ColumnTajamul Hussain Hashmi

آئینی فیصلہ یا بادشاہت

تجمل حسین ہاشمی
صوبہ پنجاب میں 10سال سے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جمہوری حکومت نچلی سطح پر اختیارات منتقل کرنے سے گریز کرتی ہے، دوسری وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ مسلم لیگ ن پنجاب میں تحریک انصاف کی مقبولیت کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے گریزاں ہے۔ گزشتہ سالوں میں صوبہ پنجاب میں ہونیوالے ضمنی اور جنرل الیکشن میں ووٹوں کا نتیجہ اور تبدیلی کے بیانیہ نے مسلم لیگ ن کو سیاسی طور پر دبائو میں رکھا ہوا ہے، کوئی دو رائے نہیں کہ پی ٹی آئی اپنا بیانیہ بنا چکی ہے لیکن سیاست میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ سیاسی جماعتوں میں یہ کمی ماجود ہے بلکہ یوں کہ لیں جب چاہوں مکر جا ، جو چاہوں وعدے کرو ان کا کوئی اخلاقی احتساب نہیں ہوسکتا، میکاولی کے نظریات ہیں کہ سیاست میں سب چلتا ہے، ماسوائے اخلاق کے، 2013کے انتخابات سے پہلے پیپلز پارٹی پنجاب میں کمزور سمجھی جارہی تھی لیکن خان کے دھرنے نے پیپلز پارٹی کی اہمیت میں جان ڈال دی۔ 2018کے الیکشن میں پیپلز
پارٹی کی قیادت نے پنجاب کو اپنا محور بنائے رکھا۔ اس بات کا بھی مسلم لیگ ن پر ایک سیاسی پریشر ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں یقیناً پیپلز پارٹی بڑا حصہ وصول کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ دوسری طرف جماعت اسلامی نے لاہور ہائیکورٹ میں صوبہ پنجاب میں 90دن کے اندر بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے درخواست دائر کی ہے ۔ پنجاب حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی ایکٹ 2024میں ترامیمی بل پنجاب اسمبلی سے جلد پاس کرانے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے، اس نئے قانون کے تحت اضلاع کی بجائے تحصیلوں میں ٹانز چیئرمین بنائے جائیں گے، ہر یونین کونسل میں نو ممبران ہوں گے جو اپنا چیئرمین منتخب کریں گے۔ یونین کونسل سے منتخب نمائندے تحصیل اور ٹائون کے چیئرمین منتخب کریں گے۔ ابھی تک کوئی عملی شکل نظر نہیں آرہی۔ اپوزیشن جماعتیں پنجاب میں بلدیاتی
انتخابات نہ کرائے جانے پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ پی ٹی آئی دور میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول دینے کے باوجود اب تک صوبے میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوا ، 26فروری 2025کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ موجودہ صوبائی حکومت نے حکومت سنبھالتے ہی لوکل گورنمنٹ ایکٹ پر کام شروع کر دیا تھا کیونکہ تمام شراکت داروں کی جانب سے رائے کا اظہار ضروری ہوتا ہے لہٰذا اب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کا بنیادی مسودہ پنجاب اسمبلی میں ضروری قانون سازی کیلئے بھجوا دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب حکومت قانون کو پیش کرنے کیلئے مزید کتنے دن یا مہینے لے سکتی ہے ۔ وزیر اعلی پنجاب کے ترقیات کام بھی جاری ہیں اور وہ خود بھی کافی متحرک ہیں ، وہ پنجاب کی صورت حال بہتر کرنے میں بہت ایکٹو ہیں ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، اپنی تشہیر پر بھی کافی فنڈز لگا چکی ہیں، بظاہر ایسا نظر آتا ہے وزیراعلیٰ پنجاب اپنی کارکردگی کی بنیاد پر بلدیات الیکشن میں بڑا حصہ وصول کرنا چاہتی ہیں لیکن وہ اس بات کو بھول رہی ہیں کہ 2013 کے بعد سے ان کی جماعت کے بیانہ کو وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی جس کی قیادت کو امید تھی ، تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن جب بھی حکومت میں رہی انہوں نے اپنی کچین کیبنٹ کو ترجیح دی۔ اپنے ساتھی رہنمائوں کو اہمیت نہیں دی۔ حقیقت سے واضح ہے کہ ان کے کئی طاقت ور رہنما جماعت سے الگ ہوچکے ہیں اور اپنی پارٹی بنا کے بیٹھ گئے ہیں۔ پارٹی چھوڑ کر جانے والا واپس نہیں آیا ۔ پارٹیاں تو چلتی رہتی ہیں لیکن مسائل عوام کے حصہ میں ہیں جو کئی دہائیوں سے برداشت کر رہی ہیں لہٰذا ابھی تک عوامی مسائل کا نچلی سطح پر حل کسی حکومت کی ترجیح نہیں ، یہی وجہ ہے کہ گلیاں، نالیاں، سولنگ جیسے بنیادی مسائل بھی ارکان قومی اسمبلی یا اراکین صوبائی اسمبلی کے ڈیرے پر جا کر ہی حل ہوتے ہیں۔ اس لئے تو ملک میں طاقت وروں کی اجارہ داری ہے جو کہ ختم نہیں ہورہی۔ طاقت وار اپنی طاقت سے غریب کا استحصال اور ملکی دولت کو لوٹ رہا ہے۔ غریب انہیں کو اپنا مرثیہ سمجتا ہے ۔ اداروں پر بھروسہ کا فقدان ہے ۔ حقیقت میں مسائل کا حل آئین کی پاسداری میں ہے، حکومت پنجاب بلدیاتی انتخابات کے حوالہ سے آئین کی پاسداری سے بھاگ رہی ہے اور جب تک نچلی سطح پر اختیارات نہیں دئیے جائیں گے حقیقی ترقی ممکن نہیں ہوسکتی۔ طاقت وار حلقے اگر ملک کی معاشی صورت حال میں بہتری چاہتے ہیں تو ان کو آئین پر عمل درآمد کرانا پڑے گا ۔

جواب دیں

Back to top button