حکومت کفایت شعاری پر عمل پیراں ہے

تحریر : شاہد ندیم احمد
اتحادی حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے، کفایت شعاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی دعویدار ہے، لیکن حکومت کے عملی اقدامات ان دعووں سے میل نہیں کھاتے ہیں، ارکان پارلیمان کی تنخواہوں میں اضافہ اور وفاقی کابینہ میں توسیع کا مطلب حکومت کے اخراجات میں اضافہ ہے، ہماری قومی پیداوار پہلے ہی اخراجات سے کہیں کم ہے، ایسے میں ارکان پارلیمان کی تنخواہوں اور وفاقی کابینہ کے حجم میں غیر معمولی اضافے سے قومی خزانے پر جو بوجھ پڑے گا اُس کو پورا کرنے کیلئے مزید قرضوں کی ہی ضرورت پڑے گی، اگر آبادی، رقبے، عالمی اثر و رسوخ اور معیشت کے اعتبار سے ہم سے کہیں بڑے ممالک، ہماری نسبت آدھی کابینہ کے ساتھ اپنا نظام چلا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں چلا رہے ہیں؟ قومی خزانے پر بوجھ کم کرنے کیلئے حکومتی اخراجات کا کڑا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، اگر کابینہ میں اضافہ انتہائی ضروری ہے تو پھر ملکی معیشت کی ابتر حالی کے پیشِ نظر وزرا کی مراعات پر ہی نظر ثانی کی جانی چاہیے، حکومت جب تک اپنے عملی اقدامات سے ثابت نہیں کرے گی کہ وہ کفایت
شعاری پالیسی پر عمل پیرا ہے، عوام سے بھی کفایت شعاری کی امید نہیں کی جا سکتی ہے۔
ہر دور حکومت میں کا بینہ کم رکھنے کے دعوے کیے جاتے ر ہے ہیں اور اپنے اخراجات میں کمی لانے کے وعدے کیے جاتے رہے ہیں، لیکن وہ وعدے اور دعوے ہی کیا ، جو کہ پورے کیے جائیں گے، ایک طرف ارکان پارلیمان کی تنخواہوں میں اضافہ تو دوسری جانب کا بینہ بڑھائی جارہی ہے ، اس کے بعد اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری کے سارے پلان دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، گزشتہ دور اقتدار میں بھی وزیراعظم نے اپنے ہی اعلانات کی نفی کرتے ہوئی نہ صرف ارکان پارلیمان کی تنخواہیں بڑھائیں، بلکہ اپنی کابینہ میں بھی اضافہ کرتے رہے ہیں اور اس دور اقتدار میں بھی وہی کچھ کیا جا رہا ہے، اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ ایک بڑی تعداد ارکان پارلیمان اور کابینہ کی ہے، جوکہ تنخواہیں نہیں لیتے
ہیں، لیکن ساری مراعات ضرور لیتے ہیں۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ حکمران اپنے اقتدار کے سارے مزے بھی لوٹتے ہیں اور عوام کو بار آور کرانے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیںکہ وہ عوام سے الگ نہیں ہیں، اس پر ہنسا ہی جاسکتا ہے، کیا ہمارے اہل سیاست واقعی تنخواہوں اور سہولیات کے لیے ہی سارا کاروبار سیاست چلاتے ہیں؟ کروڑوں روپے انتخابی مہم پر خرچ کر کے، ہر آنے والے انتخاب میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا، کیا یہ تنخواہوں اور مراعات کے لیے ہے؟ اصل میں تو یہ سارا کھیل اختیارات اور وسائل پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے ہے اور اس کیلئے کوئی موقع ضائع نہیں کیا جاتا ہے ، ایک دوسرے کو بلیک میل کیا جاتا ہے اور اپنے مفاد کیلئے کا بینہ میں آیا جاتا ہے اور اپنے مفاد کیلئے ہی کا بینہ کو بڑھایا جاتا ہے ، جبکہ عوام کو کبھی کفایت شعاری تو کبھی خود انحصاری کے بیانیہ سے ہی بہلایا جاتا ہے ۔
کاش وطن عزیز میں ایسی عوام قیادت سامنے آئے جو کہ عوام کی فلاح و بہبود کا خیال کرے ، عوام کے مسائل کو جانے اور ان کے حل کرنے میں دلچسپی رکھے، وہ صرف اقتدار میں ذاتی مفاد کے لیے نہ آئے، بلکہ قومی مفادات کو ہی مد نظر رکھے، یہاں ہر سیاسی جماعت عوام کے نام پر اقتدار حاصل کرتی ہے، لیکن جب اقتدار مل جاتا ہے تو پھر لوٹ مار، عیاشیاں اور اپنے اقتدار کو دوام دینے میں لگ جاتی ہے، عوام کو بہلانے اور بہکانے میں لگ جاتی ہے ، اپنے مفادات کو تحفظ دینے میں لگ جاتی ہے ، اس وقت بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے، اس ملک میں جس دن اقتدار کی جگہ ذمہ داری نے لے لی حالات تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگے گی، لیکن وہ دن کب آئے گا اور کب عوام کا انتظار ختم ہو گا؟۔
عوام آزمائی قیادت سے انتہائی مایوس ہوتے جارہے ہیں اور یہ مایوسی کہیں اُمید میں بدلتی دکھائی بھی نہیں دے رہی ہے ، کیو نکہ جس ملک کے اٹھانوے فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہ ملے، بے روزگاری عام ہو، لوگ بڑھتی مہنگائی کے سبب خودکشی کر رہے ہوں، بغیر پیسے کے کسی دفتر میں بھی کوئی کام نہ ہو رہا ہو، تعلیم کے دروازے غریبوں کے لیے بند ہوں، اسپتالوں کی حالت خراب ہو، پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی ہو تو اس ملک کے حکمرانوں کو مراعات زیب دیتی ہیں نہ فضول اخراجات اچھے لگتے ہیں، لیکن یہاں کا بینہ کے ساتھ تنخواہیں بڑھائی جارہی ہیں اور غریب کو کفایت شعاری کا سبق دیتے ہوئے قرض پر قرض لیا جارہا ہے، عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے، یہ وقت عوام کی قربانی کا نہیں، حکمرانوں کی قربانی کا ہے، اس وقت کا تقاضا ہے کہ ہر سطح پر کفایت شعاری اور سادگی اختیار کی جائے، عوام پر بوجھ ڈالنے کے بجائے اشرافیہ خود بوجھ اُٹھائے، اس صورت میں ہی عوام کو کچھ راحت مل سکتی ہے، اگر اب بھی سنجیدگی سے نہیں سوچا گیا تو پھر سب کا اللہ ہی حافظ ہے۔







