رمضان پیکیج ، سستے بازار اور ذاتی تشہیر

تحریر : امتیاز عاصی
پاکستان کے غریب عوام کا بڑا مسئلہ مہنگائی ہر دور میں رہا ہے۔ ایک محدود آمدن کے حامل لوگوں کی نظریں سیاسی حکومتوں پر ہوتی ہیں وہ اقتدار میں آکر انہیں ریلیف مہیا کریں گے۔ عوام کی امیدوں پر اس وقت پانی پھر جاتا ہے جب سیاسی لوگ اقتدار میں آکر دورغ گوئی سے کام لیتے ہیں۔ کئی کروڑ کی آبادی سے چند لاکھ لوگوں کو ریلیف دینے کے لئے مختلف محکموں کے فنڈز سے کٹوتی کرکے ایڈہاک ریلیف دینے کی کوشش کی جاتی ہے جسے عوام کے مسائل کا مستقل حل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارا کسی سیاسی جماعت سے کوئی لینا دینا نہیں حیرت اس پر ہے وفاق اور پنجاب حکومت کی طرف سے عوام کو رمضان المبارک میں کچھ نہ کچھ مالی اعانت اور سستے بازاروں کے اشتہارات پر قومی خزانے کی کثیر رقم کرنے کا مقصد ذاتی تشہیر کے سوا کیا ہے۔ وفاق کے زیر انتظام نادرا کے پاس ہر شہری کا پورا پورا ڈیٹا موجود ہونے کے باوجود اخبارات میں اشتہارات دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے مملکت میں نہ قانون نہ ہی آئین کی بالادستی ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے برعکس سرکاری پراجیکٹ پر سیاست دانوں کے نام اور تصاویر لگانے کی ممانعت کے باوجود جناب وزیر اعظم شہباز شریف اور محترمہ وزیراعلیٰ مریم نواز کی تصاویر کے ساتھ بڑے بڑے اشتہارات کا مقصد پاکستان مسلم لیگ نون کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ بحال کرنا مقصود ہے۔ عوام اتنے سادہ نہیں اب سیاست دانوں کے جھانسے میں آئیں۔ حکومت کے دعووں کے برعکس اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے سوال ہے کیا سستے بازارو ں میں عوام کو اشیاء خوردونوش ارزاں قیمتوں پر میسر ہیں؟۔ کسی چیز کی قیمت دس یا بیس روپے کم کو ریلیف قرار دیا جا سکتا ہے جب کہ اس کے برعکس اشتہارات پر کروڑوں روپی خرچ کئے جا رہے ہیں حالانکہ حکومت کو قیمتوں پر کنٹرول رکھنے کے لئے لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی حوالے سے ایک شہری نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے جس پر عدالت عالیہ نے پنجاب حکومت سے جواب طلب کر لیا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے بھی یہ خوش آئند نہیں ہے ضرورت مندوں کی حاجت روی کی خاطر اپنے ناموں کی تشہیر کی جائے۔ اس حوالے سے
مختلف احادیث موجود ہیں، جن میں فرمایا گیا ہے کسی حاجت مند کی ضرورت پوری کرو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہیں چلنا چاہیے۔ اسلام نے حاجت مندوں کی ضرورت پورا کرنے والوں کے لئے پردہ داری کا حکم دیا ہے نہ کہ اخبارات میں اس مقصد کے لئے ذاتی تشہیر کرنے کو کہا گیا ہے۔ پرانے وقتوں میں لوگ صدقہ خیرات رات کے اندھیرے میں کیا کرتے تھے تاکہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہونے پائے اور ریا کاری کا شبہ نہ ہو۔ مملکت کی بدقسمتی ہے ہمارے ہاں بے روز گاری عروج پر ہی۔ آمدن میں عدم مساوات کے باعث غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملکی برآمدات پر جمود طاری ہے زراعت کے شعبے کی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے اس کے برعکس حکومت کا دعویٰ معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور تجارتی خسارہ کم ہو رہا ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی معاشی بہتری کو تسلیم کر رہے ہیں۔ ہمارا معاشی نظام اس قدر خراب ہے کسی چیز کی قیمت مستحکم نہیں۔ کاروباری لوگوں پر کسی کا کنٹرول نہیں جس کا جی چاہیے جس قیمت پر اشیائے ضرورت فروخت کرے ۔ مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف قانون موجود ہے جس پر پوری طرح عمل درآمد کا فقدان ہے حالانکہ ملک میں مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف ایسا قانون ہونا چاہیے جس میں مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کے مرتکب لوگوں کو جیلوں میں ڈالنے کے ساتھ ان پر بھاری جرمانے کئے جائیں۔ عجیب تماشا ہے ایک ہی شہر میں اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اتنا فرق اس امر کا غماز ہے یہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ جس ملک میں صرف چینی کی قیمتوں میں اعتدال قائم نہیں رہ سکتا وہاں دیگر اشیاء کی قیمتوں کا کیا حال ہو گا۔ ہر طرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا چرچا ہے عملی طور پر کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ملک کو اگر
معاشی مشکلات کا سامنا ہے اس کی ذمہ دار سیاسی حکومتیں ہیں۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں سیاست دان حکومت سے کھربوں کا قرض لے کر واپس نہیں کرتے۔ قومی خزانے سے قرض لے کر بڑی بڑی صنعتیں لگائی ہوئی ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے قومی خزانے سے اربوں کھربوں کا قرض لے کر معاف کر ا لئے گئے ہیں یا پھر ری شیڈول کرائے گئے۔ سرکاری ملازمین سے ٹیکس جبر سے وصول جاتا ہے جب کہ کارخانے داروں اور کاروباری لوگ ٹیکس دینے سے گریزاں ہیں۔ غریب عوام کا پرسان حال نہیں انہیں روزگار کے حصول کے لئے دربدر ہونا پڑتا ہے۔ ملک کے خراب معاشی حالات میں ارکان اسمبلی کے الائونسز میں اضافہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ عام طور پر سیاست میں وہی لوگ حصہ لیتے ہیں جو مالی طور پر بڑے مستحکم ہوتے ہیں۔ جس ملک میں کرپشن کرنے والوں کو سزا دینے کی بجائے چھوڑ دیا جائے ایسے ملک کبھی ترقی اور معاشی طور پر مستحکم ہو سکتے ہیں؟۔ ملک وجود میں آیا تو بانی پاکستان کابینہ اجلاس میں قومی خزانے کے پیسوں سے چائے کا کپ نہیں پیتے تھے یہاں تو باوا آدم نرالا ہے قومی خزانے کے پیسوں سے بڑی بڑی ضیافتیں ہوتی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہمارا ملک اسی صورت ٹھیک ہوسکتا ہے جب کرپشن میں ملوث لوگوں کو سزا دے کر جیلوں میں بھیجا جائے۔ جس ملک میں احتساب مذاق بن جائے ان ملکوں سے کرپشن کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ کرپشن میں ملوث لوگوں کو کسی قسم کا خوف نہیں انہیں اس بات کا ادراک ہے ان کے خلاف مقدمات دوران تفتیش ختم ہو جائیں گے ورنہ عدالتوں سے بریت مل جائے گی۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے عوام کسی انقلاب کے منتظر ہیں۔ بد قسمتی سے کوئی حکومت مہنگائی پر کنٹرول نہیں کر سکی ہے۔ غریب عوام سے کھیل تماشہ جاری ہے۔ اگر اشتہارات پر اتنا سرمایہ خرچ کرنا تھا تو اشیائے خوردونوش پر سبسڈی دی جا سکتی تھی نہ کہ اشتہارات دے کر خود نمائشی ضروری تھی۔ آج تک کتنے ذخیرہ اندوزوں اور اشیائے خوردونوش زائد قیمتوں پر فروخت کرنے والوں کو سزائیں ہوئی ہیں؟۔





