Column

کیا ہم واقعی مسلمان کہلانے کے لائق ہیں؟

تحریر : عبد القدوس ملک
رمضان المبارک کا مہینہ صرف بھوکا پیاسا رہنے کا نہیں بلکہ اپنے کردار کو سنوارنے، دل کو پاک کرنے اور اپنے معاملات کو درست کرنے کا مہینہ ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ترجمہ: ’’ یعنی روزہ تم پر فرض کیا گیا تاکہ تم متقی بن جائو‘‘۔ ( البقرہ: 183)
تقویٰ کیا ہے؟
صرف عبادات نہیں، بلکہ حقوق العباد کا مکمل خیال رکھنا بھی تقویٰ کا حصہ ہے۔ روزہ ہمیں بھوک اور پیاس سے زیادہ اس بات کا درس دیتا ہے کہ ہم جھوٹ، دھوکہ، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، رشوت، ظلم اور ناانصافی سے بچیں، مگر ہمارے معاشرے میں رمضان عبادت اور بداعمالی کا عجیب امتزاج بن گیا ہے۔ ہم روزہ رکھ کر بازاروں میں جھوٹ بولتے ہیں، کم تولتے ہیں، ناقص اور ملاوٹ شدہ اشیاء بیچتے ہیں۔ دودھ میں پانی، مرچوں میں اینٹوں کا برادہ، دوائیوں میں جعلی مال، گوشت میں پانی کی ملاوٹ یہ سب عام ہے۔ اور جب رمضان آتا ہے تو ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری عروج پر پہنچ جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص کسی چیز کو ذخیرہ کر کے قیمت بڑھنے کا انتظار کرے، وہ گناہگار ہے‘‘۔
جھوٹ اور دھوکہ دہی ہم دکاندار ہیں یا تاجر، گاہک سے جھوٹ بولتے ہیں، مال کے عیب چھپاتے ہیں اور پھر روزے کی حالت میں اللہ اکبر کہہ کر افطار کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ تاجر، صادق اور امانت دار قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا‘‘۔ ( ترمذی)
مگر ہم نے تجارت کو صرف منافع اور دھوکہ دہی کا ذریعہ بنا لیا۔ کم تولنا اور ناپ تول میں خیانت۔
قرآن پاک میں واضح حکم ہے: ترجمہ، ’’ اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پورا کرو‘‘۔
مگر ہم ترازو میں ڈنڈی مارنا اپنی ہوشیاری سمجھتے ہیں۔ یتیموں اور بے سہارا لوگوں کا حق مارنا۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے، ترجمہ :’’ جو یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں‘‘۔ ( النسائ: 10)
ہم یتیموں کا حق کھا کر سمجھتے ہیں کہ کوئی نہیں دیکھ رہا، حالانکہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ ہم رشوت دے کر جائز کام بھی کراتے ہیں اور رشوت لے کر ناجائز کام بھی کرتے ہیں۔ طاقتور کے آگے جھک جاتے ہیں اور کمزور کو دبا دیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں‘‘۔ ( ترمذی)
اور قرآن میں ہے، ترجمہ: ’’ خیانت کرنے والوں کا وکیل نہ بنو‘‘۔ ( النسائ: 105)
رمضان آتے ہی گھی، آٹا، چینی، دودھ، پھل اور سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ یہ سب مصنوعی قلت پیدا کرکے کیا جاتا ہے، تاکہ زیادہ پیسے کمائے جائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے لیے ضروری اشیاء ذخیرہ کرے‘‘۔ ( مسند احمد)
ہم سمجھتے ہیں کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کافی ہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم میں سب سے بہترین وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو‘‘۔ ( بخاری شریف )، اور یہ بھی فرمایا: ’’ کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ ‘‘۔ صحابہ نے کہا: ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمایا: مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کو ناحق مارا ہوگا، پھر اس کی نیکیاں ان مظلوموں میں تقسیم کر دی جائیں گی اور جب نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ان مظلوموں کے گناہ اس پر ڈال دئیے جائیں گے اور اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔ ( مسلم)
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ترجمہ: ’’ اللہ صرف متقیوں کے اعمال قبول کرتا ہے‘‘۔ ( المائدہ: 27)
اگر ہم روزہ رکھ کر جھوٹ بولیں، ملاوٹ کریں، ظلم کریں تو ہمارا روزہ اللہ کے ہاں کیسے قبول ہوگا؟۔
تاریخی مثال حضرت عمر فاروقؓ رات کو بازاروں میں چھپ کر تاجروں کے معاملات دیکھتے تھے۔ ایک عورت کو دودھ میں پانی ملاتے دیکھا تو فرمایا: ’’ اگر عمر تجھے نہ دیکھتا تو بھی اللہ دیکھ رہا ہے‘‘۔
ہم نے یہ احساس کھو دیا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔
ہمیں اس رمضان یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم صرف عبادات کے مسلمان نہیں بنیں گے بلکہ معاملات اور اخلاق میں بھی مسلمان بنیں گے۔ اپنی زبان، ہاتھ اور نیت کو صاف رکھیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔ ( بخاری شریف )۔
آئیے! اس رمضان، ایک نیا سفر شروع کریں، جھوٹ سے بچیں، ملاوٹ نہ کریں، ناپ تول پورا کریں، یتیموں اور مسکینوں کا حق ادا کریں، رشوت اور ظلم سے بچیں، ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری چھوڑ دیں، کمزور کا ساتھ دیں، طاقتور کے سامنے حق بولیں، یہی حقیقی روزہ ہے، یہی حقیقی عبادت ہے اور یہی حقیقی کامیابی ہے۔
اللہ ہمیں حقیقی مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

جواب دیں

Back to top button