Column

یو کرین سے سبق سیکھنا ہو گا

تحریر : شاہد ندیم احمد
دنیا میں ہر جگہ ہی صدر ٹرمپ اور صدر زیلنسکی کی وائٹ ہائوس میں چھڑپ زیر بحث ہے، اس چھڑپ کو سب نے ہی دیکھا ہے اور اس پر ملے جلے تاثرات آرہے ہیں، یہ چھڑپ سب کیلئے ہی حیران کن رہی ہے اور اس کے اثرات بھی حیران کن ہی ہو ں گے، امر یکہ ایک طرف یو کر ین کو دھمکا رہا ہے تو دوسری جانب مشرق وسطی پر اپنا دبائو بڑھائے جارہا ہے،اس کے باعث ایک طرف یورپ متحد ہورہا ہے او دوسری جانب عرب ممالک بھی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر امر یکی دبائو سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں ، امر یکہ کے دبائو سے نکلنے کی کوشش میں کون کس قدر کامیاب ہو پائے گا اور اس میں سے کون خود کو بچا پائے گا؟ لیکن ایک بات طے ہے کہ امر یکہ کے سامنے کوئی کھڑا نہیں ہو پائے گا۔ اگر دیکھا جائے تو امر یکہ میں ایسا پہلی بار نہیں کر رہاہے، اس قبل بھی ایسا ہی کچھ کرتا رہا ہے ، لیکن اس بار یورپ کی جانب سے شدید رد عمل دیکھنے میں آرہا ہے اور اسے جمہوری اقدار اور یوکرین کی خودمختاری کے خلاف قرار دیا جارہا ہے ، اس خیال کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ یورپ یوکرین کے ساتھ کھڑا رہے گا اور اس جنگ میں اسے تنہا نہیں چھوڑا جائے گا، اس موقف کی تکرار اب لندن کانفرنس میں بھی سنائی دئیے رہی ہے، لیکن یورپی لیڈر ابھی ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کو ’ ناقابل اعتبار حلیف‘ کہنے پر آمادہ نہیں ہیں، وزیر اعظم کئیر اسٹارمر نے یوکرینی صدر کا گرمجوشی سے استقبال تو کیا ہے اور تمام یورپی لیڈران نے ان کے موقف کی تائید بھی کی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی امریکہ کو شامل رکھنے اور یوکرین کے تحفظات دور کرنے پر غور کیا جارہا ہے ، کیو نکہ اب یورپی لیڈر جنگ جاری رکھنے کی بجائے اسے بند کرانے اور کسی بھی طرح جنگ بندی کی مانیٹرنگ کو موثر بنانے کی باتیں کر رہے ہیں۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف یو کرین کو تنہا نہیں چھوڑ ا جا رہا ہے تو دوسری جانب امر یکہ کو بھی ناراض نہیں کیا جارہا ہے ، بلکہ امر یکہ سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ یوکرین کا معاملہ امریکہ اور روس ہی مل کر طے نہ کریں ،اس میں یورپ کو بھی شامل کیا جائے اور اس کی رائے کو فوقیت دی جائے، لندن کانفرنس میں جن امن تجاویز پر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے، ان میں یورپی شراکت کا اصول ہی سر فہرست ہے،اس پریوکرینی صدر نے کوئی تبصرہ تو نہیں کیا ، لیکن اس کے پاس اس رائے کے ساتھ چلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ،اس لیے ہی معافی تلافی کی جارہی ہے اور امر یکی صدر کو باور کرایا جارہا ہے کہ اُن کی مضبوط قیادت میںامن کیلئے کام کر نے کیلئے تیار ہیں،یہ بظاہر یوکرین کے موقف کی ناکامی ہے، لیکن یورپ اپنے مفاد کیلئے اور اپنا امریکہ سے اتحاد قائم رکھنے کیلئے ہی سب کچھ کروا رہا ہے۔ اس بد لتی صورتحال کی پیش نظر ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ اس شرط پر امن معاہدہ میں شامل ہو جائے کہ اسے اس معاملہ میں زیر بار نہ ہونا پڑے اور روس کو تنہا کرنے کی کوششیں ترک کی جائیں، روس، یوکرین کے مقبوضہ علاقوں پر قابض رہ کر کسی امن معاہدے کو ہی اپنی کامیابی سمجھے گا، اس امن معاہدے کے بعد ا مر یکہ روس تعلقات اور طویل المدت اشتراک میں پس رفت ضرور دکھائی دیتی ہے ، لیکن اس سے زیادہ
توقع نہیں رکھی جاسکتی ہے ، کیو نکہ دونوں ملکوں کے درمیان سات آٹھ دہائیوں پر مشتمل جتنی دشمنی و رقابت رہی ہے، اسے ایک صدر کی مہم جویانہ طبیعت سے دور نہیں کیا جاسکتا ہے، البتہ ڈونلڈ ٹرمپ روس کو ایک بار پھر عالمی نظام میں واپسی کا ایک با وقار راستہ فراہم کرنے کا سبب ضرور بن رہے ہیں، اس کے مثبت اثرات دوسرے ممالک پر بھی پڑیں گے، اس سے بھارت اور پاکستان بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، اپنے رویوں میں تبدیلی لا کر اچھے ہمسائیوں کی طرح آگے بڑھ سکتے ہیں ، لیکن شاید ایسا ہوں نہیں پائے گا، کیونکہ ہم خود کو دائو پر لگائیں گے ، مگر بیرونی قوتوں کے مفادات کبھی دائو پر نہیں لگائیں گے۔
یہ سب کچھ ایسے ہی کب تک چلتا رہے گا ، ہمارے لیے یوکرین کی صورتحال میں ہی ایک سبق ہے کہ کسی ملک کے جوہری ہتھیار ہی اُس ملک کی سلامتی کے ضامن ہوتے ہیں، عالمی طاقتوں کی سکیورٹی ضمانت کوئی معنی نہیں رکھتی ہے، اس میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، کل کے دوست آج کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست بن جاتے ہیں، یہ ہی کچھ یوکرین کے ساتھ ہوا ہے اور یہ ہی کچھ کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے، اگر آج یوکرین ایٹمی طاقت ہوتا تو اسے ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا، ہر ایک کے آگے جھکنا پڑتا نہ ہی یو ٹرن لینا پڑتا ، لیکن اب دوسروں کے رحم کرم پر ہے اور ہر کوئی اپنے مفادات کیلئے استعمال کر رہا ہے، پاکستان کو جہاں اپنے جوہری اثاثہ جات پر کمپرومائز نہیں کر نا ہے، وہیں اپنے ہمسائیوں سے بھی تعلقات کو بہتر بنانا ہے ، اس کے بعد ہی ڈومور کے مطالبات زد سے نکل پائیں گے اور ایک خود مختار ایٹمی قوت کی حیثیت سے آگے بڑھ پائیں گے۔

جواب دیں

Back to top button