زیلنسکی کے دورے، ٹرمپ ملاقات! پھر کیا؟

تحریر : ملک شفقت اللہ
یوکرین کے صدر وولوڈیمیر زیلنسکی نے امریکہ اور برطانیہ کے سفارتی دورے یوکرین اور روس کے درمیان جاری تنازعے کے نازک موڑ پر کئے۔ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس مانیٹرنگ مشن کی رپورٹ کے مطابق، 2024ء کے آخر تک جنگ کے نتیجے میں 12000سے زائد شہری ہلاک اور 50لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جبکہ 80لاکھ سے زائد مہاجرین یورپ میں پناہ گزین ہیں۔ اس جنگ نے یوکرین میں انفراسٹرکچر کا411ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا، جس سے ملک کی معیشت مفلوج ہو گئی ہے۔ یہ دورے کلیدی مغربی اتحادیوں سے فوجی، مالی اور سیاسی مدد حاصل کرنے کی ضرورت کے تحت کیے گئے ہیں۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور طویل جنگ کے پیش نظر، زیلنسکی کی عالمی رہنماں سے ملاقاتوں کا مقصد یوکرین کے دفاع کو مضبوط بنانا اور روسی جارحیت کے خلاف عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنا تھا۔ لیکن زیلنسکی اپنے مقصد میں کتنا کامیاب ہو پایا؟
جہاں یوکرائن میں جمہوری دور کو انتخابات کے ذریعے ایک نئے دور میں داخل کرنے کی پالیسیاں بن رہی ہیں وہیں، زیلنسکی کا امریکہ کا دورہ یوکرین کی سفارتی مہم میں ایک اہم موڑ تھا۔ انہوں نے امریکی صدر سے ملاقات کی جہاں 60 ارب ڈالر کی اضافی فوجی امداد پر بات ہوئی، جس میں پیٹریاٹ میزائل سسٹم، بکتر بند گاڑیاں اور جدید ڈرونز شامل تھے۔ اس سے یوکرین کے لیے امریکی امداد کا مجموعی حجم 150ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گا، جو کسی بھی ملک کو دی جانے والی سب سے بڑی فوجی امداد ہے۔زیلنسکی نے امریکی کانگریس سے خطاب میں کہا: ’’ یوکرین کی جنگ صرف اس کی بقا کے لیے نہیں بلکہ جمہوریت کی بقا کے لیے ہے‘‘۔ تاہم، گیلوپ پول (2024)کے مطابق، صرف 52%امریکیوں نے یوکرین کے لیے مزید امداد کی حمایت کی، جبکہ 41%نے اس کی مخالفت کی، جس کی وجہ گھریلو اقتصادی خدشات اور جنگ کے پھیلنے کا خطرہ ہے۔ بین الاقوامی تجزیہ کار جان میرشیمر نے کہا: ’’ امریکہ کی یوکرین کے لیے غیر متزلزل حمایت اس کے مشرقی یورپ میں روسی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے وسیع تر اسٹریٹجک مفادات کی عکاس ہے‘‘۔ تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ سفارتی حل کے بغیر طویل فوجی امداد ایک بڑے پیمانے پر جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ زیلنسکی نے اپنے دورے کے دوران سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی اہم ملاقات کی۔ رائٹرز کے مطابق، اس ملاقات میں یوکرین اور روس کے درمیان ممکنہ امن مذاکرات زیر بحث آئے۔ ٹرمپ نے کہا :’’ اگر میں چاہوں ا تو 24گھنٹء میں اس جنگ کو ختم کر سکتا ہوں‘‘۔ ٹرمپ نے زیلنسکی کو خبردار کیا کہ اگر سفارتی حل تلاش نہ کیا گیا تو جنگ تیسری عالمی جنگ میں بدل سکتی ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں نے اس بیان کو عملیت پسند سفارت کاری قرار دیا جبکہ دوسروں نے اسے روسی جارحیت کے سامنے جھکنے سے تعبیر کیا۔CNN کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انہیں وولوڈیمیر زیلنسکی کا خط موصول ہوا ہے جس میں یوکرین نے امن مذاکرات میں شمولیت کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔ اگر یہ دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے تو یہ جنگ میں ممکنہ پیش رفت کی طرف اہم اشارہ ہو سکتا ہے۔ سیاسی ماہر ریچرڈ ہاس نے اس حوالے سے کہا: یہ ایک مثبت اشارہ ہے، لیکن اصل چیلنج یہ ہوگا کہ دونوں فریق مذاکرات میں کیا شرائط طے کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں زیلنسکی نے کچھ شرائط کرتے ہوئے امن بات چیت پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ لیکن کیا اتنی انتھک کوششوں کے باوجود زیلنسکی یوکرینی عوام میں مقبولیت رکھتے ہیں؟۔ زیلنسکی نے امریکہ کے بعد برطانیہ کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے برطانوی وزیراعظم سے ملاقات کی۔ برطانیہ نے 5 ارب پانڈ کی مالی امداد اور اسٹورم شیڈو میزائل اور چیلنجر 2ٹینک فراہم کرنے کا اعلان کیا، جس سے یوکرین کی لیے برطانوی امداد کا مجموعہ 12ارب پائونڈ ہو گیا۔ Survation(25۔27فروری 2025) کے ایک تازہ ترین سروے کے مطابق، یوکرین کے 52%شہریوں نے زیلنسکی کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار کیا (30%نے مضبوط جبکہ 22% نے کچھ حد تک مثبت)، جبکہ 31%نے ان کے بارے میں منفی رائے دی۔ تاہم، سابقہ یوکرینی فوجی سربراہ ویلری زالوزھنی کی مقبولیت 62%رہی، جو زیلنسکی سے زیادہ تھی۔سروے کے مطابق، 16%یوکرینیوں نے جنگ جاری رکھنے کی حمایت کی، 39%نے جلد مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا، جبکہ دیگر 39%نے جنگ جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ فوجی کامیابیاں رکنے کی صورت میں مذاکرات کا بھی عندیہ دیا ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہر ٹموتھی ایش نے کہا:’’ برطانیہ کی ثابت قدمی یورپی یکجہتی کی علامت ہے، لیکن اس امداد کا تسلسل مغربی حکومتوں کو درپیش معاشی دبا پر منحصر ہے‘‘۔ روس نے ان دوروں کو محض سیاسی تماشہ قرار دیا، جبکہ جرمنی اور فرانس نے اضافی امداد کا اعلان کیا۔ تاہم، 2024یوروبیرو میٹر سروے کے مطابق، 54%جرمنوں اور 48%فرانسیسی شہریوں نے مزید فوجی امداد کی مخالفت کی۔ تنازعے کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ اگر ٹرمپ امن مذاکرات میں سنجیدگی کا اظہار کرتے ہوئے برطانیہ اور یورپ کو بھی اپنی سٹیج پر بٹھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو جنگ بندی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن وہیں اس معاملے میں ٹرمپ کی ذمہ دارانہ حمیت بھی دائو پر لگ جائے گی۔ جنوبی ایشیائی ماہر سی راجہ موہن نے کہا: ’’ طویل جنگوں میں ترقی پذیر ممالک اکثر اقتصادی جھٹکوں اور نظر انداز شدہ انسانی بحرانوں سے دوچار ہوتے ہیں‘‘۔ یوکرین کی خودمختاری اور عالمی نظم و نسق کی بحالی کا انحصار سفارتی حل پر ہے، جو امن اور انصاف کے اصولوں کو متوازن بنائے۔ اگر زیلنسکی کا امن مذاکرات میں شامل ہونے کا خط حقیقت پر مبنی ہے تو یہ جنگ کے خاتمے کے امکانات میں اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔







