رمضان ہی مہنگائی کا مہینہ کیوں؟
تحریر : قادر خان یوسف زئی
رمضان المبارک کی آمد ہوتے ہی پاکستان میں دو چیزیں ساتھ ساتھ بڑھتی ہیں، ایک عبادات کا رجحان اور دوسرا مہنگائی کا طوفان۔ ہر سال جب یہ بابرکت مہینہ آتا ہے، تو غریب روزہ دار کے لیے سحری اور افطاری کا اہتمام مشکل سے مشکل تر ہو جاتا ہے۔ بازاروں میں ایک عجیب سی گہما گہمی ہوتی ہے، مگر یہ گہما گہمی صرف خرید و فروخت کی نہیں، بلکہ بڑھتی ہوئی قیمتوں، ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کی بھی ہوتی ہے۔ پاکستان میں رمضان ہمیشہ سے ایک منفرد تجارتی رجحان کا حامل رہا ہے لیکن جیسے ہی چاند نظر آتا ہے، اشیائے خور و نوش کی قیمتوں کو بھی پر لگ جاتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب عام آدمی کی جیب خالی ہونے لگتی ہے اور بڑے سرمایہ دار اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں رمضان کے دوران مہنگائی کی شدت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ 2020ء کے رمضان میں مہنگائی کی شرح 14.56فیصد رہی، لیکن 2023ء میں یہ صورتحال مزید سنگین ہو گئی جب مہنگائی 31.5فیصد تک پہنچ گئی۔ اس دوران آٹے، دالوں، سبزیوں اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 60فیصد تک اضافہ دیکھا گیا۔ 2023 ء کے رمضان میں یہ بحران اس حد تک سنگین ہو گیا تھا کہ سستا آٹا حاصل کرنے کے لیے عوام کو لائنوں میں کھڑا ہونا پڑا، کئی جگہوں پر بھگدڑ سے قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، اور متوسط طبقہ یا تو بے بسی سے مہنگائی کا سامنا کر رہا تھا یا پھر سرکاری راشن کے انتظار میں تھا۔
اب 2025ء کا رمضان آن پہنچا ہے۔ حکومت اور مالیاتی ادارے معیشت میں استحکام کے بڑے دعوے کر رہے ہیں۔ جنوری 2025ء میں مہنگائی کی شرح 2.4 فیصد پر آ چکی ہے، جو کہ گزشتہ برس جنوری میں 24فیصد تھی۔ پالیسی ریٹ میں 1000بیسس پوائنٹس کی کمی کی گئی، اور مرکزی بینک کے مطابق اقتصادی صورتحال پہلے سے کہیں بہتر ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس استحکام کا اثر عام شہری پر بھی پڑا ہے؟ کیا وہ بازار جا کر بے فکری سے سحری اور افطاری کے لیے خریداری کر سکتا ہے؟۔
رمضان میں ہی مہنگائی کیوں بڑھتی ہے؟ ماہرین اس کی وجہ طلب اور رسد کا عدم توازن قرار دیتے ہیں۔ یہ دلیل سب سے زیادہ دی جاتی ہے کہ رمضان میں مخصوص اشیاء جیسے کھجور، بیسن، پھل، مشروبات اور دیگر خوردنی اشیاء کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ مارکیٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ رمضان میں کھانے پینے کی اشیاء کی مانگ 30سے40فیصد زیادہ ہو جاتی ہے، جبکہ رسد اسی رفتار سے نہیں بڑھتی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ عدم توازن اتنا بڑا ہوتا ہے کہ قیمتیں دگنی یا تگنی ہو جائیں؟ اگر ایسا ہوتا تو دوسرے اسلامی ممالک میں بھی یہی صورتحال دیکھنے کو ملتی، لیکن ایسا نہیں ہے۔
دوسرا سبب یہ کہ پاکستان میں رمضان کا مطلب ہے کہ کچھ بڑے تاجر، جو کہ مارکیٹ پر اجارہ داری رکھتے ہیں، اشیاء کو مہینے بھر پہلے ہی ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ یہ جان بوجھ کر قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ جب طلب اپنے عروج پر ہو، تو اشیاء زیادہ مہنگے داموں فروخت کی جا سکیں۔ یہ کام ہر سال ہوتا ہے، ہر حکومت اس کا مشاہدہ کرتی ہے، مگر کارروائی برائے نام ہوتی ہے۔ تیسرا سب سے اہم پہلو یہ کہ ہر سال حکومت رمضان بازاروں کے قیام کا اعلان کرتی ہے، جہاں عوام کو نسبتاً کم قیمتوں پر اشیاء فراہم کی جاتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بازار صرف چند مخصوص علاقوں میں لگائے جاتے ہیں، جہاں محدود تعداد میں لوگ ہی خریداری کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ پھر بھی عام مارکیٹ سے مہنگی چیزیں خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
رواں سال مہنگائی گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کچھ کم ہو سکتی ہے، لیکن رمضان کے دوران قیمتوں میں اضافہ پھر بھی متوقع ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق، فروری میں مہنگائی 2سے 3فیصد کے درمیان رہی، جبکہ مارچ میں یہ 3سے 4فیصد تک جا سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے معاشی استحکام کے باوجود رمضان کی مہنگائی کا مسئلہ ابھی بھی حل نہیں ہو سکا۔ ملک میں رمضان سے قبل ہفتہ وار مہنگائی میں 0.38فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو اس امر کی علامت ہے کہ جیسے جیسے رمضان آگے بڑھے گا، قیمتیں بھی اوپر جاتی رہیں گی۔ اگرچہ کچھ اشیاء جیسے دالیں، سبزیاں اور مسالے پچھلے سال کے مقابلے میں قدرے سستے ہوئے ہیں، مگر خریدار اب بھی پریشان ہیں۔ محنت کش مزدور و متوسط طبقے کے ساتھ سفید پوش کیمونٹی کا کہنا ہے کہ مہنگائی کم ہونے کے اثرات ابھی تک ہم تک نہیں پہنچے اور تنخواہیں بھی نہیں بڑھیں، اس لیے حالات عام آدمی کے لیے پہلے جیسے ہی ہیں۔
کیا رمضان میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا کوئی مستقل حل ہے؟ اگر حکومت واقعی اس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے تو موثر اقدامات اٹھانے ہوں گے، جس میں ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت قوانین کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے، ریاست بڑے تاجروں اور ہول سیلرز پر نظر رکھے کہ وہ مصنوعی قلت پیدا نہ کریں۔ اگر کوئی ذخیرہ اندوزی میں ملوث پایا جائے، تو اس پر بھاری جرمانے اور قانونی کارروائی کی جائے۔ پاکستان زیادہ تر کھانے پینے کی اشیاء خود پیدا کرتا ہے، لیکن اگر ہم پڑوسی ممالک سے سستی اشیاء درآمد کریں، تو رمضان میں قیمتوں کو مستحکم رکھا جا سکتا ہے۔ مگر افسوس، کہ سیاسی وجوہ کی بنا پر یہ ممکن نہیں ہو پاتا، اور عوام کو مہنگائی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایک ایسا نظام متعارف کرائے جہاں عوام کو مارکیٹ کی اصل قیمتوں کی فوری معلومات حاصل ہو سکیں۔ ایسا کرنے سے ناجائز منافع خوری کی حوصلہ شکنی ہو گی، کیونکہ لوگ خود موازنہ کر سکیں گے کہ کون سی دکان مہنگے داموں فروخت کر رہی ہے۔
یہ وہی پاکستان ہے جہاں لوگ لاکھوں روپے زکوٰۃ دیتے ہیں، جہاں رمضان میں سب سے زیادہ خیرات کی جاتی ہے، جہاں فطرانے اور صدقات کا رجحان سب سے زیادہ ہے۔ مگر اسی ملک میں رمضان کا مطلب مہنگائی، لوٹ مار، اور منافع خوری بن چکا ہے۔ کیا یہ وہی مہینہ نہیں جو قربانی، مساوات اور رحمتوں کا پیغام لے کر آتا ہے؟ دعا ہے کہ 2025ء کا رمضان گزشتہ برسوں کی طرح عام افراد کے لئے کڑا امتحان نہ ہو۔ حکومت نے معیشت میں استحکام کا دعویٰ کیا ہے، مگر عام آدمی اب بھی مہنگائی سے پریشان ہے۔ حکومت، عوام، اور کاروباری طبقہ مل کر فیصلہ کریں کہ آیا ہم رمضان کو عبادات، رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ بنانا چاہتے ہیں، یا مہنگائی، استحصال اور مشکلات کا؟ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔





