Column

شعور کا زوال

تحریر : آصف علی درانی
جہالت اور عدم شعور کسی بھی معاشرے کے لیے زہر قاتل ہیں، مگر ہمارے ہاں تو شاید یہی سب سے بڑی نعمت سمجھی جاتی ہے۔ آخر کیوں نہ ہو؟ سوچنے، سمجھنے اور سوال کرنے کی زحمت سے بچنے کا اس سے آسان طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے! یہ وہ بیماریاں ہیں جو قوموں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں، لیکن ہم نے تو جیسے انہیں گلے لگانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا افسوس تب ہو جب انسان کو شعور ہو کہ وہ پیچھے رہ گیا ہے، لیکن ہمارے ہاں تو مسئلہ یہ ہے کہ ہم نہ صرف پیچھے رہ گئے ہیں بلکہ اسے اپنی ’’ روایات‘‘ کا نام دے کر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے، ہمارا معاشرہ بھی انہی مسائل کا شکار ہے، جہاں علم کی کمی اور سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت سے محرومی نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ تعلیم کی کمی اور غیر معیاری تعلیمی نظام اس صورتحال کے بنیادی اسباب میں شامل ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں تعلیم کو محض ڈگریوں تک محدود کر دیا جائے اور شعور بیدار کرنے پر کوئی توجہ نہ دی جائے، وہاں علم کی جگہ توہم پرستی، غیر منطقی روایات اور دقیانوسی خیالات لے لیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں تحقیق اور جستجو کی کوئی گنجائش نہیں رہتی، اور یوں معاشرہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔
عدم شعور صرف تعلیمی میدان تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں نظر آتا ہے۔ لوگ اپنی بنیادی ذمہ داریوں اور حقوق سے لاعلم ہوتے ہیں اور حقیقت کو پہچاننے میں ناکام رہتے ہیں۔ نتیجتاً، وہ آسانی سے پراپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں، غلط فیصلے کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے اہم معاملات دوسروں کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان اس کا سیاست میں دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں عوام بغیر تحقیق کے کسی بھی لیڈر یا نظریے کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ نہ وہ حکمرانوں کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہیں اور نہ اپنی رائے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بدعنوان اور نااہل افراد اقتدار میں آ جاتے ہیں اور ملک و قوم کا نقصان کرتے ہیں۔ اگر عوام میں سیاسی شعور بیدار ہو جائے اور وہ اپنی رائے اور ووٹ کی طاقت کو سمجھیں تو نہ صرف وہ اپنے لیے بہتر قیادت کا انتخاب کر سکتے ہیں بلکہ ملک کو ترقی کی راہ پر بھی گامزن کر سکتے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا: ’’ زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ نہیں کہ لوگ بے علم ہیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ بے شعور ہیں اور اپنی بے شعوری پر فخر کرتے ہیں‘‘۔
یہ مسئلہ صرف سیاست تک محدود نہیں، بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی اس کے اثرات صاف نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں اختلاف رائے کو دشمنی سمجھا جاتا ہے۔ دلیل سے بات کرنے کا کوئی رواج نہیں، کیونکہ دلیل سے سوچنے کی صلاحیت درکار ہوتی ہے، اور وہ تو ہم نے بچپن میں ہی کہیں دفن کر دی تھی۔ خواتین کے حقوق ہوں، اقلیتوں کے مسائل ہوں، یا سماجی انصاف کی بات ہو ہر جگہ جذبات، تعصب اور دقیانوسی سوچ کی حکمرانی ہے۔ لیکن افسوس، ہمیں اس پر بھی کوئی پریشانی نہیں۔
اس کے علاوہ، لوگوں کی مالی بے شعوری انہیں غلط سرمایہ کاری اور غیر ضروری اخراجات کی طرف لے جاتی ہے، جس سے غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں بھی عوام کی بے شعوری واضح ہے، جہاں بغیر تحقیق کے کسی بھی جھوٹی خبر کو سچ مان لیا جاتا ہے اور بغیر کسی تصدیق کے آگے پھیلا دیا جاتا ہے، جس سے معاشرتی بے چینی اور بدگمانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ سوشل میڈیا پر بغیر سوچے سمجھے کسی بھی معلومات کو آگے بھیج دیتے ہیں، چاہے وہ معلومات غلط ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کے نتیجے میں افواہیں پھیلتی ہیں، غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اور معاشرتی بے سکونی میں اضافہ ہوتا ہے۔
اب اس سب کا حل کیا ہے؟ تعلیم؟ مگر وہ تعلیم جو صرف ڈگریاں دینے کے بجائے سوچنے کی صلاحیت بھی پیدا کرے۔ وہ تعلیم جو یہ سکھائے کہ سوالات کیسے کیے جائیں، معلومات کو کیسے پرکھا جائے اور مسائل کو حل کرنے کے لیے منطق اور استدلال کا استعمال کیسے کیا جائے۔ مگر افسوس، ہمارے ہاں ایسی تعلیم کو ’’ باغیانہ سوچ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالنے کا مشورہ دیں تو لوگ ہنستے ہیں، کیونکہ کتاب سے زیادہ دلچسپ تو وہ ویڈیوز ہیں جو سچ اور جھوٹ کا کوئی فرق کیے بغیر ہمارا ’’ علم‘‘ بڑھاتی ہیں۔
کارل پوپر کے بقول، ’’ سوال کرنے کی عادت ایک باشعور معاشرے کی بنیاد ہے، اور وہ معاشرہ جو سوالات کو دبانے لگے، زوال کی طرف بڑھنے لگتا ہے‘‘۔
میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو سچائی دکھائے، مگر یہ تب ممکن ہے جب میڈیا خود بھی سنسنی خیزی اور پروپیگنڈے کے نشے سے باہر نکلے۔ والدین اور اساتذہ کا کردار بھی اہم ہے، مگر جب وہ خود ہی پرانی دقیانوسی سوچ کے قیدی ہوں تو وہ بچوں کو کیا سکھائیں گے؟ اور عوام؟ انہیں شعور دینا ہوگا کہ ان کے ووٹ کی قیمت نعرے یا جذباتی تقریروں سے زیادہ ہے، لیکن شاید یہ سمجھنا ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔
جہالت اور عدم شعور کسی بھی قوم کی ترقی کے دشمن ہیں۔ اگر ہم ایک خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں تعلیم، تحقیق اور شعور کی راہ کو اپنانا ہوگا۔ یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر فرد کو اپنی سطح پر اس کے لیے کوشش کرنی ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی میں علم کو فوقیت دیں، سوالات کریں اور حقیقت کی تلاش میں رہیں۔ جب تک ہم خود کو اور اپنے معاشرے کو علمی اور شعوری لحاظ سے بہتر نہیں بنائیں گے، ہم ترقی کی اس دوڑ میں پیچھے ہی رہیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ایسے اقدامات کریں جو ہمارے اور ہمارے ارد گرد کے لوگوں کے شعور میں اضافے کا سبب بنیں، کیونکہ ایک باشعور معاشرہ ہی حقیقی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت بن سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button