اسلامیہ یونیورسٹی کے میرٹ چور

تحریر: روہیل اکبر
پاکستان میں جہالت، غربت، بے روزگاری اور ناانصافی اس وقت اپنے عروج پر ہے وہ اس لیے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں میرٹ چور بیٹھے ہوئے جو کسی کے حق پر ڈاکہ مارے ہوئے ہیں اور پھر ان کی سرپرستی میں چلنے والے تعلیمی اداروں سے انہی جیسے افراد جب باہر نکلیں گے تو پھر ملک میں تباہی نہیں آنی تو اور کیا ہوگا صرف اپنی ایک نوکری کے لیے پورے کے پورے ادارے کو تباہ کر دیا جاتا ہے میں مثال کے طور پر اسلامیہ یونیورسٹی کو پیش کرتا ہوں اس کے بعد پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں کا حال کھل کر آپ کے سامنے آجائے گا اسی لیے تو ہمارے تعلیمی اداروں کا شمار دنیا کی کسی بھی اچھے تعلیمی اداروں میں نہیں ہوتا بلکہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں پہلی 100تو کیا پہلی 500میں بھی ہمارا کہیں نام و نشان نہیں اور ہمیں اس حال تک پہنچانے والے کوئی عام، غریب، مجبور، بے بس لوگ نہیں ہیں بلکہ اس میں گورنر سمیت پڑھے لکھے پی ایچ ڈی ڈاکٹر حضرات شامل ہیں جن کی مہربانیوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا کہ آج ہمیں اگر کوئی کام کرنے والا محنتی وی سی پسند نہیں آتا تو اسے سیٹ سے اتروانے کے لیے مالی یا سیکس سکینڈل تک بنوا دیا جاتا ہے اور پنجاب یونیورسٹی کے جس وی سی کے خلاف اسی ادارے کی محنتی اور قابل ٹیچر خجستہ ریحان چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے اور نہ جانے کہاں کہاں درخواستیں دے ڈالی، لیکن اس کی ایک
نہ سنی گئی، لیکن ایک انتہائی پاک باز، محنتی اور قابل ڈاکٹر اطہر محبوب کے خلاف بے بنیاد سوشل میڈیا مہم پر کارروائی شروع کردی گئی۔ یہ ساری کارروائیاں وہی مخصوص لابی کرتی ہے جس کے مفادات ان یونیورسٹیوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ میں نے مثال کے طور پر اسلامیہ یونیورسٹی کو اس لیے پیش کیا ہے کہ باقی یونیورسٹی کا اندازہ آپ خود لگا لیں، پنجاب میں گورنر خالد مقبول تھے، انہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی میں 7جولائی 2006ء کو بلال اے خان کو وائس چانسلر تعینات کر دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس اس سیٹ کے لیے نہ کوئی درخواست تھی اور نہ وہ کسی شارٹ لسٹ میں تھے، لیکن موصوف چانسلر /گورنر کے قریب تھے، اس لیے ان کی خاطر خالد مقبول صاحب نے میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے انہیں اسلامیہ یونیورسٹی میں وائس چانسلر لگا دیا۔ جس کے بعد بہاولپور کے ن لیگی ایم این اے بلیغ الرحمان جو سابق گورنر پنجاب اور مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب بھی رہ چکے ہیں کی سفارش پر کیا کیا ہوتا رہا اس کی جھلک خالد محمود عالی صاحب کی اس درخواست میں نظر آ جائیگی، جو انہوں نے اس حوالے سے اعلیٰ حکام کی آنکھیں کھولنے کے لیے دے رکھی ہے، لیکن تین سال گزرنے کے باوجود
ابھی تک اس پر کارروائی نہیں ہوسکی۔
جناب چانسلر صاحب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور و گورنر پنجاب لاہور
عنوان: مسٹر شجیع الرحمان اور محمد عارف رموز کی بطور ایڈیشنل رجسٹرار وغیرہ اور میڈم ذریت الذھرہ کی بطور ایڈیشنل کنٹرولر امتحانات اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور وغیرہ کی غیر قانونی تقرریاں
جناب والا: بندہ اس سلسلہ میں عرض گزار ہے کہ!
1۔ اسلامیہ یونیورسٹی کے 1977 Officer Appointment Statutesکے شیڈول میں دی گئی اسامیوں کی تعلیمی قابلیت و بھرتی کے قواعد و ضوابط وغیرہ درج ذیل مقرر ہیں ( حذف کر دئیے ہیں)۔
2۔ یہ کہ مسٹر شجیع الرحمن اور مسٹر محمد عارف رموز وغیرہ نے اسلامیہ یونیورسٹی میں 2007ء میں مذکورہ بالا شرائط پر پورا نہ اترتے ہوئے اسسٹنٹ رجسٹرار سکیل ( کنٹریکٹ) پر ماہانہ 8ہزار روپے پر ملازمت حاصل کی جبکہ ذریت الذھرہ کی مورخہ 03۔4۔2006کو مبلغ 25ہزار روپے ماہانہ پر بطور وارڈن سکیل 17( کنٹریکٹ) پر تقرری عمل میں لائی گئی جو کہ غیر قانونی و خلاف ضابطہ ہیں۔
3۔ یہ کہ مسٹر شجیع الرحمان اور مسٹر محمد عارف رموز وغیرہ کو سیاسی بنیادوں پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی انتظامیہ نے 2008ء میں مذکورہ بالا تقرری کی شرائط پر پورا نہ اترتے ہوئے بھی اسسٹنٹ رجسٹرار ( کنٹریکٹ) میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ ماہانہ مشاہرہ 10ہزار روپے فکس کی اسی طرح ذریت الذھرہ کی کو مبلغ 33ہزار روپے ماہانہ پر چیف وارڈن کی کنٹریکٹ پرتقرری عمل میں لائی گئی جو کہ غیر قانونی و خلاف ضابطہ ہیں۔
4۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے Contract Appointment Statutes-2006کے پیرا۔11کے مطابق کنٹریکٹ پر تعینات ہونے والوں کو ریگولر اسامی پر تعینات نہ کیا جائے گا اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے Contract Appointment Statutes-2006 کی گائیڈ لائن کا پیرا۔11ملاحظہ فرمائیں۔
۔5۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی انتظامیہ نے بغیر اشتہار کے مسٹر شجیع الرحمان اور مسٹر محمد عارف رموز وغیرہ کو 7مارچ 2009ء کو دو اضافی انکریمنٹس
دے کر اسسٹنٹ رجسٹرار کی اسامی پر ریگولر تعینات کر دیا اسی طرح ذریت الذھرہ کو مورخہ یکم جولائی 2007ء کو مبلغ 25485 ہزار روپے ماہانہ پر سکیل 18میں چیف وارڈن ( نان شیڈول) پوسٹ پر ریگولر تعینات کر دیا جو کہ غیر قانونی و خلاف ضابطہ ہیں بعد ازاں 2017 میں مسٹر شجیع الرحمن اور مسٹر محمد عارف رموز وغیرہ کو سنڈیکیٹ کے 67میٹنگ میں ڈپٹی رجسٹرار کی آسامیوں پر ریگولر تعینات کر دیا گیا جناب چانسلر و گورنر پنجاب کی ہدایات چٹھی نمبر GS(B)1۔20؍2006 ۔176مورخہ 26۔5۔ 2006کے تحت صرف یونیورسٹی کے اسسٹنٹ رجسٹرار ؍ اسسٹنٹ کنٹرولر اور اسسٹنٹ ٹریڑار سکیل 17کے ملازمین کو اگلے سکیل میں 50 ÷کوٹہ پر پروموشن و تقرری دینے کی ہدایات کی تھی مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے از خود اس کا دائرہ کار سکیل 18اور 19تک بڑھا دیا جس کی جناب چانسلر صاحب سے نہ تو تاحال منظوری حاصل کی گئی ہے اور نہ ہی یونیورسٹی کو ایسا کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ ( یونیورسٹی سینڈیکیٹ کے 42ویں اجلاس کے آئٹم نمبر 5کا فیصلہ لف ہے)۔
8۔ اس بابت اسلامیہ یونیورسٹی نے چٹھی نمبری /HRE 646مورخہ 6اگست 2020ء کے تحت 50فیصد کوٹہ کے تحت بذریعہ سرکلر ایڈیشنل رجسٹرار سکیل 19کی اسامیوں کے لئے خود ساختہ تعلیمی قابلیت و تقرری کے شرائط وغیرہ مقرر کرتے ہوئے درخواستیں طلب کر لیں
9۔ اس سرکلر کے تحت مسٹر شجیع الرحمن اور مسٹر محمد عارف رموز وغیرہ کو سلیکشن بورڈ اور سنڈیکیٹ کی غیر قانونی سفارشات پر سکیل 19میں بطور ایڈیشنل رجسٹرار کے عہدہ پر تعینات کر لیا گیا، واضح رہے کہ ایڈیشنل رجسٹرار کیلئے تعلیمی قابلیت و شرائط ملازمت وغیرہ تاحال جناب چانسلر سے منظور نہ ہیں، اسی طرح میڈم ذریت الذھرہ کو ایڈیشنل کنٹرولر امتحانات ریگولر بنیادوں پر تعینات کر دیا گیا ہے، جو کہ غیرقانونی اور لائق منسوخی ہے۔ استدعا ہے کہ! مندرجہ بالا تمام غیر قانونی تقرریوں کو منسوخ فرمایا جائے اور حق داروں کو اسامی ہذا پر تعینات فرمایا جائے، نیز غیر قانونی طور پر دی گئی اضافی انکریمنٹس وغیرہ واپس لی جائیں، تاکہ یونیورسٹی کو غیر ضروری مالی بوجھ سے بچایا جاسکے۔
درخواست گزار ( خالد محمود عالی اسسٹنٹ ٹریژار ( ر) اسلامیہ یونیورسٹی)۔
یہ تو تھی درخواست، اس کے بعد اگر صرف اسی یونیورسٹی کو مثال بنا کر تحقیقات کی جائے تو ہماری جہالت کا پوسٹ مارٹم ہو جائیگا کہ ہمیں تعلیم کے نام پر کیوں لوٹا جارہا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی میں بھرتیوں کا طریقہ کار اور اس کا آئین میرے پاس پڑا ہے، کالم لمبا ہورہا تھا اس لیے وہ شامل نہ کر سکا، اس پر ابھی اور بہت کچھ منظر عام پر آنے کو ہے، جسے پڑھنے کے بعد آپ کو علم ہوگا کہ اوپری سطح پر کیا ہوتا ہے، کیسے محنت کشوں کے حق پر ڈاکہ ڈال کر اپنے بھانجے اور بھتیجوں کو اہم سیٹوں پر لگوایا جاتا ہے۔ یہ صرف ایک یونیورسٹی کا حال نہیں، کسی کا بھی کچا چھٹہ کھول لیں، نہ جانے کیا کیا ناجائز اور غیر قانونی کام سامنے آئیں گے۔
روہبل اکبر





