نفس اور تزکیہ نفس ( 2)

تحریر ، صفدر علی حیدری
’’ قسم ہے سورج اور اس کی روشنی کی، اور چاند کی جب وہ اس کے پیچھے آتا ہے، اور دن کی جب وہ آفتاب کو روشن کر دے ، اور رات کی جب وہ اسے چھپا لے، اور آسمان کی اور اس کی جس نے اسے بنایا، اور زمین کی اور اس کی جس نے اسے بچھایا، اور نفس کی اور اس کی جس نے اسے معتدل کیا ‘‘ ۔
سورہ الشمس میں رب العالمین نے گیارہ قسمیں اٹھا کر تمہید باندھی اور پھر قسمیں اٹھانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’ پھر اس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ دی، بہ تحقیق جس نے اسے پاک رکھا کامیاب ہوا، اور جس نے اسے آلودہ کیا نامراد ہوا ‘‘۔
گویا اس کریم رب نے انسان کو خلق کرنے کے بعد تنہا چھوڑا ہے نہ آزاد۔ ہاں اس پر جبر بھی مسلط نہیں کیا۔ اسے اختیار کی آزادی دی ہے کہ وہ جو راستہ چاہے اپنے لیے منتخب کر لے ۔
کامیاب ہے وہ شخص جس نے نفس کو اپنی فطرت کی حالت پر بچائے رکھا۔ جیسے اللہ نے اسے شفاف خلق فرمایا تھا اسی طرح شفاف رکھا۔ فطری تقاضوں کے منافی میل کچیل کو آنے نہیں دیا۔ چونکہ فطرت کے خلاف بیرونی منفی دبائو نہ آئے تو فطرت انسان کی سو فیصد درست راہنمائی کرتی ہے اور فطرت رسول باطنی اور حجت خدا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نفس میں حق اور باطل کے درمیان فرق کا بیج بو دیا تاکہ انسان پر ہر دو چیزیں واضح رہے اور پھر وہ اپنی فہم کے مطابق ان میں سے کسی راہ کا ا انتخاب کرتے ہوئے کسی ایک راستے پر چل سکے۔ اسی کو ہدایت تکوینی کہتے ہیں ۔
گویا قدرت کا مقتضا ہے کہ انسان اپنی فطرت پر زندہ رہے کہ یہی فوزا عظیما ہے۔ قلیل منفعت کے لیے عظیم کامیابی کو دائو پر لگانے والوں کو جناب امیر کی سنت کو سامنے رکھنا ہو گا۔ جب دنیا ان کے سامنے سجی انوری ہوئی خوب صورت عورت کے روپ میں سامنے آئی تو آپ نے اسے طلاق بائن دے دی کہ اس کے بعد رجوع کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں بچتی۔
اب جب کہ یہ واضح ہو گیا کہ حقیقی کامیابی کے لیے تزکیہ نفس لازمی ہے تو ہمیں اس بات پر دھیان دینا ہو گا کہ یہ تزکیہ ہے کیا چیز اور اسے حاصل کیسے کیا جا سکتا ہے ۔ تزکیہ کا لفظی معنی ہے پاک صاف کرنا، نشو و نما کرنا ۔ اسی سے لفظ زکوٰۃ نکلا ہے۔
کلام مجید میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلآ ’’ بیشک اس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا‘‘۔
لہٰذا تزکیہ نفس سے مراد ہے کہ نفس انسانی میں موجود شر کے فطری غلبہ کو دور کرنا اور اسے گناہوں کی ان آلودگیوں اور آلائشوں سے پاک کرنا جو روحانی نشو و نما میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں ۔ ان تمام بدی کی خواہشات پر غلبہ پا لینے کا عمل تزکیہ نفس کہلاتا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی کیاری میں پودینہ بوئے پھر اس کے بعد وہاں غیر ضروری گھاس اگ آئے ، جو پودینہ کی نشو و نما میں رکاوٹ بن رہی ہو تو اسے اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے تاکہ زمین کی ساری تخلیقی قوت اس گھاس پھونس پر صرف ہونے کی بجائے صرف پودینے کی نشو و نما پر صرف ہو ۔ صفائی کے اس عمل کا نام تزکیہ ہے۔
تزکیہ کے اسی عمل کو قرآن مجید نے فلاح ( کامیابی) قرار دیا ہے۔ ’’ یقینا وہ مراد کو پہنچا جس نے ( اپنے) نفس کو پاک کر لیا اور نامراد ہوا جس نے اسے خاک میں ملا دیا‘‘۔
تزکیہ نفس کی ضرورت کو سمجھنے کے لیے پہلے فطرت انسان کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔ انسان کا وجود جسم اور روح دونوں کا مرکب ہے۔ جسم اور روح دونوں کے الگ الگ تقاضے ہیں اور یہ تقاضے ان کی فطری اور طبعی صلاحیتوں کے مطابق ہیں۔ انسانی جسم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے اور مٹی میں پستی و گھٹیا پن، ضلالت، گمراہی، حیوانیت و بہیمیت، شیطانیت اور سرکشی جیسی خاصیتیں پائی جاتی ہیں۔ اسی لیے نفس انسانی فطری طور پر برائیوں کی طرف رغبت دلاتا رہتا ہے۔ گویا گناہوں کی آلودگیاں اور حق سے انحراف نفس انسانی کی فطرت میں شامل ہے ۔
’’ بیشک نفس تو برائیوں کا ہی حکم دیتا ہے‘‘۔
دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے روح کی صورت میں انسان کے اندر ایک لطیف و نورانی ملکہ بھی ودیعت کر دیا ہے، جس کے تقاضے بدی و نیکی کی تمیز ، حق پرستی ، صداقت و امانت اور نفس کی تہذیب و تطہیر سے پورے ہوتے ہیں ۔
پس ( اللہ تعالیٰ) نے نفس انسانی کے اندر برائی اور اچھائی دونوں کا شعور ودیعت کر دیا ہے‘‘۔ ’’ اور ہم نے ( انسان کو نیکی اور بدی کے ) دونوں راستے دکھا دئیے ہیں‘‘۔
گویا انسان کے اندر برائی اور اچھائی، بدی و نیکی، خیر و شر دونوں طرح کے میلانات ازل سے ودیعت کر دئیے گئے۔ ان دونوں کے درمیان تضاد، تصادم اور ٹکرائو کی کیفیت قائم رہتی ہے اور جب تک یہ کشمکش قائم رہے انسان کی زندگی عجیب قسم کے تضادات اور بگاڑ کا شکار رہتی ہے ۔ اسی بگاڑ سے بے راہ روی ، ظلم و استحصال، فس و فجور جنم لیتے ہیں۔ انسانی شخصیت اپنے اندرونی انتشار کی وجہ سے بے سکون و بے اطمینان رہتی ہے۔ تزکیہ نفس دراصل اس کشمکش سے نجات کا ذریعہ ہے ۔
’’ اور وہ نفس کو ہر بری خواہش سے روکتا ہے‘‘۔
اس آیت کریمہ سے پتا چلا کہ روح میں موجود خیر کے تقاضوں کو نفس کے برے اور شر کے تقاضوں پر غالب کر لینے سے یہ تصادم ختم ہو جاتا ہے۔ نیکی بدی پر غالب آجاتی ہے اور جب حیوانی، شہوانی، نفسانی قوتیں کمزور ہونے لگیں تو نتیجتاً روح اور اس میں پوشیدہ نیکی کی قوتیں نشو و نما پا کر طاقتور اور مضبوط ہو جاتی ہیں اور انسانی کی ساری قوتیں نیکی کے فروغ پر صرف ہونے لگتی ہیں۔
پس جب کوئی برائی نفس انسانی میں فروغ نہ پا سکے ، کوئی شے صراط مستقیم سے اس کو بہکا نہ سکے اور مادی زندگی کی آلائشیں اس کو اس راہ حق سے ہٹا نہ سکیں تو ایک طرف اسے بارگاہ خداوندی میں ایسا سجدہ عبادت نصیب ہو جاتا ہے جس کی کیفیت یہ ہے کہ گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا بہ صورت دیگر خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔ حدیث مبارکہ میں اس کو کیفیت احسان سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اور دوسری طرف اس کی شخصیت روحانی و اخلاقی کمال کی بلندیوں کو بھی پالے تو اس عمل کا نام تزکیہ نفس ہے جس کے حصول کے بغیر عبادت بے معنی و بے لذت ہے نیکی کے فروغ و تقویٰ اور معرفت ربانی کے لیے پہلا زینہ اور سب سے پہلا عمل تزکیہ نفس ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان خواہشات کا پتلا ہے۔ اس نے اندر خواہشات گڈ مڈ سی ہو کر رہ گئی ہیں ۔ اب اس کا کام اور مقام یہ ہے کہ وہ ان کو خالص کرے۔ پودینے سے گھاس پھوس کو الگ کرے۔
اب رشک اور حسد کو ہی لے لیں۔ مومن حاسد نہیں ہو سکتا وہ رشک کر سکتا ہے مگر اکثر وہ حاسد بن جاتا ہے۔
یا اللہ اسے دیا ہے مجھے کیوں نہیں دیا۔ مجھے نہیں دے سکتا تو اسے بھی مت دے۔
اب تزکیے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے رشک کا پہلو اپنائے اور حسد سے دامن بچائے ۔اس میں کوئی شک نہیں خواہشات کا خاتمہ ممکن ہے نہ مقصود و مطلوب۔ اگر یہ بری ہوتیں تو تو خالق کل ان کو خلق ہی کیوں فرماتا ۔ وہ جس کے ہاتھ میں سراسر خیر ہے اس سے کب یہ ممکن ہے کہ وہ پہلے خود خواہشات قلب انسانی میں بوئے اور پھر ان کے خاتمے کی بات کرے ۔ خواہشات بری نہیں ہوتیں ہاں ان کی تکمیل کے لیے جو راستہ اختیار کیا جائے وہ اچھا یا برا ہو سکتا ہے۔ اس نے اگر خواہشات پیدا کی ہے تو ان کے حصول کا رستہ بھی سجھایا، سمجھایا اور سکھایا ہے۔
اب آخری بات یہ ہے کہ تزکیہ نفس کے لیے کون سا رستہ اپنایا جائے اور کس کو رہنما بنایا جائے ۔ تو عرض ہے کہ ہمارے پاس قرآن و حدیث موجود ہیں ۔ اپنے نفس کو سدھارنے کے لیے ہمیں کہیں باہر جانے یا ادھر ادھر دیکھنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ۔
ہمارے لیے قرآن اور ہمارے نبیؐ کی سنت ہی کافی و وافی ہے۔ اس کے لیے کسی راہب، کسی صوفی کسی پیر فقیر اور کسی عابد و زاہد یا کسی خانقاہی سلسلہ کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے لیے ہمارے نبیؐ کی ذات اور ان کی سیرت ہی کافی ہے۔ آپؐ نے رہبانیت کی سختی سے رد فرمائی اور بار بار اپنی سیرت بطور نمونہ پیش فرمائی۔
آخری بات یہ کہ ماہ رمضان اصلاح نفس کا نکتہ عروج ہے۔ اس میں ایک ماہ کے لیے سارا دن ہمیں یہ تربیت دی جاتی ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے حلال چیزوں سے بھی رکے رہو۔ اب آپ خود بتائیے کہ کیا ہمارا رب ہمیں اس بات کی اجازت دی سکتا ہے کہ ہم حرام چیزوں کی طرف دیکھیں اور ان سے جسمانی یا جنسی تلذذ حاصل کریں۔
اللہ تعالیٰ میں اس ماہ مقدس کی برکتیں، رحمتیں اور سعادتیں نصیب فرمائے، آمین ثم آمین!
صفدر علی حیدری







