اور اب 60ارب روپے کا گھپلا

تحریر : سیدہ عنبرین
پاکستان کے چار موسموں کے بڑے چرچے ہیں، یہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ موسم گرما، موسم سرما، موسم بہار اور موسم خزاں کے علاوہ سیاست دانوں اور حکمرانوں کا ایک خود تراشیدہ موسم ہل چل بھی ہے جو آج کل اسلام آباد میں چل رہا ہے۔ پنجاب میں بھی اس کے اثرات نظر آ رہے ہیں، اسی موسم ہل چل میں’’ بھارت کو پیچھے نہ چھوڑ دیا تو نام نہیں‘‘ کا بیان آیا ہے۔ بہت خوش کن بیان ہے لیکن یہ سوچ کر خوشی کا فور ہو جاتی ہے کہ ایسا ہی ایک بیان جناب آصف زرداری کے بارے میں دیا گیا تھا، پھر بعد از الیکشن وہ بیان دینے والوں کی دعوت پر لاہور تشریف لائے تو انہوں نے اس بیان کی یاد تازہ کرتے ہوئے ازراہ مذاق کہا کہ میں تو لاہور آتے ہوئے ڈر رہا تھا کہ کہیں یہاں پیٹ پھاڑ دینے کے انتظامات نہ ہوں۔ جناب آصف زرداری کے بارے میں یہ بیان دینے والوں نے ایک اطلاع کے مطابق معذرت کر لی اور جب سے اب تک سب شیر و شکر ہیں۔ ماہ اکتوبر گزر چکا، آئندہ اکتوبر کے آنے میں ابھی کافی دیر ہے لیکن اکتوبر کا موسم اسلام آباد کے حواس پر طاری ہے۔ ایک وفاقی مشیر فرما رہے تھے اگر 12اکتوبر نہ آ گیا تو ہم اپنے تمام ترقیاتی اہداف حاصل کر لیں گے۔ یاد رہے کہ 12اکتوبر بن بلائے نہیں آیا تھا، دعوت دے کر بلایا گیا تھا اور یہ بھی تاریخ ہے کہ وہ بار بار دعوت دینے پر آیا تھا، اگر 8فروری ناکام ہو جائے تو 12اکتوبر کی گنجائش نکل آتی ہے، معیشت کی کہانی تو یہی ہے کہ کوئی ہدف حاصل نہیں ہوا، یہی حاصل سیاسی اور مالیاتی اہداف کا ہے، قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی کیلئے ہر دو ماہ بعد ایک نئے قرض کا حصول کوئی کامیابی نہیں، بلکہ اطلاع دی جاتی ہے کہ قوم کے سر پر ایک نئی گٹھڑی کا بوجھ لاد گیا ہے۔ بھارت ہم سے چار گنا زیادہ آبادی کا ملک ہے، تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق وہاں غربت کی لکیر سے نیچے افراد کی اوسط ہم سے بہت کم ہے، ہمارے یہاں قریباً تئیس کروڑ کی آبادی میں 30 فیصد افراد غربت کی لکیر سے نیچے تھے، گزشتہ تین برس میں مزید ایک کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے نہیں بہت نیچے جا چکے ہیں۔ حکومت کو ان اعداد و شمار پر یقین نہیں آئے گا کیونکہ یہ اعداد و شمار غیر سرکاری غیر جانبدار حلقوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً جاری کئے جاتے رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک پرائیویٹ ادارے نے الیکشن کی شفافیت پر ایک رپورٹ جاری کی جو پسند نہ آئی جب سے وہ ادارہ اور اس کے کرتا دھرتا مشکل حالات میں ہیں۔ سچ کتنا بولا جا رہا ہے، سچ بولنے کی کتنی اجازت ہے، کون سا سچ بولنا ہے، کون سا سچ نہیں بولنا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مختلف ٹی وی چینلز سے تعلق رکھنے والے 6اینکر آف ایئر ہو چکے ہیں۔ کچھ اور کی باری آنے والی ہے۔ ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے ’’ آیئے جنگلی حیات کی بہتری کیلئے کام کریں‘‘ خیال برا نہیں ہے لیکن جنہیں اشرف المخلوقات خدا نے قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو سردارالانبیائؐ کی بہترین امت قرار دیا، ان کی بہتری کیلئے کیا کچھ کیا گیا ہے، اس پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ نئے کینسر ہسپتال کی تعمیر سے زیادہ اہمیت و ضرورت خوراک کو خالص بنانے کی ہے اور ملاوٹ مافیا کا سر قلم کرنے کی ہے۔ ہر جرم کی تفصیل سامنے آنے پر کیفر کردار تک پہنچانے کی بات برسوں سے سن رہے ہیں، لیکن ہر مرتبہ سزا کے بجائے مزید جزا اس مافیا کی تجوریوں تک پہنچ جاتی ہے۔ تازہ ترین واردات چینی مافیا کی ہے، جیسے چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی گئی تو ملک بھر سے شور اٹھا کہ اب چینی کی قیمت دن دگنی رات چوگنی ترقی کریگی۔ طفل تسلیاں دی گئیں کہ عوامی ضرورت کے مطابق وافر سٹاک موجود ہے۔ ایکسپورٹ شروع ہو گئی، ایک ارب زرمبادلہ کی خبر آئی، ساتھ ہی سوا سو روپے فی کلو والی چینی کی قیمت بڑھنے لگی، آج پونے دو سو روپے کلو ہو چکی ہے۔
چینی مافیا کو رعایتی نرخوں پر گیس و بجلی ملتی ہے، ایکسپورٹ کے بعد ایکسپورٹ ری فنڈ بھی مل جاتا ہے، چینی کی شارٹج کے بعد حکومت کے خزانے سے عام آدمی کیلئے سبسڈی جاری ہوتی ہے، اربوں روپیہ ادھر سے ادھر ہو جاتا ہے، عام آدمی کو اس سے فائدہ نہیں پہنچتا۔ کیا یہ بہتر نہ تھا کہ چینی ایکسپورٹ کی اجازت نہ دی جاتی۔ ٹرک کی نئی بتی یہ ہے کہ یہ معاملہ ڈیمانڈ اور سپلائی کا ہے، کیا آبادی راتوں رات دگنی ہو گئی، ایسا نہیں، یہ کارپوریٹ کلچر اور کارپوریٹ مافیا کا بیانیہ ہے، اسلامی کلچر اور نظام یہ ہے کہ کوئی بھی جنسں مارکیٹ میں کم فروخت ہو یا زیادہ تیزی سے، اس کا ریٹ آسمان پر نہیں لے جاتا، ایک ہی رہتا ہے۔ لیکن یہ معاملہ تو درحقیقت اسلامی ممالک کا ہے، ہم تو خیر سے اسلامی ملک نہیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، جہاں جمہوریت کا کارٹون رائج ہے، جو ہر اہم معاملے میں عام آدمی کا منہ چڑانے کیلئے سکرین پر نمودار ہوتا ہے، دانت نکلنا ہے اور دھمکاتا ہے۔
خادم حرمین شریفین کی جانب سے کئی ٹن کھجوروں کا تحفہ ہر سال پاکستان بھجوایا جاتا ہے، چند روز قبل یہ وفاقی وزیر چودھری سالک حسین صاحب کے حوالے سے کیا گیا، جو اپنی امانت، دیانت، شرافت کے سبب بہت اچھی شہرت رکھتے ہیں، لیکن دیکھنا ہے یہ کھجوریں اسلام آباد ہی ہمیشہ کی طرح ہڑپ کر جاتا ہے یا یہ ملک بھر میں، تمام صوبوں میں، تمام شہروں میں کسی غریب کے منہ تک بھی پہنچتی ہیں۔
جس ملک کو ہم صبح شام للکارتے نہیں تھکتے اس کے بارے میں برطانوی جریدے اکانومسٹ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس کے مطابق بھارت میں انتہائی غربت اب ختم ہو چکی ہے، بھارت نے غربت کے خاتمے کیلئے شاندار کامیابی حاصل کی ہے، جولائی 2024ء تک بھارت میں صرف ایک فیصد افراد غربت کی لکیر سے نیچے تھے، مگر اب وہ بھی نہیں، یہ تجزیہ آئی ایم ایف کے سابق ڈائریکٹر ہورجیت بھلا اور نیویارک اسٹیٹ یونیورسٹی کے کرن بھاسن نے کیا ہے، قوت خرید کے لحاظ سے غربت کی لکیر بھارتی 6سو روپے 2.15ڈالر یومیہ ہے، لیکن تمام بھارتی اب اس سے اوپر ہیں، یوں اس کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔
بھارت کی اس کامیابی نے اس مفروضے کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی ہے کہ غربت کے خاتمے کیلئے مینوفیکچرنگ بہت ضروری ہے، جو کسانوں کو کھیتوں سے فیکٹریوں تک لے جائے۔ پاکستان کا 8ماہ میں تجارتی خسارہ 15ارب 78کروڑ ڈالر ہے۔ ہمارے یہاں کام کی رفتار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 27وزراء کا اضافہ کیے آج 10روز ہو چکے ہیں متعدد وزراء کے محکموں کا اعلان نہیں ہو سکا اس معاملے پر وفاقی حکومت میں سخت کشیدگی کی اطلاعات ہیں، بعض نئے وزراء اس شرط پر شامل کئے گئے کہ انہیں ان کی پسند کی وزارت دی جائے گی، یہ بعض وزارتیں پرانے وزیروں کے پاس ہیں، جو انہیں چھوڑنے میں پس و پیش کر رہے ہیں، جبکہ نئے وزراء غیر من پسند وزارتیں لینے کیلئے تیار نہیں۔ پرویز خٹک کے انتخاب پر حکومت کے اندر ناپسندیدگی نمایاں ہے، کوئی ان کے انتخاب کا کوئی جواز پیش کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتا۔ تازہ ترین خبر پورٹ قاسم اتھارٹی میں 60ارب روپے کے گھپلے سے متعلق ہے، جس پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ وزیر محترم قیصر شیخ صاحب کا بیان ہے، فرماتے ہیں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہو گی، چلئے مان لیتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں۔





