سڑکوں پر بیٹھے دانشوروں کو کون

تحریر : سیدہ عنبرین
پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں کسی بھی طرف نکل جائیں کسی نہ کسی چوراہے سہ راہے پر زود شلواریں قمیض پگڑیاں پہنے، سامنے ڈھول رکھے، ڈھولچیوں کے گروپ ضرور ملیں گے۔ لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور سیالکوٹ میں ان کی تعداد کچھ زیادہ ہو گی، یہاں کے باسی بے فکر ہیں اور میلوں ٹھیلوں کے زیادہ شوقین مشہور ہیں۔
لاہور ڈیفنس چوک کے قریب ایسا ہی گروپ باقاعدگی سے ڈیرہ جمائے ہوئے ہے، اس کے قریب گاڑی روکی تو ایک صاف ستھرے کپڑے پہنے، بالوں میں سرسوں کا تیل لگائے، سرمے کی ڈوریاں کھینچے خوش اخلاق نوجوان بھاگ کر گاڑی کی کھڑکی کے قریب آ گیا، میں نے پوچھا تمہارا نام اور کہاں کے رہنے والے ہو، اس نے بتایا اس کا نام فیضو ہے اور وہ جھنگ کا رہنے والا ہے، میں نے اسے ایک فنکشن بک کرنے کا کہا تو اس نے اپنا آئی فون کھول لیا، تاریخ دن اور وقت نوٹ کرنے کے بعد پوچھنے لگا کہ فنکشن کیا ہے، ان ڈھول گروپوں کو زیادہ تر شادی بیاہ، سالگرہ، ہائوسنگ سوسائٹیوں کی بیلٹنگ ، کسی نئے فیز کی افتتاحی یا کسی نئے برینڈ کی لانچنگ کے موقع پر بلایا جاتا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ وفاقی سطح پر بھارت کو ترقی میں بہت پیچھے چھوڑنے کا اعلان ہو چکا ہے، جبکہ پنجاب میں ریکارڈ توڑ فلاحی کاموں کی تفصیل ایک درجنوں صفحات کے سپلیمنٹ کے ذریعے عوام تک پہنچی ہے، یہ دونوں خوشی کے موقعے ہیں لہٰذا اسی حوالے سے ایک رنگا رنگ تقریب کا اہتمام کر رہے ہیں۔ میری بات سن کر فیضو ڈھول والا سوچ میں ڈوب گیا، مجھے خیال آیا وہ اور اس کی ٹیم شاید اس روز کسی اور فنکشن میں بک ہیں، میں نے کہا اگر آپ لوگ اس روز نہیں آ سکتے تو کسی اور ڈھول پارٹی کا فون ایڈریس دے دو۔ وہ مریل سی آواز میں بولا، سوری جی یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا اگر ہو سکے آپ یہ فنکشن کینسل کر دیں، اسی میں آپ کا اور ہمارا بھلا ہے، میں نے حیرانی سے پوچھا مگر کیوں؟، وہ مزید ڈوبتی ہوئی آواز میں بولا۔ آپ نے شاید سوشل میڈیا پر آنے والا تازہ ترین افسوسناک واقعہ نہیں دیکھا۔ میں نے اسے کہا میں سوشل میڈیا نہیں دیکھتی، لیکن کیا واقعہ ہوا ہے، میرا تجسس دیکھتے ہوئے اس نے ایک کلپ دکھایا، جس میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک فنکشن میں پاکستانی ارسطو کی عزت افزائی ہو رہی تھی، جس پر وہ مسکرا رہے تھے، ان کے بالکل برابر میں بیٹھے ایک غیر ملکی بزرگ بھی منہ پھیر کر بمشکل اپنی ہنسی ضبط کرتے نظر آئے۔ بعد ازاں پاکستانی ارسطو کا موقف سامنے آیا کہ ’’ اس میں بے عزتی والی کوئی بات نہیں تھی، یہ ان کا موقف تھا، میں نے اپنا موقف پیش کیا‘‘۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے پنجابی زبان میں لغت کھولی جائے تو صرف وہی بے عزتی ہوتی ہے، انگریزی میں جو کچھ کہہ دیا جائے وہ اظہار خیال ہی ہوتا ہے۔
کلپ دیکھنے کے بعد میں نے فیضو سے کہا لیکن اس کلپ اور اس میں دکھائے جانے والے واقعے کا ہمارے فنکشن سے کیا تعلق ہے، ہم اپنا فنکشن کیوں کینسل کریں، جو دراصل خوشی کا فنکشن ہے۔ فیضو نے جواب دیا دیکھئے آپ تو نیک ارادوں، نیک اعلانوں اور اچھی کارکردگی کو سراہنے کیلئے تقریب کا انعقاد کر رہی ہیں، لیکن آپ کے مخالفین رپورٹ کریں گے کہ آپ نے آکسفورڈ میں ہونے والی بے عزتی کی خوشی میں تقریب سجائی ہے۔ بس آپ کو اٹھا لینے کیلئے یہ فرضی رپورٹ ہی کافی ہے، اس کے ساتھ ہی ہمیں بھی اٹھایا جا سکتا ہے، لہٰذا آپ میری معذرت قبول فرمائیں۔ میں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں آئین ہے، قانون ہے، ادارے ہیں، حکومت ہے، سب کی آنکھیں کھلی ہیں۔ ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے، کوئی اندھیر نگری نہیں ہے، مگر فیضو نے میری کسی بات سے اتفاق نہ کیا اور کہنے لگا۔ درست فرمایا آپ نے، آئین بھی اور قانون بھی ہے، لیکن اس کی تشریح کا آپ کو یا مجھے کوئی اختیار نہیں، جنہوں نے یہ سب کچھ بنایا ہے وہی اس کی تشریح کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، لیکن ازخود اختیار کے تحت نہیں بلکہ ہدایات کے مطابق کہ کس نکتے کی تشریح و مطلب کیا ہے۔ میں نے فیضو کی آخری بات سے اتفاق کرتے ہوئے تقریب پذیرائی کا خیال دل سے نکال دیا۔ حکومت پاکستان نے چند روز بعد ایک انتہائی مطلوب دہشت گرد کو امریکی حکام کی فرمائش پر پکڑ کر ان کے حوالے کر دیا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس میں اپنے طویل ترین خطاب میں درجنوں موضوعات پر بات کرتے ہوئے حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا، جس سے حکومت پاکستان کا مورال کافی بلند ہوا ہے، یہ جناب وزیراعظم پاکستان اور ہمارے قابل ترین وزیر داخلہ کا ویژن اور بہترین حکمت عملی ہے جس کے تحت دہشت گردوں کے معاملے میں ’’ زیرو ٹالرنس‘‘ پالیسی اختیار کی گئی ہے۔
غیر قانونی مقیم افراد کو امریکہ سے نکلنے کا آغاز ٹرمپ کے الیکشن وعدوں میں سے ایک ہے، جس پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے، پاکستان نے بھی اپنے یہاں مقیم ان افغانوں کو ڈیڈ لائن دے دی ہے جو عرصہ دراز سے پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم ہیں اور کاروبار پر چھائے ہوئے ہیں، دیکھنا ہے اس ڈیڈ لائن میں ماضی کی طرح متعدد بار اضافہ ہوتا ہے یا عمل کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں کی طرح صوبائی دارالحکومت لاہور میں یہ لوگ بہت بڑی تعداد میں مقیم ہیں۔ چائے خانوں، باربی کیو بزنس کے علاوہ ٹرانسپورٹ کا کاروبار ان کے ہاتھ میں ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا تو خیال آیا یہ پاکستان کے نکتہ نظر سے ایک بڑی کامیابی ہے، امریکی اور پاکستانی حکومت میں ایک رابطہ ہوا ہے، اسے سیلبریٹ کرنا چاہئے، یہ سوچ کر ایک مرتبہ پھر ڈیفنس چوک لاہور کا رخ کیا۔ فیضو اپنی ٹیم کی ہمراہ بیٹھا تھا، گاڑی رکی تو بھاگا چلا آیا۔ میں نے آمد کا مقصد بتایا تو منہ بسورتے ہوئے بولا پلیز یہ فنکشن بھی کینسل کر دیں۔ کینسل نہیں کر سکتے تو کچھ روز کیلئے ملتوی کر لیں۔ دانشور کہہ رہے ہیں پاکستانیوں کے امریکہ آنے پر پابندی لگ سکتی ہے، لہٰذا معاملہ کلیئر ہونے کا انتظار کر لیں، ایسا نہ ہو پابندی لگ جائے اور سمجھا جائے کہ آپ اس پابندی پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ میں نے گاڑی موڑ لی، اب سوچ یہ ہے کہ طلبا کو سمجھایا جا رہا ہے کون اچھا ہے کون برا ہے، سڑکوں پر بیٹھے یہ لاکھوں دانشور بہت سمجھدار ہیں، ان کو کوئی کیا سمجھا سکتا ہے۔







