Column

نیویارک کی سڑکوں پر خواتین کو روندنے کا تاریخی واقعہ

تحریر : ڈاکٹر جمشید نظر

8 مارچ سن 1907ء میں امریکہ کے شہر نیو یارک میں لباس سازی کی صنعت سے وابستہ سیکڑوں کارکن خواتین نے جب احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے مطالبہ پیش کیا کہ انھیں بھی مردوں کے مقابلے میں معقول تنخواہ دی جائے تو پولیس نے ان پر اندھا دھند لاٹھی چارج کیا اور کئی خواتین کو جیل میں قید کرلیا۔ اس واقعہ کے ٹھیک ایک سال بعد 8مارچ 1908ء میں نیو یارک کی سڑکوں پر پندرہ ہزار محنت کش خواتین نے اپنی تنخواہوں میں اضافے، اپنے ووٹ کے حق اور بچوں سے جبری مشقت کے خاتمے کے لئے پھر مظاہرہ کیا تو اس مرتبہ حکومتی مشینری نے پوری طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواتین پر وحشیانہ تشدد کے تمام تر حربے اختیار کئے، گھڑ سوار پولیس نے مظاہر کرنے والی خواتین کو بالوں سے پکڑ کر نیویارک کی سڑکوں پر دور دور تک گھسیٹا، ان پر اندھا دھند لاٹھیاں برسائی گئیں حتیٰ کہ خواتین کو گھوڑوں کے ساتھ باندھ کر سڑکوں پر روندا گیا اور بہت سی خواتین کو جیل میں بند کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دلخراش واقعہ کے بعد سے لے کر آج تک خواتین اپنے حقوق کی آواز بلند کر رہی ہیں۔ سن 1909ء میں امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی کی طرف سے پہلی بار عورتوں کا قومی دن 28فروری کو منایا گیا۔ سن 1910ء میں کوپن ہیگن میں ورکنگ خواتین کی دوسری عالمی کانفرنس منعقدہوئی جس میں 17ممالک کی تقریبا 100خواتین نے شرکت کی۔کانفرنس میں جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی خاتون رہنما کلارازیٹ کین نے خواتین کا عالمی دن منانے کی تجویز پیش کی ۔ کانفرنس میں مشترکہ طور پر ہر سال 8مارچ کو ورکنگ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعد ازاں مختلف ادوار میں خواتین کی تحریک کسی نہ کسی طرح جاری رہی اور بالآخر یہ تب کامیاب ہوئی جب سن1975ء میں پہلی مرتبہ اقوام متحدہ نے خواتین کا عالمی سال منایا، سن1977ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس دن کو باقاعدہ منانے کی منظوری دے دی تب سے اقوام متحدہ کے رکن ممالک ہر سال 8مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے لگے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کے بنیادی حقوق کی آواز بلند کرنا ہے۔ اس سال کا تھیم ہے ’’ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق، مساوات اور انھیں بااختیار بنانا‘‘۔
اقوام عالم کو خواتین کے بنیادی حقوق کی فراہمی سے متعلق شعورسن 1907ء میں خواتین کی اس تحریک کے بعد ہوا جو انہوں نے اپنے حق کے لئے شروع کی تھی لیکن اقوام عالم جان بوجھ کر اس بات سے بے خبر ہے کہ اسلام نے خواتین کو جو حقوق دئیے اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی اس کے باوجود خواتین کے حقوق کے نام پر اسلام پر بڑی تنقید کی جاتی ہے لیکن خواتین کے حقوق کی بات کرنے والا مغربی معاشرہ جس طرح خواتین کو جنسی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے اسے دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے۔ خواتین کے حقوق سے متعلق پاکستان کی تاریخ بڑی شاندار اور حوصلہ افزاء رہی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل جس طرح قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے خواتین کے حقوق کی ترجمانی کی ہے وہ قابل دید ہے۔1942ء میں جب قائد اعظمؒ سے سوال کیا گیا کہ پاکستان قدامت پسند یا ترقی پسند ریاست ہوگا تو قائد اعظم ؒ نے جواب دیا کہ ’’ خواتین کو بتا دو کہ میں ایک ترقی پسند مسلم لیڈر ہوں، میں بلوچستان اور سرحد جیسے پسماندہ علاقوں میں مسلم لیگ کے اجلاسوں میں اپنی بہن کو ساتھ لے کر جاتا ہوں ، ان شاء اللہ پاکستان ایک ترقی پسند ملک ہوگا جس کی تعمیر و ترقی میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتے نظر آئیں گی‘‘۔ اسی طرح علامہ اقبالؒ بھی خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دینے کے حق میں تھے، اپنے ایک مقالے میں انہوں نے تحریر کیا کہ ’’ عورت تمدن کی جڑ ہے لہذاء اس کی طرف پوری توجہ ضروری ہے، اپنی قوم کی عورتوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں، مرد کی تعلیم صرف فرد واحد کی تعلیم ہے مگر عورت کو تعلیم دینا حقیقت میں تمام خاندان کو تعلیم دینا ہے، دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی اگر اس قوم کا آدھا حصہ جاہل مطلق رہ جائے‘‘۔
قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے خواتین سے متعلق نظریات اور اسلام کی روشنی میں پاکستان کی خواتین کو ترقی کے یکساں مواقع ملتے رہے ہیں جس کی بدولت خواتین نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنا نام بطور پاکستانی خواتین روشن کیا ہے۔
جیسے پاکستانی سیاست میں محترمہ فاطمہ جناح اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید، غیرت کے نام پر فلم پر آسکراور ایمی ایوارڈ جیتنے والی صحافی و فلمساز شرمین عبید، پاکستانی خواتین کی تعلیم کی سرگرم رکن ملالہ یوسف زئی، ظلم و زیادتی پر آواز اُٹھانے والی مختاراں مائی، یورپ کی سب سے اونچی پہاڑی چوٹی مائونٹ البرس کو سر کرنے والی کوہ پیما ثمینہ بیگ، اسلامک سنٹر امریکہ میں سربراہ مقرر ہونے والی اسماء چودھری، قرآن کریم کا نسخہ اپنے ہاتھ سے تحریر کرنے کا اعزاز حاصل کرنے والی فرخندہ پرویز، آسٹریلین پارلیمنٹ میں قانون ساز کے عہدے پر مقرر ہونے والی مہرین فاروقی، نو سال کی عمر میں مائیکرو سافٹ ویئر سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا اعزاز حاصل کرنے والی ارفع کریم، پاک فضائیہ کی پہلی خاتون لڑاکا پائلٹ عائشہ فاروقی سمیت بے شمار ایسی پاکستانی خواتین ہیں جنہوں نے اپنا نام دنیا میں روشن کیا ہے۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق و تحفظ کے لئے سن 1973ء کے آئین سے لے کر آج تک وقتا فوقتا کئی قوانین بنائے گئے۔ ضرورت اس امر کہ ہے کہ خواتین کو حقوق کی فراہمی کے لئے ہمیں مغربی روایات سے بچنا ہوگا کیونکہ مغربی خواتین اپنے حقوق کے نام پر بے راہ روی کا شکار ہوچکی ہیں ایک طرف ان کا جنسی و جسمانی استحصال کیا جاتا ہے تو دوسری طرف اس قدر آزادی دے دی گئی ہے کہ ماں، بہن، بیٹی، بیوی جیسے رشتوں کا تقدس ختم ہوتا جارہا ہے۔ ہمیں اسلامی معاشرے میں خواتین کو ان کے حقوق اس طرح فراہم کرنے ہیںکہ ان کی عزت ا ور احترام کا رشتہ ہمیشہ قائم رہے۔
ڈاکٹر جمشید نظر

جواب دیں

Back to top button