ہم تو مائل بہ کرم ہیں ۔۔

تحریر : صفدر علی حیدری
کتاب ہدایت میں لفظ انسان 63بار آیا ہے ۔ اگر ان آیات کو پڑھ کر ابن آدم کی تصویر کھینچی جائے تو واضح ہو گا کہ’’ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے، احسان فراموش ہے، نا امید ہو جانے والا ہے، نا شکرا ہے، بڑا ہی بے انصاف ہے، بڑا جلد باز ہے، روگردانی کرنے والا اور کروٹ بدلنے والا ہے، بہت تنگ دل واقع ہوا ہے، جھگڑالو ہے، عجلت پسند خلق ہوا ہے، بڑا ظالم اور نادان ہے، نعمت سے نوازتے ہیں تو وہ منہ پھیرتا اور اکڑ جاتا ہے، جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے، انسان تو یقینا سر کشی کرتا ہے، انسان یقینا خسارے میں ہے، انسان کو مشقت میں پیدا کیا گیا ہے، روزی تنگ ہو جائے تو اسے توہین کہتا ہے، انسان یقینا کم حوصلہ خلق ہوا ہے‘‘۔
ان ساری آیات میں اس کے کردار کی منفی باتوں اجاگر کی گئی ہیں لیکن اس کے باوصف خلافت ارضی کا تاج اسی کے سر پر رکھا گیا ہے ۔ اسی کو نائب بنا کر دھرتی پر اتارا گیا ہے ۔ ان 63آیات میں انسان کی کوئی خوبی بیان کی گئی ہے تو وہ یہی ہے کہ ’’ ہم نے انسان کو بہترین اعتدال میں پیدا کیا ‘‘۔ سورۃ بقرہ کو قرآن کا خاصہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ اس کے شروع میں انسانوں کی تین اقسام کا ذکر ہے’’ مومن، منافق اور کافر ‘‘۔ مومن کا ایمان واضح ہوتا ہے اور کافر کا کفر نمایاں مگر منافق چھپا ہوا ہوتا ہے۔ جبھی تو کتاب ہدایت نے اسے بدترین مخلوق قرار دیا ہے۔ منافق جب مومنوں کے درمیان ہوتا تو انھیں کہتا ہے کہ وہ ایمان لا چکا ہے۔ لیکن جب انکار کرنے والوں میں جاتا ہے تو انھیں یقین دلاتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہے۔ وہ احمق تھوڑی ہے کہ ایمان لے آئے۔ وہ تو ان کے ساتھ مذاق کرتا ہے۔ اب کتاب گواہی دیتی ہے کہ وہ خود احمق ہے مگر اسے اس بات کا شعور ہی نہیں ہے۔ گویا اسے اپنی کم علمی جہالت اور حماقت کو احساس ہی نہیں ہے۔ یہ کتنی بڑی بد قسمتی ہے کہ منافق انسان خود کو ہی پہچان نہیں پاتا۔ سو اس پر یہ شعر صادق آتا ہے۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
گویا اس کا دشمن کوئی اور نہیں وہ خود ہوتا ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ اسے اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا
میں خود تھا اپنی ذات کے پیچھے پڑا ہوا
میرا شمار بھی تو میرے دشمنوں میں تھا
منافقت ایسی اخلاقی برائی ہے کہ اس سے پناہ مانگنے کا درس دیا گیا ہے۔ شاید ہی کوئی انسان ہو گا جس کے دل میں کبھی نہ کبھی کچھ نہ کچھ نفاق پیدا نہ ہوا ہو۔ اب اس سے بچائو کو ایک حل تو ہے کہ انفاق کیا جائے۔ یعنی اللہ کے راستے میں مال خرچ کیا جائے۔
جناب امیر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ انسان کا جوان بیٹا مر جائے اسے نیند آ جائے گی، لیکن اس کا مالی نقصان کو ہو جائے تو اسے نیند نہیں آئے گی۔ ویسے بھی حدیث کی رو سے امت مسلمہ کا سب سے بڑا فتنہ مال قرار دیا گیا۔ دنیا میں اکثر جھگڑوں کی بنیاد مال ہی ہے۔ اب وہی مال جب انسان مالک کے نام پر خرچ کرے گا تو اس کے اندر کا نفاق ختم ہو جائے گا۔ مال راہ خدا میں خرچ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ بات شیطان کو سخت نا پسند ہے۔ وہ انسان کو غربت اور مفلسی سے ڈراتا ہے۔ ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ انسان اس کام سے باز رہے۔ کسی نے ایک عارف سے پوچھا کہ مال کیسے خرچ کیا جائے دل نہیں مانتا۔ جواب ملا مال خرچ وقت یہ تصور کرو کہ یہ مال تمہارا ہے ہی نہیں۔ جس نے دیا تھا اسی کے حکم پر لوٹا رہے ہو۔ تب دینا اور خرچ کرنا آسان ہو جائے گا۔ نفاق دور کرنے کا ایک اور بھی آسان طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اونچی آواز میں درود شریف کا ورد کیا جائے۔
مخلوقات کے چار کے طبقات ہیں۔ یعنی انسان حیونات نباتات اور جمادات۔ جب انسان راہ حق سے برگشتہ ہوتا ہے تو اس کی پستی کا سفر شروع ہو جاتا ہے ۔ اگر وہ سنبھل نہیں ہوتا تو گرتے گرتے، حیوانات پھر نباتات حتی کہ جمادات کے مقام پر جا پہنچتا ہے ۔ بلکہ اس سے کمتر بھی کوئی مقام ہو تو اس کا اہل بن جاتا ہے۔ کتاب ہدایت بتاتی ہے کہ ’’ پھر اس کے بعد بھی تمہارے دل سخت رہے، پس وہ پتھر کی مانند بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے، کیوں کہ پتھروں میں سے کوئی تو ایسا ہوتا ہے جس سے نہریں پھوٹتی ہیں اور کوئی ایسا ہے کہ جس میں شگاف پڑ جاتا ہے تو اس سے پانی بہہ نکلتا ہے اور ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو ہیبت الٰہی سے نیچے گر پڑتا ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے ‘‘۔کیسی ستم ظریفی ہے کہ گمراہ انسان اتنا بھی اثر پذیر نہیں ہوتا، جس قدر جمادات اثر پذیر ہوتی ہیں۔ پتھر بھی اپنے پتھریلے دل میں خوف خدا رکھتا ہے مگر گرا ہوا انسان خواب میں خوف ناک چیز دیکھ کے ڈر جاتا ہے مگر بیداری کی حالت میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا۔ حالاں کہ اگر رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرے تو اس کے لیے دو دو باغ ہیں۔ اہل علم اللہ کا ڈر رکھتے ہیں ۔ وہ یہ خوف رکھتے ہیں کہیں وہ خدا کی نظر میں گر نہ جائیں۔ کہیں وہ کوئی ایسا فعل نہ کر بیٹھیں کہ ان کا مقام رب کی نگاہ میں کم تر ہو جائے۔ ایک طرف انسان خالق کو راضی کرنا چاہتا ہے دوسری جانب اپنے جیسی مخلوق کے لیے اپنے خالق و مالک کو ناراض کر بیٹھتا ہے۔
امام حریت مولا حسینؓ کی دعا کے جملے ملاحظہ ہوں’’ اس نے کیا پایا جس نے تجھے کھو دیا اور اس نے کیا کھویا جس نے تجھے پا لیا ‘‘۔ ہمارا رب بار بار کہتا ہے مجھ سے اپنا معاملہ ٹھیک کر لو، پھر میں جانوں اور یہ دنیا جانے۔ اس نے کسی کے دو دل نہیں بنائے۔ دل بھی ایک ہے اور اس میں جگہ بھی کسی ایک کی ہی ہو سکتی ہے۔ یا رحمان کی یا شیطان کی۔وہ کہتا ہے اے میرے بندے میں یہ سب کچھ تیرے لیے بنایا ہے مگر تجھے اپنے لیے بنایا ہے۔ اب تو مجھ سے میرا سب کچھ لے لے اور میرا تو بن جا۔ ہمارے لیے کس قدر منافع بخش سودا ہے مگر ہم خسارے اٹھا لیتے ہیں۔ زمانے کی قسم اٹھا کر وہ کہتا ہے کہ انسانوں کی اکثریت نقصان میں ہے۔ حالاں کہ انسان کبھی بھی خسارہ نہیں چاہتا۔ ہاں مگر بات اخروی فائدے کی تو یہ الگ بات ہو جاتی ہے۔ تب انسان قلیل فائدے کے عظیم کامیابی ترک کر دیتا ہے۔ جبھی تو ہمارا مالک زمانے کی قسم اٹھا کر کہتا ہے کہ انسانوں کی اکثریت خسارے میں ہے۔ گویا خسارے سے بھاگنے والا خسارے کی فصل کاٹتا دکھائی دیتا ہے۔ انسان افتاد طبع ملاحظہ ہو کہ انسان انبیاء سے معجزہ طلب کرتا ہے اور معجزہ دیکھ لیتا ہے تو کہتا ہے یہ تو جادو ہے ۔ بس یہیں سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ انسان رزق کے کمانے کے لیے ہر جائز ناجائز کام کر گزرتا ہے۔ دنیا کے آخری کنارے تک چلا جاتا ہے۔ مادی دنیا میں اپنے کسی قلیل فائدے کے لیے آخرت میں عظیم کامیابی کو دائو پہ لگا دیتا۔ حلاں کہ اسے رزق دینے کا وعدہ اس کے مالک نہیں کر رکھا ہے۔ لیکن ہدایت کے لیے راہ ہدایت پر کم ہی قدم اٹھاتا ہے۔ جب کہ وہ جانتا بھی ہے کہ رب نے ہدایت کا وعدہ نہیں فرمایا ۔ اس کے ہادی بھیجے پھر بھی حق انتخاب اور حق اختیار اس سے نہیں چھینا ۔ اس نے ہادی بھیجے کیوں کہ وہ انسان کی بہتری چاہتا ہے مگر یہ تبھی ہو گی جب وہ اپنے اختیار سے راہ ہدایت پر قدم بڑھاتا ہے ۔
ہم تو مائل بہ کرم ہے کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے کوئی راہ روئے منزل ہی نہیں
گویا قدم اٹھائے تبھی منزل ملے گی۔ مانا انسان کی کوئی کل سیدھی نہیں مگر سیدھی بات یہی ہے کہ ہدایت کے سیدھے راستے پر چلنا پڑے گا ۔ پھر وہ راہیں ہموار کر دے گا ، راہیں کھول دے گا۔
’’ اور جو ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم انہیں ضرور اپنے راستے کی ہدایت کریں گے اور بتحقیق اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے ‘‘۔







