عزت نفس مجروح نہ ہو

تحریر : خالد محمود
سوشل میڈیا ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے، ہر دوسرے شخص کا کسی نہ کسی طور واٹس ایپ، فیس بک، ٹیوٹر وغیرہ وغیرہ سے واسطہ پڑتا ہے جو کہ ہماری معاشرتی و سماجی سرگرمیوں کا عکاس ہے۔ کہیں ہماری خامیوں کو اور کہیں خوبیوں کو عیاں کر تا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک پوسٹ نظر سے گزری، کسی صاحب کے گھر پر بجلی نہ ہونے کے باعث فریج کا ڈور کھلا ہوا تھا اور عید قربان کو دو ہفتے گزرنے کے با وجود فریج کا اوپر والا گوشت سے مکمل طور پر بھرا ہوا تھا جسے ایک ہمسائی غریب لڑکی حسرت بھری نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ مذکورہ پوسٹ کے ایک جانب تحریر تھا ’’ دعا کریں، اس گھر کی بجلی فراہمی تین دن تک منقطع رہے تا کہ یہ گوشت غریب غرباء اور مستحقین میں تقسیم ہو‘‘۔ یہ اسی طرح رمضان المبارک کے مہینہ میں ریکارڈ اور بیش بہاخیر ات اور راشن تقسیم کرنے والے مخیر حضرات کے حوالہ سے بھی ایک پوسٹ کا تذکرہ ہو جائے۔ ان کے بارے میں مستحقین اور غریب طبقہ کی فریاد تھی کہ بھوک اور ضرورتیں محض ماہ رمضان ہی میں نہیں سال کے باقی مہینوں میں بھی ہوتی ہیں۔ بھوک و پیاس صرف رمضان المبارک میں لگتی ہے، یہ پورے سال لگتی ہے۔
بلا شبہ انسان فطری طور پر لالچی ہے اور زیادہ زیادہ ثواب کے لئے صدقہ خیرات کرتا ہے۔ ثواب ہی کے لئے نیکیاں کماتا ہے۔ کسی نہ کسی طور مسلمانان عالم نیکیاں سمیٹنے اور ثواب کے لئے خصوصی کرتے ہیں۔ بالخصوص رمضان المبارک میں عبادت کے ساتھ ساتھ صدقہ و خیرات دینے میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
مستحقین کی مدد کرنے اور ثواب کی نیت سے کچھ دینے میں عزت نفس کا خیال کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اسلام میں عزت نفس کے حوالہ سے خاص احکامات ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ اس طرح خرچ کرو کہ دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں ہاتھ کو علم نہ ہو کہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور یہ پوشیدہ اور راز داری میں دیا جانے والا اللہ تعالیٰ کو زیادہ مقبول ہے۔
عزت نفس کے حوالہ سے ہمارے سوشل میڈیا کے دوست ڈاکٹر شہاب نے واٹس ایپ پر ایک پوسٹ ارسال کی جس کا تذکرہ کیا جانا ضروری ہے۔ پوسٹ یوں تھی کہ پھل فروٹ کی دکان پر ایک شخص نے سیب کے دام معلوم کئے تو دکاندار نے اسے بتایا ’’ محترم! یہ سیب 80روپے فی کلو ہیں‘‘۔ اسی دوران ایک خاتون آگئیں اور انہوں نے بھی انہیں سیب کے دام پوچھے جن کے وہاں پر موجود گاہک ریٹ استفسار کر چکا تھا‘‘ دکاندار نے خاتون کو سیب کے ریٹ 40روپے فی کلو بتائے، جس پر وہ شخص آگ بگولہ ہوگیا اور خونخوار نظروں سے دکاندار کو دیکھنے لگا لیکن اشارے سے دکاندار نے خاموش رہنے اور انتظار کرنے کا کہا۔ خاتون نے ایک کلو سیب خریدے اور شکر خدا وندی بجا لاتے ہوئے رخصت ہوگئی کہ ان کے بچے یہ فروٹ کھائیں گے۔ خاتون کے جانے کے بعد دکاندار اس گاہک سے مخاطب ہوا ’’ میں نے تجھے کوئی دھوکہ نہیں دیا، یہ خاتون چار یتیم بچوں کی ماں ہے لیکن یہ ایک خود دار عورت ہے، یہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے والی نہیں، کئی بار اس کی مدد کرنے کی کوشش کی، پر ہر بار ناکام رہا۔ اب یہی ایک ترکیب سوجھی کہ کم سے کم دام لگا کراس کو پھل فروٹ دے دوں، یوں اس کا بھرم قائم رہے، عزت نفس بھی مجروح نہیں ہو اور اسے بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی کی محتاج نہیں ہے، دکاندار نے اس گاہک سے مزید کہا میں یہ تجارت اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہوں اور اس کی رضا و خوشنودی کا طلب گار ہوں۔ دکاندار کا مزید کہنا تھا یہ بیوہ عورت جس دن میری دکان میں آجائے خدا گواہ ہے میری کمائی اس دن تین چارگنا زیادہ ہوجاتی ہے‘‘۔ گاہک دکاندار کی باتوں اور نیک عمل سے بے حد متاثر ہوا اور کہا بخدا لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ان کا عزت نفس مجروح ہونے سے بچانے میں جو لذت ملتی ہے اسے وہی جان سکتا ہے جس نے آزمایا ہو‘‘۔
یقین کریں آپ جتنا خداوند تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں گے، اس سے کئی زیادہ وہ ذات آپ کو نواز دے گی۔ عمل وہ جو پسند آجائے اور بات وہ جو دل میں اتر جائے پر عمل پیرا ہوکر نیک کاموں کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جو ہماری مدد کے طلب گار ہیں لیکن وہ ہاتھ پھیلانا نہیں چاہتے، وہ اپنا بھرم اور سفید پوشی کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں، درا صل یہی حقیقی ضرورت مند ہوتے ہیں۔
ہمارے ایک عزیز کے ہاں کام کرنے والی خادمہ آتی ہیں ان کی بچی کی شادی طے پائی تو باتوں باتوں میں کچھ مالی مدد چاہی، مالی امداد کے ساتھ ساتھ انہیں مشورہ دیا کہ جہیز کے لئے وہ اگر کسی فلاحی ادارے سے رجوع کریں تو کافی مشکلات حل ہوسکتی ہیں، جس پر انہوں نے کہا کہ ہم عزت دار لوگ ہیں پچھلے دنوں ہماری عزیزہ کی شادی تھی انہوں نے ایک ویلفیئر والوں سے جہیز کی بات کی اور ان سے جو کچھ ملا سب پر ویلفیئر کا نام لکھا ہوا تھا، بیڈ پر، الماری، کپڑوں پر، برتنوں پر، جس سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ یہ جہیز کہاں سے آیا اور کس طرح آیا۔ گویا عزت نفس کا کوئی خیال ہی نہیں۔ اس لینی سے تو نہ لینا ہی بہتر ہے۔ بہرحال ہمارے ملک میں درجنوں فلاحی ادارے موجود ہیں جو کہ ملک کے طول و عرض فلاحی کاموں اور مستحقین کی مدد میں مصروف عمل ہیں جن سے ہزاروں لاکھوں خاندان استفادہ کرتے ہیں ا ور بعض ادارے بالخصوص ایدھی فائونڈیشن و دیگر ادارے ہنگامی حالات میں حکومت کا بھی ہاتھ بٹاتے ہیں۔ اس طرح ایدھی فائونڈیشن، عالمگیر ٹرسٹ، سیلانی انٹرنیشنل، چھیپا، المصطفیٰ ویلفیئر، خواجہ غریب نواز ٹرسٹ، فاران انٹرنیشنل و درجنوں دیگر ادارے ایمبولینس سروسز، طبی خدمات، کچن، دستر خوان، ماہانہ راشن، رمضان المبارک راشن، سرد خانہ، غسل و کفن، میت سروس، یتیم خانے ، اولڈ ہوم، شیلٹر ہومز و دیگر سروسز کی فراہمی میں مصروف عمل ہیں۔ جو کہ خوش آئند ہے لیکن ان میں بعض فلاحی تنظیموں کی بنیادی توجہ تشہیر ہے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے اور فنڈز کے زیادہ سے زیادہ حصول کی خاطر جو کچھ دیتے ہیں اس پر ا پنے ادارے کا نام، مونو گرام کی صورت میں تشہیر ہے جو کہ عین عزت نفس مجروح کرنے کے مترادف حتیٰ کہ کفن اور تدفین کے لئے دی جانے والی چادروں پر بھی نام تحریر ہوتے ہیں۔ بعض ادارے اس عمل کو اچھا نہ سمجھتے ہوئے مستحقین کی خالص اس طرح مدد کرنے میں مصروف ہیں کہ کسی کو علم تک نہیں ہوتا۔
ان فلاحی اداروں سے درخواست ہے جو کہ امدادی کاموں کو ذریعہ تشہیر بنارہے ہیں، ایسے عمل کی نفی کرکے ضرورت مندوں اورمستحقین کی عزت نفس کو مجروح کرنے سے بچائیں تا کہ وہ معاشرے میں سر اٹھا کر آپ کی امداد سے استفادہ کر سکیں۔





