Column

جارحیت

تحریر : علیشبا بگٹی
جارحیت Aggressionانسانی تاریخ کا ایک مستقل حصہ رہی ہے، اور یہ مختلف ادوار میں مختلف اشکال میں ظاہر ہوتی رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں جن لوگوں نے بھی جارحیت کی اس کے پیچھے کیا عوامل تھے۔۔۔۔؟؟
شہرت کا حصول؟ عورت کا حصول؟ دولت کا حصول؟ ٹائٹل کا حصول؟ طاقت کا حصول؟ یا محض اپنے لوگوں میں عزت و احترام کا حصول؟ وطن کا حصول ۔۔ یا شاید بقاء کا حصول۔۔۔۔۔۔ چونکہ انسان میں خدائی صفات موجود ہیں اس لیے انسان مرنا نہیں چاہتا لیکن اس کی مجبوری ہے کہ اس کا جسم اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ ہمیشہ کے لیے جیتا رہے یا امر ہو جائے انسان کو اپنی فنا ہی کا ڈر ہمیشہ سے ستاتا رہا ہے۔ انسان نے لمبی عمر کے باوجود موت کو شکست دینے کے قابل نہیں ہوا تو اس نے ایک راستہ نکالا کہ کیا ہوا اگر میں زندہ نہیں رہ سکتا، کیا ہوا اگر یہ جسم زندگی کا لمبا سفر نہیں کر سکتا، میرا نام تو باقی رکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے انسان نے اپنے نام کو زندہ رکھنے کو ہی اپنے آپ کو امر قرار دینے کا معیار بنایا، یوں انسان نے راستے ڈھونڈے کہ کس طرح سے امر ہوا جائے۔ کثیر اولادی اسی کی ایک مثال تھی جیسے چنگیز خان نے کثرت اولاد پیدا کی۔ کہا جاتا ہے کہ وسطی دنیا کی اکثر آبادی چنگیز خان کا ڈی این اے لیے ہوئے ہے۔
انسان نے شیر سے سیکھا کہ کس طرح وہ ایک امر مثال ہے بہادری کی۔ اور انسان نے جنگل سے سیکھا کہ وحشی ہونا اصل میں امر ہونے کی راہ ہے جب انسان نے دیکھا کہ اولاد بھی تو مر جائے گی اور کیا گارنٹی کہ اولاد اس کا نام آگے چلائے گی یا نہیں تو انسان نے دوسرے آپشنز پر غور کرنا شروع کیا۔
یوں انسان نے اپنے نام کو امر کرنے کے لیے جارحیت کا راستہ اختیار کیا اور اسی کے چکر میں اس سے جو بن سکا وہ کیا قتل و غارت، زن و زر پہ قبضے، رام و راون کی مہا بھارت، عجیب و غریب تعمیرات، دیوار چین، احرام مصر وغیرہ، گو کہ ان کے کئی مقاصد تھے لیکن آخری حاصل صرف اور صرف بقا ہی تھی، اور لمبے لمبے سفر کیے جیسے سکندر اعظم یونان سے ہندوستان تک چلا اور ہلاکو خان منگولیا سے مصر تک وحشت کی علامت بنا۔
یہ انسان کی خدا سے لاشعوری جنگ ہے۔ خیر یہ سب بقاء کی جنگ ہے اور یہ لامتناہی ہے یہ روز ابد تک چکے گی یہاں تک کہ کائنات کو مٹا دیا جائے گا اور خدا اپنی بقاء کا ثبوت خود سے یوں پیش کرے گا۔۔۔
ابتدائی انسانی تاریخ میں، جارحیت بقا کے لیے ایک ضروری رویہ تھا۔ جب خوراک، پانی، اور پناہ گاہ کی کمی ہوتی، تو انسان لڑائی کے ذریعے اپنے وسائل کا دفاع کرتا۔ شکار کے دوران اور قبیلوں کے درمیان تنازعات میں جسمانی جارحیت عام تھی۔ کار اور دفاع کے لیے جسمانی جارحیت ناگزیر تھی۔ ابتدائی معاشروں میں طاقتور قبائل دوسروں پر غالب آتے۔ جنگل کے قانون کا اصول رائج تھا: ’’ طاقتور ہی زندہ رہے گا‘‘۔ جیسے جیسے تہذیبیں ترقی کرتی گئیں، جارحیت منظم جنگوں اور عسکری تنازعات کی شکل اختیار کر گئی۔ قدیم مصر، بین النہرین، یونان، اور روم کی سلطنتیں طاقت اور فتوحات کے لیے جارحیت کا استعمال کرتی رہیں۔
مثلاً یونانی اور رومی جنگیں جہاں طاقت کے حصول کے لیے مسلسل جنگیں ہوتی رہیں، جیسے سکندر اعظم کی فتوحات اور رومی سلطنت کی جنگیں۔ چین میں جنگی حکمت عملی: سن زو Sun Tzuکی کتاب The Art of War میں جارحیت کو ایک حکمت عملی کے طور پر بیان کیا گیا۔ عثمانیوں کی سلطنتیں بھی جارحانہ عسکری طاقت کے ذریعے پھیلیں۔
پھر قرونِ وسطیٰ میں جارحیت کا ایک نیا پہلو سامنے آیا۔ مذہبی جنگیں۔ صلیبی جنگیں Crusadesایک بڑی مثال ہیں، جہاں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان مقدس سرزمین کے لیے خونریز جنگیں ہوئیں۔ چنگیز خان کی قیادت میں منگول فوج نے بے انتہا جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک وسیع سلطنت قائم کی۔ انگلینڈ اور فرانس کے درمیان سو سالہ جنگ Hundred Years’ Warجارحیت کا نتیجہ تھی۔
18ویں اور 19ویں صدی میں نوآبادیاتی طاقتوں نے دنیا کے مختلف حصوں پر قبضہ جمانے کے لیے جارحیت کو استعمال کیا۔ برطانوی، فرانسیسی، ہسپانوی، اور پرتگالی سلطنتوں نے دیگر علاقوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے جارحانہ حکمت عملی اپنائی۔
20 ویں صدی میں، دو عالمی جنگوں نے انسانی تاریخ میں جارحیت کے تباہ کن اثرات کو نمایاں کیا۔ پہلی جنگ عظیم 1914۔1918قوم پرستی اور عسکری جارحیت کے باعث ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم 1939۔1945ہٹلر اور جاپان کی عسکری مہمات جارحیت کی انتہا تھیں، جس کا نتیجہ لاکھوں جانوں کے نقصان کی صورت میں نکلا۔ سرد جنگ 1947۔1991کے دوران چلتی رہی۔ یہ ایک نظریاتی اور سیاسی جارحیت کی جنگ تھی، جس میں امریکہ اور سوویت یونین ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگیں لڑتے رہے۔
آج کی 21ویں صدی کی دنیا میں جارحیت کے نئے رخ سامنے آئے ہیں، جیسے نفسیاتی اور سائبری جارحیت کی موجودہ جنگ جس میں سوشل میڈیا پر ہراسانی، بلیک میلنگ اور غلط معلومات پھیلانے کے ذریعے جارحیت کی نئی شکلیں ابھری ہیں۔ اسکے علاوہ کچھ ممالک اپنی طاقت دکھانے کے لیے فوجی اور اقتصادی جارحیت کا سہارا لیتے ہیں۔ دہشت گردی بھی موجودہ دور کی جارحیت کی علامت بن چکی ہے، جو سیاسی اور مذہبی وجوہات کی بنا پر سامنے آتی ہے۔
جارحیت کی تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ یہ انسانی فطرت کا حصہ رہی ہے، لیکن وقت کے ساتھ اس کی شکلیں بدلتی رہی ہیں۔ آج کی دنیا میں جارحیت کے اثرات کو کم کرنے کے لیے سفارت کاری، تعلیم، اور سماجی انصاف کو فروغ دینا ضروری ہے، تاکہ پرامن بقائے باہمی ممکن ہو سکے۔

جواب دیں

Back to top button