ست بسم اللہ، جی آیاں نوں

تحریر: امجد آفتاب ملک
خبر ملی ہے کہ پاکستانی حکومت اور حکومتی اداروں کی جزا و سزا کے مالک عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کا وفد پاکستان پہنچ گیا ہے، جسے ہم ’’ ست بسم اللہ، جی آیاں نوں‘‘ کہتے ہیں۔ ہم پاکستانی اپنے خاص مہمانوں کو ویلکم کرتے ہیں اور اُن کو سر آنکھوں پر بٹھانے کو تیار ہیں۔ وہ ہمارے خاص الخاص مہمان ہیں، ہم اُن کی اتنی عزت و تکریم کرتے ہیں جتنا اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں، کیونکہ ایک تو وہ ہمارے مہمان ہیں اور دوسرا وہ ہم کو ڈالر دینے آتے ہیں اور ہم پاکستانی ڈالر دینے والوں کی بڑی قدر کرتے ہیں، یہ ہماری ہمیشہ سے روایت رہی ہے یقین نہیں آتا تو ماضی کو کھنگال کر دیکھ لیں لگ پتہ جائے گا۔ دوسرا ہم پاکستانی مہمان نواز پوری دنیا میں مشہور ہیں ہم اپنے مہمانوں کی آئو بھگت میں کوئی کمی نہیں رہنے دیتے۔ اگر حکومت وقت اجازت دے تو ہم پاکستانی آئی ایم ایف وفد کے آگے ریڈ کارپٹ بچھا کر اُن کا استقبال کرنا چاہتے ہیں اُن پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنا چاہتے ہیں۔ ایک تو یہ ہمارے پردیسی مہمان ہیں دوسرا آئی ایم ایف کا وفد مطلب ڈالر کے دروازے کھولنے والا وفد ایک بار پھر ’’ ست بسم اللہ، جی آیاں نوں‘‘۔ چونکہ یہ ہمارے محسن ہیں تو حکومت وقت سے گزارش ہے کہ ان کے سواگت اور قیام و طعام میں کوئی کمی نہ رکھی جائے۔
آئی ایم ایف وہ ادارہ ہے جس نے پاکستان کو قرضہ فراہم کر کے ڈیفالٹ ہونے سے بچایا تھا دوسرا یہ وہ ادارہ ہے جو قرضہ فراہم کر کے حکومت سے جواب طلب کرتا ہے کہ ہمارا قرض کہاں لگایا تھا؟ اس لیے ہم اس کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ میں اکثر اس کو حکومت کے لیے جزا و سزا کا مالک ادارہ بھی ٹھہراتا رہتا ہوں کیونکہ پاکستان کے عام آدمی کو تو اتنی جرات نہیں کہ وہ حکومتوں سے یہ پوچھ کر گستاخی کرے کہ آپ نے فلاں جگہ سے قرض لیکر وہ پیسہ کہاں لگایا اور اس کی قرض کی شفافیت کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کر سکیں یہ صرف آئی ایم ایف والے ہی کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ ہمیں ڈالر فراہم کرتے ہیں ۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ پہلے پہل قرض لینا اور کسی حکومت کا آئی ایم ایف کے پاس جانے کو ایک طعنہ سمجھا جاتا تھا بلکہ کشکول اٹھانا تصور کیا جاتا تھا پھر وقت بدلے، حالات بدلے اور انہیں حکومتوں نے ہمارے ذہنوں میں ایک بات بٹھا دی کہ اب آئی ایم ایف کے قرض کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، اور ہم جیسے ادنیٰ لکھاریوں اور دانشوروں نے حکومت کی اس بات کو تسلیم کر لیا کہ ہاں واقعی اس کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں اور حقیقت بھی ایسے ہی ہے۔
مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ بنتا ہے کہ یہاں تک نوبت پہنچی کیسے کہ قرض حاصل کرنے کے لیے دن رات دعائیں کرنی پڑتی ہیں کہ آئی ایم ایف والے آئیں ہمیں قرض فراہم کریں۔ ایک زرعی اور تمام معدنیات رکھنے والے ملک کے حالات یہاں تک کیسے پہنچے کہ
قرض حاصل کرنے کے لیے ہمیں منتیں ترلے کرنے پڑتے ہیں اور جب مل جاتا ہے تو ہم اُس پر خوشیوں کے شادیانے بھی بجاتے ہیں ان سوالوں کے جواب کے لیے ہر حکومت کو اپنی گریبان میں جھانکنا ہو گا چاہیے وہ ماضی کی حکومتیں ہوں یا حال کی حکومت۔
بہرحال، اس بار ہمارے مہمان آئی ایم ایف کا وفد ایک خاص اور بڑے بابرکت مہینے میں تشریف لایا ہے، اس بار تو ہماری دعائیں ضرور قبول ہوں گی کیونکہ اس مہینے میں ہم پاکستانی اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہوتے ہیں، اس بار تو ہمارے ’’ بھاگ‘‘ ضرور جاگنے والے ہیں۔
آئی ایم ایف کا وفد 7ارب ڈالر بیل آئوٹ پیکیج کے تحت تقریبا ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط کے حوالے سے حکومت سے مذاکرات کرے گا۔ رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف کا وفد پہلے مرحلے میں تکنیکی اور دوسرے مرحلے میں پالیسی سطح کے مذاکرات کرے گا، آئی ایم ایف کا وفد آئندہ مالی سال کے بجٹ کے لیے تجاویز بھی دیگا اور رضا مندی کی صورت میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف مل سکے گا دیکھا جائے تو پاکستان کے تنخواہ دار طبقے کا بھی سفر بھی گزشتہ کئی سال سے غربت طرف کی رواں دواں ہے۔ مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار نے جہاں ہر طبقے کو پریشان کیا ہوا ہے وہیں پر تنخواہ دار طبقہ بھی حد سے زیادہ متاثر ہے، مہنگائی کے حساب سے اُن کی تنخواہیں نا بڑھانا اُن کے ساتھ ناانصافی بلکہ اُن پر ظلم کے برابر ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو چاہیے وہ جائے نماز پر بیٹھ جائیں اور مسلسل دعائیں مانگتے رہیں تاکہ حکومت آئی ایم ایف کو رام کرنے میں کامیاب ہو جائے اور اُن کے لیے کوئی ریلیف کا راستہ نکل سکے۔
شہباز شریف حکومت کو اس بات کا کریڈٹ تو ضرور جاتا ہے کہ اُس نے آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنے کے لیے جتنے جتن اور محنت کی ہی وہ قابل تحسین ہیں، اس میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کا بھی بڑا کردار رہا ہے، انہوں نے ہر مرحلے میں پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کے لیے حکومت وقت کو مدد فراہم کی ہے۔ آرمی چیف دفاع کے ساتھ ساتھ معیشت بھی مضبوط کر رہے ہیں، سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل ( ایس آئی ایف سی) کے ذریعے سرمایہ کاری پاکستان میں لائی جارہی ہے۔ دوست ممالک ایس آئی ایف سی کے تحت ملک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ۔
اسی تناظر میں معاشی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے آئی ایم ایف قرض پروگرام کے لیے بھی ایس آئی ایف سی کا فورم اپنا بھر پور کردار ادا کر رہا ہے، جس سے خاطر خواہ کامیابی بھی ملی۔
اس وقت حکومت اور آئی ایم ایف کا وفد پاکستان کو 7ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کے تحت اگلی قسط 1.1ارب ڈالر کے لیے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے، آئی ایم ایف وفد کے وزارت خزانہ، توانائی، منصوبہ بندی اور سٹیٹ بینک کے ساتھ بھی مذاکرات ہوں گے اس کے علاوہ ایف بی آر، اوگرا، نیپرا سمیت دیگر وزارتوں اور اداروں سے مذاکرات شیڈول ہیں ۔ آئی ایم کا وفد پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں سے بھی الگ الگ مذاکرات کرے گا۔ تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف کے پاکستان کو دئے گئے بیل آئوٹ پیکیج کے تحت اگلی قسط حاصل کرنے کے لئے وفاقی حکومت کا بھرپور ساتھ دیں۔ خیبرپختونخوا حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھے اور سب سے پہلے پاکستان کا سوچے، یہی ہم سب کا فرض عین ہے۔
امجد آفتاب







