Column

طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان، ذمہ دار کون

تحریر : عبد القدوس ملک
نکاح محض ایک سماجی معاہدہ نہیں بلکہ روحوں کا باہمی ملاپ اور دلوں کا بندھن ہے۔ یہ وہ پاکیزہ رشتہ ہے جسے محبت، ایثار اور اعتماد کے مضبوط دھاگوں سے بُنا جاتا ہے۔ مگر افسوس! آج اسی مقدس بندھن کو کچے دھاگوں کی طرح توڑ دیا جاتا ہے۔ نئی نسل کے ہاتھوں میں محبت اور قربانی کے گلاب کی بجائے طلاق کے نوٹس دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ہمارے معاشرتی نظام میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور خاندانی اقدار زوال کا شکار ہو چکی ہیں۔
یہ سوال ہر ذی شعور شخص کو جھنجھوڑتا ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں، جنہوں نے نکاح جیسے مقدس تعلق کو اتنا غیر اہم اور کمزور بنا دیا ہے؟
اگر نظر دوڑائی جائے تو سوشل میڈیا اس المیے کا سب سے بڑا کردار بن چکا ہے۔ انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کی مصنوعی دنیا میں دکھائی جانے والی جھوٹی خوشیاں اور بناوٹی محبتیں نئی نسل کے ذہنوں میں ایک خیالی دنیا کا خواب بُن دیتی ہیں۔ عملی زندگی کی حقیقت اور ذمہ داریوں کا بوجھ جب اس خواب کو توڑتا ہے، تو طلاق کا راستہ نکل آتا ہے۔
برداشت کا فقدان اس طوفان کو مزید خطرناک بنا رہا ہے۔ کسی کی بات سننے اور سمجھنے کا حوصلہ نہ بیوی میں باقی رہا ہے اور نہ شوہر میں۔ بات بے بات انا کی دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں اور محبت دم توڑ دیتی ہے۔ معاشی دبا، مہنگائی اور بے روزگاری نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ خاندانی مداخلت، نند بھابی کی چپقلش اور ساس بہو کے جھگڑوں نے اس رشتے کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں۔
ہماری نئی نسل کو غلط توقعات کا زہر بھی پلایا گیا ہے۔ بیٹی کو شہزادیوں جیسے خواب دکھائے گئے اور بیٹے کو حکم چلانے والا بادشاہ بنا دیا گیا۔ جب یہ دونوں خواب حقیقت کی زمین پر گرتے ہیں تو تلخیاں بڑھتی ہیں اور فاصلے پیدا ہوتے ہیں۔ شادی شدہ زندگی کا اصل حسن ذمہ داری، قربانی اور برداشت میں ہے، مگر ہماری نسل یہ تینوں چیزیں بھول چکی ہے۔
پھر رسم و رواج کا بوجھ، جہیز کی لعنت، جلد بازی میں پسند کی شادی اور خاندانی سیاستیں اس مقدس رشتے کو روندتی چلی جاتی ہیں۔ تعلیمی و ذہنی فرق، سابقہ تعلقات کا سایہ، جنسی مسائل پر جھجھک اور شک جیسے زہریلے عوامل بھی طلاق کے گراف کو اوپر لے جا رہے ہیں۔ لانگ ڈسٹنس شادیاں، کیریئر کی دوڑ اور ایک دوسرے کو وقت نہ دینے کا چلن بھی اس رجحان کو بڑھا رہا ہے۔
یہ تمام عوامل چیخ چیخ کر ہمیں بتا رہے ہیں کہ ہمارا خاندانی نظام بکھرنے رہا ہے۔ اگر فوری اصلاح نہ کی گئی تو آنے والا کل مزید تباہ کن ہوگا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس بگڑتی صورتحال کا حل کیا ہے؟ اگر ہم طلاق کے اس طوفان کو روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں چند بنیادی تبدیلیاں فوری طور پر لانا ہوں گی:
1۔ پری میرج کائونسلنگ کو لازم قرار دیا جائے تاکہ نوجوان شادی کے تقاضے، ذمہ داریاں اور اصل حقیقت کو سمجھ سکیں۔
2۔ والدین شادی کے بعد بچوں کی زندگی میں غیر ضروری مداخلت بند کریں اور انہیں خود مختار زندگی گزارنے دیں۔
3۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر حقیقت پسندانہ ازدواجی زندگی دکھائی جائے، تاکہ خیالی پلائو پکنے سے پہلے ہی حقیقت سامنے آ جائے۔
4۔ برداشت اور قربانی جیسی اخلاقی تربیت اسکول، کالج اور گھر میں دی جائے۔
5۔ شادی کے معاملات میں سادگی اور دین کے اصول کو اپنانے پر زور دیا جائے اور فضول رسم و رواج کا بوجھ اتارا جائے۔
6۔ لڑکے اور لڑکی دونوں کو یہ سمجھایا جائے کہ شادی محبت اور دوستی کے ساتھ ساتھ ذمہ داری اور قربانی کا رشتہ بھی ہے۔
7۔ ساس بہو، نند بھابی کے جھگڑوں کو ختم کرنے کے لیے ایک دوسرے کو عزت دینے اور برداشت کرنے کا شعور عام کیا جائے۔
8 ۔ جنسی مسائل، مالی معاملات اور ذاتی اختلافات پر کھل کر بات کرنے کا کلچر عام کیا جائے، تاکہ غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں۔
9 ۔ شادی سے پہلے اور بعد دینی و اخلاقی تعلیم دی جائے، تاکہ میاں بیوی کے حقوق اور فرائض دونوں کو برابر سمجھا جا سکے۔
10 ۔ سب سے اہم یہ کہ محبت، عزت اور اعتماد کو ہر رشتے کی بنیاد بنایا جائے۔ اگر کسی بھی رشتے میں یہ تین ستون مضبوط ہوں تو جھگڑے آتے ضرور ہیں، مگر طلاق تک بات نہیں پہنچتی۔
اگر ہم نے آج اپنی آنکھیں بند رکھیں تو آنے والا وقت ہمیں اپنی بے حسی کی قیمت بہت بھاری سود کے ساتھ واپس لوٹائے گا۔ طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان صرف میاں بیوی کا ذاتی معاملہ نہیں بلکہ پورے معاشرے کی اخلاقی اور سماجی شکست ہے۔ ہمیں اس شکست کو ہر حال میں روکنا ہوگا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم نکاح کو محض رسم یا معاہدہ سمجھنے کی بجائے عبادت سمجھیں۔ تبھی یہ رشتہ بکھرنے سے بچے گا اور ہمارے گھر محبت، سکون اور اعتماد کا گہوارہ بنیں گے۔

جواب دیں

Back to top button