Column

Fasting

تحریر : صفدر علی حیدری
میرا وزن گر رہا تھا اور میں خوش تھا کہ میں سمارٹ ہو رہا ہوں۔ کچھ عرصہ قبل ایک سو دو کلو وزن تھا۔۔ پھر یہ چھیانوے کلو، پھر کچھ عرصہ چورانوے کلو رہا۔ گھر والے اور دوست احباب مسلسل کہہ رہے تھے کہ چیک کروا کہیں شوگر تو نہیں ہو گئی۔ میں ہنس کر ٹال دیتا کہ شوگر کی کوئی علامت مجھ میں ظاہر نہیں ہوئی تھی۔ پھر ان کا اصرار برقرار رہا تو میں گلوکو میٹر سے چیک کیا۔ اس نے لو شوگر بتائی۔ اب امی نے کہا تم مجھ پہ گئے ہو۔ میری بھی شوگر لو رہتی ہے۔ تمہارے ابو کو تو ہائی شوگر ہوا کرتی تھی۔ میں نے دبا کے چائے پینا شروع کر دی کہ میری تو شوگر کم ہے ۔
تین ماہ بعد پھر بیگم صاحبہ کے کہنے پر چیک کیا تو تب بھی شوگر لو ہی نکلی۔ اتفاق سے اسی دن میرا اپنے شاگرد ڈاکٹر سمیع صاحب کے پاس بلڈ پریشر کی دوائی لینے جانا ہوا۔ جب انھیں یہ بات بتائی تو انہوں نے لیب ٹیسٹ کا کہا ۔ پتہ چلا شوگر تین سو کا ہندسہ چھو رہی ہے۔ سو چار ماہ میں ہومیو دوائی لے رہا ہوں، شوگر نارمل ہو چکی ہے۔ یقیناَ یہ ڈاکٹر سمیع کی تشخیص کا کمال ہے، لیکن اگر میں ڈاکٹر خالد جمیل کا ذکر نہ کروں تو ناانصافی ہو گی۔
ایک دن یو ٹیوب پر ان کی ایک ویڈیو دیکھی جو بہت پسند آئی۔ پھر ان کا چینل سبسکرائب کیا اور ان کی ویڈیوز دیکھنا شروع کر دیں۔ پتہ چلا وہ ڈاکٹر ڈرگ اور ڈیزیز سے بچائو چاہیے ہیں۔ ان کے بقول بنا دوائی آپ اپنی شوگر کو ریورس کر سکتے ہیں۔ آپ کو
کرنا یہ ہو گا کہ کیٹو ڈائٹ لینی ہے، فاسٹنگ، واک اور باڈی بلڈنگ کو اپنی زندگی کا دستور بنانا ہے۔ مجھے دو باتیں بہت پسند آئیں۔ ایک فاسٹنگ اور دوسرا واک۔ میں نے اس پر عمل شروع کر دیا۔ وہ بھی حکیم محمد سعید کی طرح دو وقت کھانا تجویز کرتے ہیں۔ ان کے مطابق شام چھ بجے رات کا کھانا کھا لینا چاہیے۔ اس کے بعد رات کو کچھ بھی مت لیں۔ چوں کہ انسان کو سات آٹھ گھنٹے سونا ہوتا ہے سو شام سے صبح تک کا فاقہ دن کی نسبت آسان ہوتا ہے۔ میں نے بھی دو وقت کھانا شروع کر دیا۔ اسکول سے واپسی پر تین بجے رات کا کھانا میں نے اپنا معمول بنا لیا۔ وہ دس ہزار قدم چلنے کی بات کرتے ہیں۔ میں نے صبح شام واک کرتے ہوئے بیس ہزار قدم اٹھانا شروع کر دئیے۔ ناشتے میں تین انڈے استعمال کرنے لگا۔ وہ مکھن، دیسی گھی، کلیجی، مغز، پائے کا شورہ تجویز کرتے ہیں۔ وہ ستر فی صد فیٹس لینے کی بات کرتے ہیں ۔ میں ابھی تک اس پر عمل نہیں کر سکا۔ ویٹ ٹریننگ بھی شروع نہیں کی۔ وہ گندم کی روٹی چھوڑنے کا کہتے ہیں مگر میں صبح شام ایک ایک روٹی ضرور کھاتا ہوں۔ اگر دیکھا جائے تو میں نے ابھی تک ان کی ہدایت پر صرف تیس فیصد عمل کیا ہے، مگر اس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے ہیں۔ اگر میں ستر فی صد بھی عمل کر
لوں تو میری شوگر ریورس ہو سکتی ہے۔
ان کی یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ روزے کا سب سے بڑا فائدہ شوگر کے مریضوں کو ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں روزہ تو ہے شوگر کے مریضوں کے لیے ہے۔ جب کہ عام طور پر ہم نے یہی دیکھا ہے کہ شوگر کے مریض کو روزہ نہ رکھنے کا کہا جاتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ آج کل فاسٹنگ پر بڑا زور دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جیسن فنگ کا یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس اکیلے آدمی نے پوری دنیا میں فاسٹنگ کو نہ صرف متعارف کرایا ہے بلکہ یہ بھی منوایا ہے کہ انسان فاسٹنگ سے ہر مرض کا علاج کر سکتا ہے۔
مذہبی طور پر تو ہم روزے سے ہزاروں سال سے واقف ہیں۔ قرآن مجید کی گواہی موجود ہے کہ روزے گزشتہ امتوں پر بھی فرض تھے۔ سو الہامی مذہب کے ماننے والوں کے لیے روزہ کوئی انوکھی چیز نہیں۔ ہندو دھرم تک میں یہ معروف ہے۔ یہ دیگر بات کہ ہم اسے مذہبی فریضہ سمجھ کر ادا کیا کرتے تھے۔ ہم اس کے حیرت انگیز جسمانی فوائد سے اس قدر آشنا نہیں تھے۔ عام طور پر ڈاکٹر جیسن فنگ جس فاسٹنگ کی بات کرتے ہیں وہ دراصل واٹر فاسٹ ہے۔ اس میں پانی، سبز چائے اور بلیک کافی لی جا سکتی ہے۔ ہم کو روزہ رکھتے ہیں وہ ڈرائی فاسٹک ہے جس میں کچھ بھی کھانے پینے کی اجازت نہیں ہوتی۔
ماہ مقدس آ چکا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو شوگر کے مرض کا شکار ہونے کے قریب ہیں۔ ان سب کے لیے اور دیگر امراض میں مبتلا مریض بھی اس ماہ مقدس کا فائدہ اٹھائیں۔ روزہ رکھیں اور اپنا مرض بھگائیں۔ روزے کے سو فیصد ثمرات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ افطاری کے وقت پرخوری سے بچا جائے۔ سموسے پکوڑے ، فاسٹ فوڈ اور ڈرنکس سے بچنا ضروری ہے۔ سحری کے وقت ایک آدھ روٹی کھانا اور افطاری کے وقت بھی تھوڑا کھانا انتہائی مفید ہو گا۔ ہم سارا سال بے احتیاطی کرتے ہیں۔ اس ایک ماہ میں احتیاط سے ہم اپنے جسم کو ان ساری بے احتیاطیوں کے مضر اثرات سے پاک کر سکتے ہیں۔
انسان نے اپنے لیے جو کھانے کے مقرر رکھے ہیں ان کی پابندی ہرگز ضروری نہیں۔ ہفتے میں ایک آدھ روزہ رکھنا کسی نعمت سے کم نہیں۔ آپ یہ جان لیجیے کہ روزہ ایک مکمل پیکیج ہے۔ اس سے وہ سارے فوائد حاصل کرنے چاہئیں جو اس سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ ہم اپنی روح کو پاک کر سکتے ہیں، سوچ کو اجلا کرنا ممکن ہے۔ پورے جسم کی اوور ہالنگ کی جا سکتی ہے۔ بھوک کے احساس سے ہمیں نادار لوگوں کے بھوک کا احساس ہو سکتا ہے۔ الغرض ہم روزے سے سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ رضائے الٰہی حاصل کر سکتے ہیں۔ اپنی عاقبت سنوار سکتے ہیں۔
آخر میں ایک افسانہ بھوک ملاحظہ فرمائیں:
بھوک
( صفدر علی حیدری )
دو دوست سفر پر کہیں جاتے ہیں۔ راستے میں رات پڑ جاتی ہے۔ وہ ایک بستی میں رات رکنے کے ارادے سے جاتے ہیں۔ ایک دوست کو ایک آدمی مہمان بنا لیتا ہے۔ دوسرا دوست مجبورا گائوں کی مسجد میں رات گزارنے چلا جاتا ہے۔ صبح اس کا دوست اسے آن ملتا اور خوشی سے بتاتا ہے کہ اس کے میزبان نے اس کی خوب خاطر مدارت کی ہے۔ تم بتائو تم نے کیا کھایا۔ وہ سر جھکا کر بولا ساری رات نیند نہیں آئی۔ بھوک نے بے چین کئے رکھا۔ مسجد میں ایک صاحب حال شخص بیٹھا تھا۔ اس نے کہا’’ اللہ تعالیٰ تمہارا میزبان تھا۔ اس نے تمہیں سب سے اچھا کھانا کھلایا۔ کیا مطلب۔ میں نے تو کچھ بھی نہیں کھایا، اللہ نے تمہیں بھوکا رکھا کیوں کہ اس کے خزانے میں بھوک سے بڑھ کر کوئی سالن تھا ہی نہیں‘‘

جواب دیں

Back to top button