل کرنے والا خارجی ٹولہ ہے، یہ فتنہ الخوارج ہے۔ یہ انسانیت کو ناحق قتل کرنے والے ہیں۔
فتنہ الخوارج اس وقت پاک دھرتی پر فساد و انتشار برپا کئے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں حکم فرماتا ہے کہ۔۔۔ ترجمہ: ’’ یہی ہے سزا ان لوگوں کی جو لڑائی کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسولؐ سے اور زمین میں فساد پھیلاتے پھرتے ہیں کہ انہیں ( عبرت ناک طور پر) قتل کیا جائے یا انہیں سولی چڑھایا جائے یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں میں کاٹ دئیے جائیں یا انہیں ملک بدر کر دیا جائے، یہ تو ان کے لیے دنیا کی زندگی میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے ( مزید) بہت بڑا عذاب ہے‘‘۔
ہر ملک کی اپنی خارجہ پالیسی ہوتی ہے جس کے تحت وہ دیگر ممالک سے اپنے تعلقات قائم کرتے ہیں،مگر سب سے پہلے اپنے ملک اور اس میں بسنے والے افراد کی جان و مال کے تحفظ کو مقدم رکھا جاتا ہے اور اپنے ملک کی سلامتی کی اولین سطح پر رکھ کر پالیسی مرتب رکھنی ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب روزانہ کی بنیاد پر کئی کئی دھماکے ہو رہے تھے جہاں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ پاکستان کا کوئی شہر کوئی علاقہ ان دہشت گرد حملوں سے محفوظ نہیں تھا، ہماری پاک فوج نے ان خارجیوں کی سرکوبی کیلئے فیصلہ کن آپریشن شروع کئے،ان کو جہنم واصل کیا۔ پاکستان کے تمام شہروں حتی کہ قبائلی علاقے جہاں پر ریاست کی رٹ بالکل ختم ہو چکی تھی وہاں سے بھی ان خارجیوں کو بھگا کر ان علاقوں کو کلئیر کرا لیا مگر 2018ے کے بعد سے یہ حالات دوبارہ خراب ہونا شروع ہوئے۔ موجودہ حکومت کے وزیروں اور کچھ رپورٹس کی مانیں تو ان دہشتگروں کو دوبارہ بسانے میں تحریک انصاف اور بانی پی ٹی آئی کا ہاتھ تھا۔ گزشتہ روز خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان کی حکومت میں ان کو مکمل چھوٹ دی گئی، اگر واقعی ایسا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف اور عمران خان کا سب سے بڑا گناہ یہی ہے کہ انہوں نے ان دہشتگروں کو دوبارہ چھوٹ دے کر ان علاقوں کی جانب بھیجا جہاں اب دوبارہ حالات بالکل کشیدہ ہیں ۔ دہشتگردوں کی سہولت کاری اور اُن کو چھوٹ بھی ان کے گناہوں میں برابری کی شراکت داری ہے۔
حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ’’ قیامت کے دن مقتول بیٹھا ہو گا، جب اس کا قاتل گزرے گا تو وہ اسے پکڑ کر اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرے گا: اے میرے رب! تو اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟، اللہ پاک قاتل سے فرمائے گا: تو نے اسے کیوں قتل کیا؟۔ قاتل عرض کرے گا: مجھے فلاں شخص نے قتل کا حکم دیا تھا، چنانچہ قاتل اور قتل کا حکم دینے والے دونوں کو عذاب دیا جائے گا‘‘۔
سیاسی وزارتی بنیادوں پر ان دہشتگردوں کو حاصل چھوٹ کی وجہ سے، بلکہ یوں کہیے کہ ان کے گناہ کبیرہ کی وجہ سے پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے، عالمی دہشتگردی انڈیکس 2025ء میں پاکستان دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی رپورٹ میں گزشتہ 17سال کے دوران دہشتگردی کے رجحانات اور اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔2024ء میں میں پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں 45فیصد اضافہ ہوا۔ پاکستان میں 2023میں 517حملے رپورٹ ہوئے جو 2024ء میں بڑھ کر 1099تک جا پہنچے جو ایک دہائی میں سب سے بڑا سالانہ اضافہ ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی ملک میں تیزی سے بڑھنے والی خطرناک دہشتگرد کے طور پر سامنے آئی جو پاکستان میں 52فیصد ہلاکتوں کی ذمہ دار تھی۔ گزشتہ سال ٹی ٹی پی فتنہ الخوارج نے 482حملے کیے، جن میں 558افراد جاں بحق ہوئے جو 2023ء میں 293ہلاکتوں کے مقابلے میں 91فیصد زیادہ ہیں، افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد دہشتگردوں کو سرحد پار محفوظ پناہ گاہیں مل گئیں جس سے پاکستان خصوصا خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تیزی سے بڑھے ہیں۔ بلوچستان لبریشن آرمی نے 2024ء میں پاکستان کا سب سے مہلک حملہ کیا، کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے خودکش دھماکے میں 25افراد جاں بحق ہوئے۔ بلوچ عسکریت گروہوں کے حملے 116سے بڑھ کر 504ہو گئے جبکہ ان حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 4گنا بڑھ کر338ہو گئی۔
پاکستان کا ہمسایہ ملک افغانستان سے دہشتگردوں کی پاکستان میں دراندازی بڑھنے لگی، جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشتگردی میں حالیہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔5مارچ کو بلوچستان میں پاک افغان سرحد کے قریبی علاقے ٹونہ کاکڑی میں سکیورٹی فورسز نے 4اہم دہشتگرد گرفتار کئے، ان سے کاشنکوفیں،دستی بم اور دیگر آتشی اسلحہ برآمد ہوا ۔ ان دہشتگردوں نے بڑی منصوبہ بندی کا اعتراف بھی کیا، ایک نے اعترافی بیان میں کہا کہ میرا نام اسامہ الدین ولد گلشاد ہے، افغانستان سے آیا ہوں ہمارا نظریہ ہماری ٹریننگ ہے۔ پہلے بھی کئی افغان دہشتگرد سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جہنم واصل ہو چکے ہیں، جن میں افغان صوبے باغدیس کے گورنر کا بیٹا خارجی بدرالدین بھی شامل تھا۔28فروری کو ہلاک ہونے والے افغان دہشتگرد مجیب الرحمٰن حضرت معاذ بن جبل نیشنل ملٹری اکیڈمی میں کمانڈر تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان دہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے اور اس میں افغان عبوری حکومت کی مکمل خاموشی دراصل دہشت گردوں کی مکمل حمایت ہے۔
پاکستان کو اور اس میں بسنے والے افراد کو فتنہ الخوارج، دیگر دہشتگرد جماعتوں اور اُن کے سہولت کاروں سے بچانے کے لیے ہمیشہ کی طرح پاک فوج میدان عمل میں موجود ہے، فرنٹ پر ان دہشتگردوں سے نبردآزما ہے جس کی وجہ سے آئے روز سکیورٹی فورسز کے جوان وطن پر اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کی قیادت میں پاک افواج کے جوان ان دہشتگروں کے آگے چٹان کی طرح مضبوط سے کھڑے ہیں، اس جنگ میں پوری قوم اپنی پاک فوج کے پیچھے کھڑی ہے، وہ دن دور نہیں جب ہماری بہادر سکیورٹی فورسز ایک بار پھر ان خارجیوں سے اس ملک کو پاک کرے گی اور اس دھرتی پر ان کا نام و نشان نہیں رہے گا، ان شاء اللہ۔
پوری قوم پاک فوج کے پیچھے کھڑی ہے!
امجد آفتاب
مملکتِ خداداد میں حالیہ دہشتگردی کے بڑھتے واقعات میں جہاں عوام میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے وہاں سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں پر بھی سخت سوالات اُٹھتے ہیں، جنہوں نے دہشتگردوں کے لیے نرم گوشہ پالیسی اپنا کر اُن کو تقویت بخشی اور ان کی مجرمانہ سرگرمیوں میں اُن کے حصہ دار بنے۔ ایک بات سب کو ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ان دہشتگردوں، خارجیوں کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے نہ ان کا کوئی دین ہے اور نہ ہی ان کا انسانیت سے کوئی تعلق ہے، یہ کھلم کھلا انسانیت کے دشمن ہیں یہ انسانیت کی تذلیل کرنے والا خارجی ٹولہ ہے، یہ فتنہ الخوارج ہے۔ یہ انسانیت کو ناحق قتل کرنے والے ہیں۔
فتنہ الخوارج اس وقت پاک دھرتی پر فساد و انتشار برپا کئے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں حکم فرماتا ہے کہ۔۔۔ ترجمہ: ’’ یہی ہے سزا ان لوگوں کی جو لڑائی کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسولؐ سے اور زمین میں فساد پھیلاتے پھرتے ہیں کہ انہیں ( عبرت ناک طور پر) قتل کیا جائے یا انہیں سولی چڑھایا جائے یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں میں کاٹ دئیے جائیں یا انہیں ملک بدر کر دیا جائے، یہ تو ان کے لیے دنیا کی زندگی میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے ( مزید) بہت بڑا عذاب ہے‘‘۔
ہر ملک کی اپنی خارجہ پالیسی ہوتی ہے جس کے تحت وہ دیگر ممالک سے اپنے تعلقات قائم کرتے ہیں،مگر سب سے پہلے اپنے ملک اور اس میں بسنے والے افراد کی جان و مال کے تحفظ کو مقدم رکھا جاتا ہے اور اپنے ملک کی سلامتی کی اولین سطح پر رکھ کر پالیسی مرتب رکھنی ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب روزانہ کی بنیاد پر کئی کئی دھماکے ہو رہے تھے جہاں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ پاکستان کا کوئی شہر کوئی علاقہ ان دہشت گرد حملوں سے محفوظ نہیں تھا، ہماری پاک فوج نے ان خارجیوں کی سرکوبی کیلئے فیصلہ کن آپریشن شروع کئے،ان کو جہنم واصل کیا۔ پاکستان کے تمام شہروں حتی کہ قبائلی علاقے جہاں پر ریاست کی رٹ بالکل ختم ہو چکی تھی وہاں سے بھی ان خارجیوں کو بھگا کر ان علاقوں کو کلئیر کرا لیا مگر 2018ے کے بعد سے یہ حالات دوبارہ خراب ہونا شروع ہوئے۔ موجودہ حکومت کے وزیروں اور کچھ رپورٹس کی مانیں تو ان دہشتگروں کو دوبارہ بسانے میں تحریک انصاف اور بانی پی ٹی آئی کا ہاتھ تھا۔ گزشتہ روز خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان کی حکومت میں ان کو مکمل چھوٹ دی گئی، اگر واقعی ایسا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف اور عمران خان کا سب سے بڑا گناہ یہی ہے کہ انہوں نے ان دہشتگروں کو دوبارہ چھوٹ دے کر ان علاقوں کی جانب بھیجا جہاں اب دوبارہ حالات بالکل کشیدہ ہیں ۔ دہشتگردوں کی سہولت کاری اور اُن کو چھوٹ بھی ان کے گناہوں میں برابری کی شراکت داری ہے۔
حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ’’ قیامت کے دن مقتول بیٹھا ہو گا، جب اس کا قاتل گزرے گا تو وہ اسے پکڑ کر اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرے گا: اے میرے رب! تو اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟، اللہ پاک قاتل سے فرمائے گا: تو نے اسے کیوں قتل کیا؟۔ قاتل عرض کرے گا: مجھے فلاں شخص نے قتل کا حکم دیا تھا، چنانچہ قاتل اور قتل کا حکم دینے والے دونوں کو عذاب دیا جائے گا‘‘۔
سیاسی وزارتی بنیادوں پر ان دہشتگردوں کو حاصل چھوٹ کی وجہ سے، بلکہ یوں کہیے کہ ان کے گناہ کبیرہ کی وجہ سے پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے، عالمی دہشتگردی انڈیکس 2025ء میں پاکستان دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی رپورٹ میں گزشتہ 17سال کے دوران دہشتگردی کے رجحانات اور اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔2024ء میں میں پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں 45فیصد اضافہ ہوا۔ پاکستان میں 2023میں 517حملے رپورٹ ہوئے جو 2024ء میں بڑھ کر 1099تک جا پہنچے جو ایک دہائی میں سب سے بڑا سالانہ اضافہ ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی ملک میں تیزی سے بڑھنے والی خطرناک دہشتگرد کے طور پر سامنے آئی جو پاکستان میں 52فیصد ہلاکتوں کی ذمہ دار تھی۔ گزشتہ سال ٹی ٹی پی فتنہ الخوارج نے 482حملے کیے، جن میں 558افراد جاں بحق ہوئے جو 2023ء میں 293ہلاکتوں کے مقابلے میں 91فیصد زیادہ ہیں، افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد دہشتگردوں کو سرحد پار محفوظ پناہ گاہیں مل گئیں جس سے پاکستان خصوصا خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تیزی سے بڑھے ہیں۔ بلوچستان لبریشن آرمی نے 2024ء میں پاکستان کا سب سے مہلک حملہ کیا، کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے خودکش دھماکے میں 25افراد جاں بحق ہوئے۔ بلوچ عسکریت گروہوں کے حملے 116سے بڑھ کر 504ہو گئے جبکہ ان حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 4گنا بڑھ کر338ہو گئی۔
پاکستان کا ہمسایہ ملک افغانستان سے دہشتگردوں کی پاکستان میں دراندازی بڑھنے لگی، جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشتگردی میں حالیہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔5مارچ کو بلوچستان میں پاک افغان سرحد کے قریبی علاقے ٹونہ کاکڑی میں سکیورٹی فورسز نے 4اہم دہشتگرد گرفتار کئے، ان سے کاشنکوفیں،دستی بم اور دیگر آتشی اسلحہ برآمد ہوا ۔ ان دہشتگردوں نے بڑی منصوبہ بندی کا اعتراف بھی کیا، ایک نے اعترافی بیان میں کہا کہ میرا نام اسامہ الدین ولد گلشاد ہے، افغانستان سے آیا ہوں ہمارا نظریہ ہماری ٹریننگ ہے۔ پہلے بھی کئی افغان دہشتگرد سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جہنم واصل ہو چکے ہیں، جن میں افغان صوبے باغدیس کے گورنر کا بیٹا خارجی بدرالدین بھی شامل تھا۔28فروری کو ہلاک ہونے والے افغان دہشتگرد مجیب الرحمٰن حضرت معاذ بن جبل نیشنل ملٹری اکیڈمی میں کمانڈر تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان دہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے اور اس میں افغان عبوری حکومت کی مکمل خاموشی دراصل دہشت گردوں کی مکمل حمایت ہے۔
پاکستان کو اور اس میں بسنے والے افراد کو فتنہ الخوارج، دیگر دہشتگرد جماعتوں اور اُن کے سہولت کاروں سے بچانے کے لیے ہمیشہ کی طرح پاک فوج میدان عمل میں موجود ہے، فرنٹ پر ان دہشتگردوں سے نبردآزما ہے جس کی وجہ سے آئے روز سکیورٹی فورسز کے جوان وطن پر اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کی قیادت میں پاک افواج کے جوان ان دہشتگروں کے آگے چٹان کی طرح مضبوط سے کھڑے ہیں، اس جنگ میں پوری قوم اپنی پاک فوج کے پیچھے کھڑی ہے، وہ دن دور نہیں جب ہماری بہادر سکیورٹی فورسز ایک بار پھر ان خارجیوں سے اس ملک کو پاک کرے گی اور اس دھرتی پر ان کا نام و نشان نہیں رہے گا، ان شاء اللہ۔







