ColumnImtiaz Aasi

اسحاق ڈار، اورنگ زیب اور کھاتہ دار

امتیاز عاصی
جب سے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا ہے قومی بچت کے کھاتہ داروں کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وزارت خزانہ نے ہر ماہ کے آخر میں کھاتہ داروں کی بچتوں پر منافع کی شرح کم کرنے کی ٹھان لی ہے۔ دراصل حکومت عوام کی بچتوں پر منافع کی شرح کم کرکے یہ باآور کرنا چاہتی ہے ملک سے مہنگائی کا خاتمہ ہو رہاہے حالانکہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ مرکزی بنک افراط زر پر کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک سال گزرنے کے باوجود حکومت پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں کمی لانے میں ناکام ہو چکی ہے نہ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی لا سکی ہے۔ البتہ سبزیوں کی قیمتوں میں کمی ضرور ہوئی ہے جس کا نقصان کسانوں کو ہوا ہے۔ گویا اس لحاظ سے ہماری معاشی حالت مایوس کن صورت حال کا شکار ہے۔ ملک کے وزیر اعظم ملکوں ملکوں سرمایہ کاری اور قرض کے حصول کے لئے دورے کر رہے ہیں تاہم اس کے باوجود انہیں کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ وزیر خزانہ کو ان غریب عمر رسیدہ اور ریٹائر سرکاری ملازمین کا ذرا
خیال نہیں وہ ہر ماہ ان کی بچتوں پر منافع کی شرح کم کرکے جانے کیا حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ اسحاق ڈار بھی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں وہ آئی ایم ایف کے نمائندہ نہیں تھے تبھی ان کے دور میں قومی بچتوں پر منافع کی شرح میں کمی بیشی ہوتی رہتی تھی۔ اسحاق ڈار کو یہ کریڈٹ جاتا ہے ان کے دور میں بہبود سیونگ اکائونٹ کی سیلنگ 50لاکھ سے بڑھا کر 75لاکھ کردی گئی تھی تاکہ غریب عوام مہنگائی کا مقابلہ کر سکیں لیکن موجودہ وزیر خزانہ نے تو حد کر دی ہے انہیں عمر رسیدہ اور بیوائوں کا ذرا خیال نہیں وہ ہر ماہ ان کی بچتوں پر منافع کی شرح کم کرتے آرہے ہیں۔ عجیب تماشا ہے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1975ء میں قومی بچت کا ادارہ قائم کرکے عوام کو اپنی بچتوں کی سرمایہ کاری کا ایک موقع فراہم کیا تھا لیکن موجودہ حکومت غریب عوام کو شائد زندہ در گور کرنے کی درپے ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں عوام سے ایک اور بہت بڑا دھوکہ اسلامک سروا اکائونٹ کی شکل میں کیا گیا ہے جس میں پہلے لوگوں سے اربوں روپے جمع کرنے کے بعد اس اکائونٹ میں مزید رقوم جمع کرانے کی پابندی لگا دی گئی۔ تعجب ہے اب کئی ماہ سے اسلامک سروا اکائونٹ میں منافع کی شرح کم کی جا رہی ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ حکومت کو یہ باآور کرنا چاہتے ہیں ان کے دور میں ملکی بینکوں کے قرضوں میں بہت کمی لائی گئی ہے اس کے برعکس غیرملکی قرضوں کا بوجھ پہلے سے کئی گنا بڑھ گیا ہے، جو موجودہ حکومت کی کمزور معاشی پالیسیوں مظہر ہے۔ ہمیں یاد ہے نگران وزیراعظم کی حیثیت سے شہباز شریف نے کے پی کے میں اپنے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کرنے کا اعلان کیا تھا اور اب ایک نیا اعلان ملک کو ترقی کے معاملے میں بھارت سے آگے لے جانے کی نوید سنائی ہے۔ تعجب ہے آئی ایم ایف حکومت کو غیر ضروری اخراجات میں کمی لانے کو کہتا ہے جب کہ حکومت ایک طرف ارکان اسمبلی کے مشاہروں میں ہوشربا اضافے کے بعد اب وفاقی کابینہ میں وزراء اور
مشیروں کی لمبی قطار لگا دی ہے۔ حقیقت میں سیاست دانوں کو ملک اور عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہے انہیں اپنے منصب اور عہدوں کی فکر لاحق رہتی ہے اقتدار سے ہٹ جائیں تو انہیں ہلکان ہو جاتا ہے۔ ایک عام خیال یہ بھی ہے حکومت عوام سے انتخابات میں ووٹ نہ دینے کی پاداش میں غریب عوام سے بدلہ چکا رہی ہے۔ حکومت کی یہ خام خیالی ہے عوام موجودہ حکومت خوش ہیں حالانکہ عوام حکومت سے متنفر ہیں۔ جب سے حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے غریب عوام کے لئے کون سے اصلاحات کی ہیں۔ مسلم لیگ نون وفاق اور صوبے میں قومی خزانے سے اربوں کے اشتہارات دے کر عوام کو یہ باآور کرانا چاہتی ہے ملک ترقی کر رہا ہے اور عوام خوش حال ہو رہے ہیں حالانکہ نہ ہمارا ملک ترقی کر رہا ہے نہ ہی عوام خوش حال ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت کی کارکردگی اس وقت بہتر ہو گی جب غیر ملکی قرضوں کا بوجھ کم ہوتا دکھائی دے رہا ہو۔ اس وقت ملکی برآمدات پر جمود طاری ہے ورنہ برآمدات میں اضافہ ہوتا تو زرمبادلہ کی ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا۔ اگر ہم اصل صورت حال کی طرف آئیں تو ہماری معیشت کو سہارا دینے میں سپہ سالار کا اہم کردار ہے۔ افواج پاکستان سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کی طرف توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی میں پہلے سے اضافہ ہو گیا ہے کوئی ملک ہمارے ہاں سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں۔ اربوں کے اشتہار دے کر یہ باآور کرایا جا رہا ہے ملک ترقی کر رہا ہے جب کہ اس کے برعکس ملک معاشی طور پر ڈوب رہا ہے ( اللہ نہ کرے) مسلم لیگ نون کا یہ بہت پرانا وتیرہ ہے عوام کو یہ بات باآور کرنے کی کہ ملک ترقی کر رہا ہے اور عوامی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس پی ٹی آئی والوں کا دعویٰ ہے وزیراعلیٰ ان کے دور کے منصوبوں پر ازسرنو سنگ بنیاد رکھ رہی ہیں۔ دراصل پی ٹی آئی ہو، مسلم لیگ نون یا پیپلز پارٹی سب کو اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں۔ بھلا کیا تک تھی وفاقی کابینہ میں توسیع کی عوام نے جنہیں مینڈیٹ دیا تھا ان کی بجائے فارم 47کے ذریعے کامیاب ہونے والوں کو وزارتیں دے دی گئی ہیں۔ اگلے روز فیس بک پر خواجہ سعد رفیق اور خرم دستگیر کو دیکھ رہا تھا، جنہوں نے فارم 47کی بدولت کامیاب ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ جس ملک میں کرپشن کا دور دورہ ہو اور احتساب نام کی کوئی چیز نہ ہو ایسے ملک ترقی پر گامزن ہو سکتے ہیں، بالکل نہیں۔

جواب دیں

Back to top button