
تحریر ؍: سی ایم رضوان
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کمزور ہے اور اسے اپنے وجود کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور یہ بھی خوش فہمی رکھتے ہیں کہ کپتان حکومت کے اعصاب پر حاوی ہے اور جلد ہی وہ پاور میں آ کر پورے ملک میں اپنے مخالفین کو ناکوں چنے چبوا دے گا ان کی اطلاع کے لئے اور ان کی خوش فہمی کے تدارک کے لئے یہ تازہ خبر ہی کافی ہے کہ گزشتہ روز وفاقی کابینہ میں 12نئے وزراء اور 9وزرائے مملکت، مشیران و معاونین خصوصی کو قلمدان سونپ دیئے گئے ہیں جبکہ دو وزراء کی وزارتیں تبدیل کر دی گئیں، سات وزراء سے اضافی قلمدان واپس لئے گئے ہیں اور کابینہ ڈویژن کی جانب سے ان وزراء اور وزرائے مملکت کے قلم دانوں کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق طارق فضل چودھری کو وزیر پارلیمانی امور، علی پرویز ملک کو وزیر پٹرولیم، اورنگزیب خان کھچی کو وزیر قومی ورثہ و ثقافت، خالد مگسی کو وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جبکہ حنیف عباسی کو وزیر ریلوے اور معین وٹو کو وزیر آبی وسائل کا قلمدان دیا گیا ہے، محمد رضا حیات ہراج کو وزیر دفاعی پیداوار، سردار یوسف وزیر کو مذہبی امور، شیزہ فاطمہ کو انفارمیشن ٹیکنالوجی، رانا مبشر اقبال کو پبلک افیئر یونٹ اور مصطفی کمال کو نیشنل ہیلتھ سروسز اینڈ ریگولیشنز کا قلم دان دیا گیا ہے جبکہ ملک رشید احمد وزیر مملکت برائے فوڈ سکیورٹی اور عبدالرحمان کانجو کو وزیر مملکت برائے توانائی کا چارج مل گیا، بیرسٹر عقیل ملک وزیر مملکت قانون و انصاف اور بلال اظہر کیانی کو وزیر مملکت ریلوے مقرر کیا گیا ہے۔ اسی طرح مصدق ملک موسمیاتی تبدیلی کے وزیر بن گئے، علیم خان سے نجکاری کی وزارت واپس لے لی گئی وہ صرف مواصلات کے وزیر ہوں گے، خالد مقبول صدیقی سے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت واپس لے لی گئی اور اب وہ صرف وزیر تعلیم ہیں۔ قیصر شیخ سے میری ٹائم افیئرز کی وزارت واپس لے لی گئی وہ اب بورڈ آف انویسٹمنٹ کے وزیر ہوں گے۔ چودھری سالک حسین سے وزارت مذہبی امور واپس لے لی گئی جبکہ سالک حسین کے پاس اب اوورسیز پاکستانیز اور انسانی ترقی کا قلم دان ہو گا۔ رانا تنویر حسین کو وزیر غذائی تحفظ کا قلم دان دیا گیا ہے۔ کھیل داس کوہستانی کو وزارت مذہبی امور اور ہم آہنگی کا وزیر مملکت مقرر کیا گیا ہے جبکہ عون چودھری کو سمندر پار پاکستانیز اور انسانی ترقی کا وزیر مملکت بنا دیا گیا، طلال چودھری کو وزیر مملکت برائے داخلہ اینڈ نارکوٹکس کنٹرول کا چارج دیا گیا ہے جبکہ وجیہہ قمر وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت ہوں گی۔ خواجہ محمد آصف کے پاس صرف وزارت دفاع کا قلمدان ہو گا کیونکہ ایوی ایشن کی وزارت کو وزارت دفاع میں ضم کر دیا گیا ہے جس کے بعد خواجہ آصف کا دوبارہ نوٹیفکیشن جاری ہوا۔ اعظم نذیر تارڑ کے پاس قانون و انصاف کے ساتھ انسانی حقوق کی اضافی وزارت ہو گی ان سے پارلیمانی امور کی وزارت واپس لے لی گئی ہے جبکہ مصدق ملک کی وزارت تبدیل کر دی گئی ہے ان کے پاس اس سے قبل پٹرولیم کی وزارت تھی جہاں سے تبدیل کر کے ان کو موسمیاتی تبدیلی کا وفاقی وزیر مقرر کر دیا گیا۔ اسی طرح عطا اللہ تارڑ اب صرف وزیر اطلاعات و نشریات ہوں گے ان کے پاس قومی ورثہ اور ثقافت کا چارج بھی تھا جو اب نہیں رہا۔ حکومت کے مخالفین یہ بھی نوٹ کر لیں کہ وزیراعظم نے اپنے مزید مشیر اور معاونین خصوصی بھی مقرر کر دیئے ہیں۔ سید توقیر شاہ وزیر اعظم آفس کے تمام امور کے مشیر ہوں گے، محمد علی کو نجکاری کا مشیر مقرر کر دیا گیا۔ اور تو پی ٹی آئی حکومت کے سابق وفاقی وزیر پرویز خٹک اب اس اتحادی حکومت کے مشیر داخلہ مقرر ہو گئے ہیں جو کہ ظاہر ہے طاقتور حلقوں کی مرضی سے مقرر ہوئے ہوں گے، اپنے دل کو راضی کرنے کے لئے حکومت کے ناقدین یہ کہہ رہے ہیں پرویز خٹک بے اختیار مشیر ہوں گے لیکن کیا یہ کافی نہیں ہے کہ وہ عمران دور کی کرپشن کو اب کھل کر بیان کیا کریں گے۔ یہ بھی تہلکہ ہے کہ سابقہ پی ٹی آئی حکومت کے لاڈلے وزیر ہمایوں اختر خان کے بھائی ہارون اختر اب موجودہ حکومت میں صنعت و پیداوار کے معاون خصوصی مقرر ہو گئے ہیں یار لوگ جانتے ہیں کہ وہ طاقت ور لوگ اور خاندان جو ہر طاقت ور حکومت میں شامل ہوتے ہیں اور سسٹم سے اپنا حصہ ہر حالت میں وصول کرتے ہیں بلکہ سسٹم ان کو ان کے حصے کے اختیارات دینے کے لئے تیار رہتا ہے وہ سب موجودہ رجیم میں آ شامل ہوئے ہیں۔ انہی لوگوں نے رائے عامہ کو ہموار کرنا ہوتا ہے اور انہی کو حکومت کرنے کا طریقہ آتا جو کہ اب حکومت کا حصہ بن چکے ہیں۔
معیشت بھی نہ صرف بھنور سے نکل آئی ہے بلکہ اب روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور افراط زر جیسی بیماریوں سے شفاء پانے کے قابل ہو گئی ہے اور ملکی معیشت جو بہتر ہوئی ہے اس کا کریڈٹ اگر بقول فیصل واوڈا فوج کو جاتا ہے لیکن حکومتی مالیاتی اور معاشی ٹیم کی کارکردگی اور مثبت سمت میں مثبت سفر جاری رکھنے کا کریڈٹ تو بہر طور شہباز حکومت کو ہی جاتا ہے۔ موجودہ رجیم کو آنے والی تاریخ یہ کریڈٹ بھی ضرور دے گی کہ اب وہ اقدامات کئے جا رہے ہیں جو کہ پاکستان کے لئے انتہائی مثبت اور ضروری ہیں جو کہ پچھلے پچاس سال میں نہیں ہوئے وہ نہ صرف ہو رہے ہیں بلکہ اگلے پچاس میں کئے جانے کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔
موجودہ حالات میں جبکہ ایک سیاسی جماعت کے احمقوں کا ایک گروہ یہ سمجھتا تھا کہ جوں ہی ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدارت کا قلمدان سنبھالے گا وہ فوری طور پر پاکستان پر اپنا رعب مسلط کرے گا اور فون کال کر کے یا ٹویٹر پر یہ کہے گا کہ عمران خان کو فوری طور پر رہا گرو اور اس کو فوری حکومت دو مگر ان کی اس حماقت سے کوسوں دور حقیقت کی دنیا میں مثبت سمت میں مثبت رستوں پر محو سفر پاک فوج کے دہشت گردوں کے خلاف اقدامات اور دہشت گرد شریف اللّٰہ کی گرفتاری اور امریکہ حوالگی پر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ایسے حالات میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے لئے قہرِ خداوندی بن کر برس رہا ہے۔ یہاں تک کہ یورپ کے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ اور تو اور اندرون ملک اپنی ہی اسٹیبلشمنٹ کو للکار رہا ہے۔ اس طاقت ور صدر کی جانب سے پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران پاکستان کے لئے تشکر کے الفاظ یوں ہی ادا نہیں ہوئے بلکہ اس امر کی گواہی ہیں کہ پاکستان کی فوج درست سمت میں درست اقدامات کر رہی ہے اور خطہ کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے اقدامات کر رہی ہے۔ یقینا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ شکریہ کانگریس میں اپنے طویل خطاب کے دوران ادا کیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر اپنے اقتدار کے پہلے 100دِنوں میں بہت کچھ کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں وہ اپنے دور اقتدار کو امریکی تاریخ میں یادگار اور لازوال بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
وہ دنیا میں جنگوں کے خاتمے اور امن کے فروغ جیسے سادہ اور واضح پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ اِس لئے وہ ہر بات جو اس کے ان عزائم کے مطابق ہو، اس کی برملا اور فخریہ ستائش کرے گا۔ ہم دراصل من حیث القوم احمقوں کے نرغے میں پھنس چکے ہیں کہ وہ فوج جو پچھلے پچھتر سالوں کا گند صاف کر رہی ہے جو ملک میں افراتفری اور انتشار کے حامیوں کو سبق سکھا رہی ہے ہم محض ایک جھوٹے انقلابی نعرے سے گمراہ ہو کر اس فوج کے انٹ شنٹ بول جاتے ہیں یہ ٹھیک ہے کہ ماضی میں بعض عاقبت نااندیش کمانڈروں کے غلط اقدامات کی وجہ سے پچھلے ادوار میں فوج سے کچھ غلطیاں ہوئیں مگر اب تو وہ اپنے ہی بنائے ہوئے بت پاش پاش کرنے میں مصروف ہے وہ ملک میں امن اور ترقی کے لئے حکومت کا ساتھ دے رہی ہے اور حکومت کے لوگ بھی اپنے تجربے اور صداقت کے ساتھ ملک کے لئے کام کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان کا شکریہ ادا کرنا محض ایک جملہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک پوری تاریخ اور پاکستان کا سابقہ تاریخ میں پاک امریکہ دوستی کے رشتے کے تناظر میں ایک خاص کردار ہے اور اس کردار میں پاک فوج کی موجودہ کمانڈ کا تازہ اقدام ہے جس کی ستائش، تعریف اور اعتراف کیا گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اب اکثر بائیڈن دور کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ وہ اس لئے کہ جوبائیڈن افغانستان میں 20سالہ امریکی جنگ کے خاتمے کا کریڈٹ لینا چاہتے تھے انہوں نے دوہا معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی افواج واپس بلائی تھیں۔ پھر یہ کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی چھیڑی گئی عالمی جنگ کا خاتمہ ہوا، بلاشبہ یہ ایک بڑا فیصلہ تھا امریکہ اس جنگ پر 800ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کر چکا تھا، لیکن عسکری فتح کا دور دور تک امکان نظر نہیں آ رہا تھا۔ عسکری ماہرین بھی کھلے الفاظ میں یہ کہہ رہے تھے کہ افغانستان میں عسکری فتح کا حصول ممکن نہیں ہے۔ امریکی جرنیل بھی اس حوالے سے یکسو تھے کہ یہ جنگ لاحاصل ہے اسے ختم کر دینا چاہئے۔ اسی بناء پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔ امریکہ جنہیں دہشت گرد قرار دیتا تھا ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لئے مجبور ہوا۔ ایک امریکی صدر نے جنہیں چوہے قرار دیا تھا ان کے ہاتھوں عسکری شکست کا داغ لئے امریکہ وہاں سے خود دم دبا کر بھاگا۔ اگست 2021ء میں جس طرح کابل کے ہوائی اڈے سے رات کے اندھیرے میں فوجیوں کو لے کر امریکی ایئر فورس کی آخری پرواز فضاء میں بلند ہوئی اس نے پوری دنیا کو بتا دیا کہ امریکہ ناقابل ِ شکست نہیں رہا۔ پوری دنیا نے امریکی سپاہ کو بھاگتے دیکھا۔ کابل کے ملٹری ہوائی اڈے کا سین دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ یہاں امریکیوں کا مستقر تھا۔ امریکی یہاں قابض تھے جیسے کسی گلے محلے میں بچے پتھر لے کر کسی پاگل کے پیچھے بھاگتے ہیں بالکل ایسا ہی سین تھا۔ شرمناک سین۔ امریکی ہیبت کے خاتمے کا منظر۔ ایسے ہی بھاگتے دوڑتے ایک خود کش دھماکہ ہوا جس میں 13امریکی فوجی اور 170افغان ہلاک ہوئے۔ امریکہ اس بارے میں تحقیقات کے بعد جن نتائج پر پہنچا اس کے مطابق مجرموں کی نشاندہی کی گئی اور انہیں گرفتار کرنے کا مشن شروع کیا گیا۔ امریکی سی آئی اے مسلسل اس پر کام کر رہی تھی، ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے اس ایشو کو اولین ترجیح دی پاک فوج کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا۔ پاک فوج نے اس حملے کے ماسٹر مائنڈ داعش کے شریف اللہ عرف جعفر کو پاک افغان سرحد پر گرفتار کر لیا اور اسے امریکہ پہنچا دیا گیا، ایف بی آئی کی تحقیقاتی ٹیم نے اس کی تصدیق بھی کر دی پھر جا کر امریکی صدر نے پاکستان کا شکریہ بھی ادا کیا اور مل کر آگے بڑھنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا اب اگر پاک فوج بیشک امریکہ کے کہنے پر ہی سہی اگر ملک سے دہشت گردوں کا گند صاف کر رہی ہے تو کیا یہ درست نہیں۔ اپنے خلاف جھوٹے نقادوں کا منہ بند کر رہی ہے تو یہ درست نہیں اور ملکی معیشت کو درست کرنے والی حکومت کی معاونت کر رہی ہے تو کیا یہ درست نہیں۔
سی ایم رضوان







