Column

نفس اور تزکیہ نفس ( 1)

تحریر : صفدر علی حیدری
لفظ نفس، کا اردو میں کوئی ایک متفقہ مفہوم بیان کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ لفظ اردو زبان میں نہ صرف یہ کہ مذہبی دستاویزات میں متعدد معنوں میں آتا ہے بلکہ عام بول چال میں بھی اس کا استعمال متعدد مختلف مواقع پر کیا جاتا ہے۔ بعض ذرائع اسے روح سے مترادف قرار دیتے ہیں ۔ نفس سے ملتا ہوا مفہوم رکھنے والا ایک اور لفظ جو لفظ نفس کی طرح قرآن میں آتا ہے، وہ روح ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ دونوں ایک ہی لفظ ہیں جب کہ دیگر ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ بیان کرتے ہیں ۔ ان دو الفاظ کے اس متبادل استعمال کی مثالیں قرآن کے مختلف انگریزی تراجم سے بھی ملتی ہیں مثلا: سورہ النساء آیت 171میں روح کے لیے محمد اسد نے soulکا جب کہ یوسف علی نے spiritکا لفظ اختیار کیا ہے ۔ پیچیدگی کا ایک اور مقام تب آتا ہے کہ جب اس لفظ نفس کی اصل الکلمہ سے بنے ایک عام لفظ تنفس پر غور کیا جائے جس کے معنی سانس لینے کے عمل کے آتے ہیں اور اسی وجہ سے نفس کو سانس بھی کہا جاتا ہے اور اس سانس ( پھونک) کے تصور کے برعکس، دوسری جانب قرآن کی سورت الحجر کی آیت 29میں آتا ہے ’’ پھر جب پورا بنا چکوں میں اسے اور پھونک دوں اس میں اپنی روح تو گر جانا تم اس کے لیے سجدے میں ‘‘۔
ایک دلچسپ پہلو یہ بھی کہ نفسانی خواہشات کے مفہوم میں یہی نفس ہوتا ہے کہ جو انسانی وجود کو اللہ سے دور کرتا ہے جب کہ روح انسان کو اللہ کی جانب لے جانے کا تصور اپنے اندر رکھتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر نفس کا اصل مفہوم ہے کیا ؟، چوں کہ یہ لفظ عربی کا ہے اور اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عربی کے قواعد کی رو سے ہی اس پر غور کیا جائے۔ اردو میں چونکہ عام طور پر بلا اعراب ہی لکھا جاتا ہے اس وجہ سے تلفظ کی حرکات واضح نہیں ہو پاتیں، لفظ نفس کے اعراب کے لحاظ سے تین تلفظ آتے ہیں ۔
نَفَس جس کے معنی ہوا، سانس اور نگلنے وغیرہ کے آتے ہیں۔ جبکہ فرہنگ آصفیہ میں ہے۔ دم کشی، سانس، تنفس، ناک سے قلب کی ترویج کے واسطے ہوا لینا، ناک کے رستے اندرونی ہوا نکالنا۔ اس کی جمع انفاس آتی ہے۔
نَفُسَ جس کے معنی قیمتی، نادر اور بیش قیمت ہونے کے ہوتے ہیں۔
نَفس جس کے معنی باطن ، ذات روح اور انسانی  شخصیت کے آتے ہیں
انسانی نفس کی 3حالتیں مشہور ہیں لیکن بعض نے اس کی سات اقسام کا ذکر کیا ہے ۔
نفس امارہ، نفس لوامہ، نفس ملھمہ، نفس مطمئنہ، نفس راضیہ، نفس مرضیہ اور نفس کاملہ
جب کہ جنہوں نے اسے تین سمجھا ہے ان کے نزدیک یہ نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ۔
دیکھا جائے تو دوسرا قول ٹھیک معلوم ہوتا ہے۔ کیوں راضیہ اور مرضیہ وغیرہ حالتیں نہیں ہیں بلکہ نفس مطمئنہ تک پہنچ کر حاصل ہونے والے انعامات ہیں۔
قرآن کی آیت کریمہ میں نفس کو، برے کاموں کا تقاضا کرنے والا بتایا گیا ہے۔
حدیث میں بھی مذکور ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ سے استفسار فرمایا ’’ ایسے رفیق کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تم اس کا اعزاز و اکرام کرو اور اسے کھلائو پلائو تو وہ تمہیں آزمائش اور مصیبتوں میں ڈالے اور اگر تم اسے ذلیل رکھو اور اس کی اہانت کرو اور اسے بھوکا اور ننگا رکھو تو وہ تمہارے ساتھ خیر کا معاملہ کرے ‘‘۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ ! اس سے بُرا ساتھی تو دنیا میں کوئی نہ ہو گا تو آپؐ نے فرمایا ’’ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تمہارا وہ نفس جو تمہارے پہلو میں ہے، وہ تمہارا ایسا ہی ساتھی ہے۔ تمہارا سب سے بڑا دشمن تمہارا خود نفس ہے، جو تمہیں برے کاموں میں مبتلا کر کے تمہیں ذلیل کرتا ہے اور طرح طرح کے مصائب میں مبتلا رکھتا ہے‘‘۔
یہی نفس امارہ اور اس کا حال ہے ۔
حق تعالیٰ شانہ نے نفس لوامہ کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا ہے کہ میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں اور قسم کھاتا ہوں نفسِ لوامہ کی۔
گویا اس نے گناہ پر ملامت کی تو اللہ کو اس پر پیار آیا۔ اسی نفس پر جب حقیقت کا الہام ہونا شروع ہوتا ہے تو اس کیفیت کو نفس ملھمہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اب یہ نفس آگے بڑھتا ہوا نفس مطمئنہ کی طرف اپنا سفر شروع کر دیتا ہے۔ اس تک رسائی ایک طویل ترین جنگی مرحلہ ہے۔
کوئی کب تک وہاں پہنچتا ہے، اس بارے میں خداوند متعال ہی بہتر جا سکتا ہے۔ بہر حال یہ راستہ وحی کی رہنمائی اور توفیق خداوندی سے ہی طے ہو سکتا ہے۔ سالک کو خالق کا ساتھ مل جائے تو منزل جلد آسان ہو جاتی ہے۔
حضرت انسان جب نفس پرستی کے بجائے خدا پرستی اختیار کرتا ہے اور اپنے خالق کے احکام کی تعمیل میں اور آخرت کے خوف میں نفس کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تو اس کا نفس اس کے برے کاموں پر ملامت کرنے والا بن جاتا ہے۔ بھی یہی حالت عام صالحین کے نفوس کی ہوتی ہے۔
قرآن حکیم میں حق تعالیٰ شانہ نے نفس انسانی کو یوں مخاطب فرمایا کہ اے نفس مطمئنہ ! اپنے رب کی طرف رجو ع کر لے۔
جو بندہ مومن نفس کے خلاف مجاہدہ کرتے کرتے اس حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ نفس اس سے برے کاموں کا تقاضا ہی نہیں کرتا تو وہ نفسِ مطمئنہ ہو جاتا ہے۔
نفس کی یہ کیفیت عام صالحینِ امت کو تو مجاہدہ اور ریاضت سے حاصل ہو جاتی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے معصوم نبیٌ ہیں، ان کا نفس نفوسِ مطمئنہ میں سے ہے، اُن کی ذاتِ مقدسہ کی ہر الزام و تہمت سے تو برات عوام و خواص کے سامنے بیان ہو چکی۔ بادشاہ نے بھی تمام تحقیقات مکمل کر لی، اب ان کی عظمت اور نزہت کے اثبات پر ان کی عظمت و توقیر کا موقف ہے۔ انہوں نے اپنی پیغمبرانہ اور داعیانہ شان کا اظہار فرمایا اور لوگوں کو ایسی پند و نصیحت فرمائی جو تا قیامت قرآن کا ہر قاری پڑھتا رہے اور اس سے موعظت حاصل کرتا رہے۔
نفس کی جمع انفس ہے۔ نفس ذات شے کو کہتے ہیں خواہ جو ہر ہو یا عرض۔ نفس سے مراد جان یا روح انسانی ہے اسی کو ادراک کہتے ہیں اور وہی دراصل انسان ہے اور یہ جسم اکتساب کمالات کے لیے اس کا آلہ ہے اور، نفوس انسانیہ اپنی استعداد و فیضان کے لحاظ سے مختلف مراتب اور درجات پر ہوتے ہیں۔ نفسانسان کا جسم مٹی اور روح کا مرکب ہے۔ روح کا تعلق انسان کے دل سے ہوتا ہے جبکہ نفس کا تعلق جسم سے ہوتا ہے۔ نفس اور روح کا کام علیحدہ علیحدہ ہوتا ہے۔ روح تو انتہائی پاکیزہ اور بلند درجہ رکھتی ہے مگر نفس کے تین درجے ہیں۔ جن کو ہم نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ کا نام دیتے ہیں۔
حدیث میں وارد ہے: اللہ رب العزت نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور اس میں نفس بھی رکھا اور روح بھی۔ تو روح سے انسان کی عفت و پاکدامنی، اس کا علم و فہم اور اس کا وجود وکرم اور وفا عہد ہے اور نفس سے اس کی شہوت اس کا غضب اور برافروختگی ہے۔
گویا انسان میں اللہ تعالیٰ نے دو متضاد اور مختلف قوتیں پیدا کی ہیں ایک قوت اس کو خیر پر آمادہ کرنے والی ہے جس کا نام نفس لوامہ ہے یا دوسرے لفظوں میں ہم اسے ضمیر کا نام دیتے ہیں جو کہ باطنی رسول ہے اور وحی کی تعلیمات سے مملو ہے ۔ جبکہ دوسری قوت شر پر آمادہ کرنے والی ہے اس کو نفس کہتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے انسان میں دو مختلف قوتیں پیدا کی ہیں۔ جن کی باہمی کشاکش سے ہمارا جسم ایک رزم گاہ کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔
ضمیر انسان کو آخرت کی طرف بلاتا ہے اور نفس دنیا کی طرف بلاتا اور کھینچتا ہے، نفس جو کہ شیطان کا نمائندہ کہا جاتا ہے، اس کو سوائے کھانے اور پہننے کے اور کچھ معلوم نہیں۔ نفس، لذات اور شہوات کے اعتبار سے کتا ہے اور غیظ و غضب کے اعتبار سے درندہ ہے اور مکر و فریب کے اعتبار سے شیطان کا حقیقی بھائی معلوم ہوتا ہے۔
گویا اخلاق حمیدہ کے معدن اور منبع کا نام ضمیر یا نفس لوامہ ہے اور اخلاق ذمیمہ کے معدن اور سرچشمہ کا نام نفس ہے، مگر جسم لطیف ہونے میں دونوں مشترک ہیں جیسے ملائکہ اور شیاطین جسم لطیف ہونے میں دونوں شریک ہیں فرق صرف یہ ہے کہ ملائکہ نورانی ہیں نور سے پیدا ہوتے ہیں اور شیطان ناری ہیں نار سے پیدا ہوتے ہیں۔
حدیث میں وارد ہے کہ’’ اے انسان! تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے جو تیرے دو پہلوئوں کے درمیان واقع ہے‘‘۔
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں: یک تو یہ کہ نفس انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ شیطان تو اعوذ باللہ پڑھنے سے بھاگ جاتا ہے مگر نفس اعوذبِاللہ پڑھنے سے بھی نہیں بھاگتا۔ نیز شیطان جب انسان کو گمراہ کرتا ہے تو نفس کے واسطے سے گمراہ کرتا ہے۔ شیطان اپنے کام میں نفس کا محتاج ہے اور نفس گمراہ کرنے میں شیطان کا محتاج نہیں، اس لیے آپ علیہ السلام نے نفس کو بڑا دشمن قرار دیا۔
ایک حدیث میں جہاد نفس کو جہاد اکبر فرمایا کیونکہ نفس قریبی دشمن ہے اور دارالحرب کے کافر دور کے دشمن ہیں،
’’ اے مسلمانو! قریبی کافروں سے جہاد و قتال کرو ‘‘۔
اس لیے اس قریبی دشمن ( نفس) سے جہاد کرنا جہادِ اکبر ہوا۔
بہر حال قرآن اور حدیث میں نفس سے جہاد کا حکم آیا ہے روح سے جہاد کا حکم نہیں آیا اور قرآن اور حدیث نے تمام اخلاق ذمیمہ کی جڑ ہوائے نفس کو قرار دیا ہے کہ نفس انسان کو لذات اور شہوات کی طرف دعوت دیتا ہے۔ حق تعالیٰ کے اوامر و نواہی کی پروا نہیں کرتا۔ دوسری بات جو معلوم ہوئی وہ یہ ہے کہ نفس کا مقام دو پہلوئوں کے درمیان ہوتا ہے اس سے بھی روح کا نفس سے مغایر ہونا ثابت ہوا ۔ اس لیے کہ روح سر سے پیر تک تمام اعضاء بدن میں جاری و ساری ہے ، پہلو کے ساتھ مخصوص نہیں ۔
اب یہ واضح ہوا کہ انسان تین چیزوں جسم روح اور نفس کا مرکب ہے ۔
جسم کیا ہے؟
مادی جماداتی ایک ایسا بے جان میٹریل جس میں حرکت کی صلاحیت ہی نہیں یعنی مردہ ہے۔
روح کیا ہے؟
ایک کامل اور ہمیشہ رہنے والی یعنی نہ مرنے یا ختم ہونے والی حیات ہے۔ جسم کثیف اور سراسر پستی ہے۔ روح لطیف اور سراسر بلندی ہے۔
نفس کیا ہے؟ ان دو متضاد چیزوں کو ملانے کے لیے خالق نے انکے درمیان تیسری چیز نفس کو رکھ دیا ہے ۔ یہی نفس اگر بلندی سے متصل ہو گا تو بلند اور اگر پستی سے متصل ہو گا تو پست نظر آئے گا۔
موت کیا ہے؟
خالق کائنات نے کہیں بھی یہ نہیں فرمایا کہ موت جسم یا روح کو ہے، بلکہ یہ فرمایا کہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
اسی لنک کے ٹوٹ جانے کا نام موت ہے۔ جس کی صورت میں جسم کثافت کی وجہ سے مٹی تلے اور روح لطافت کی وجہ سے بلندی کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔
صفدر علی حیدری

جواب دیں

Back to top button