آئیے سخاوت کریں اور سخی بنیں۔۔۔!

تحریر : امجد آفتاب
نبی کریمؐ نے فرمایا’’ دو خلق ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے۔ ایک سخاوت اور دوسری نیک خوئی۔ اور دو خلق ایسے ہیں جن کو وہ ناپسند کرتا ہے۔ ایک بخل اور دوسری بد خوئی‘‘۔
آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ سخاوت بہشت کا ایک درخت ہے، جس کی شاخیں دنیا میں لٹک رہی ہیں۔ جو مرد سخی ہے وہ ان ڈالیوں میں سے ایک ڈالی کو پکڑے گا اور اس کے ذریعے سے جنت میں پہنچ جائے گا۔ اور بخل دوزخ کا ایک درخت ہے جس کی شاخیں دنیا میں لٹک رہی ہیں۔ اور جو مرد بخیل ہوگا وہ اس کی ایک شاخ پکڑے گا، اور وہ اس کو دوزخ میں پہنچا دے گی‘‘۔
آپؐ یہ بھی فرمایا کہ ’’ سخی کی تقصیر معاف فرما دو کہ جب تک وہ تنگ دست ہوتا ہے تو اللہ اس کی دستگیری فرماتا ہے‘‘۔
آپؐ ارشاد فرمایا ہے کہ’’ سخی کا کھانا دوا کا حکم رکھتا ہے اور بخیل کا کھانا مرض ہے‘‘۔
آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’ سخی اللہ کے نزدیک ہے، اسی طرح وہ بہشت سے اور دوسرے لوگوں سے نزدیک ہے۔ اور دوزخ سے دور ہے۔ اور بخیل مرد اللہ سے، بہشت سے اور لوگوں سے دور ہے۔ اور دوزخ سے نزدیک تر ہے۔ اللہ تعالیٰ سخی جاہل کو بخیل عابد سے زیادہ دوست رکھتا ہے اور تمام بیماریوں میں بخل سب سے بڑی بیماری ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ میری اُمت کے ابدال لوگ نماز روزے کے باعث بہشت میں نہیں جائیں گے۔ بلکہ سخاوت، پاکیزگی قلب اور اس نصیحت اور شفقت کے باعث جنت میں جائیں گے جو اُن کو خلقِ خدا سے تھی۔ سخی اصل میں وہ شخص ہے جو بغیر کسی مطلب اور غرض کے بے لوث طرز پر اپنا مال دوسرے کو دے ۔ اور یہ عام انسانوں کے بس کی بات نہیں۔ کیونکہ یہ صفتِ رحمانی ہے اور عام بندوں پر گراں گزرنے والی۔ مگر جب کوئی اللہ پاک کا بندہ رضائے الٰہی اور جذبہ ہمدردی کے تحت معاوضہ اور بدلہ نہ چاہے اور فقط اللہ کی خوشنودی کیلئے ایسا کرے تو وہ سخی ہے۔ کیونکہ بالفعل وہ اپنے مال کے انفاق کا کوئی بدل نہیں چاہتا۔ اپنا مال دیکر اس کے بدلے کسی بات کی امید رکھنا معاوضہ ہوگا سخاوت نہیں۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’ ہر روز صبح کے وقت دو فرشتے آسمان سے نازل ہوتے ہیں تو ان میں سے ایک کہتا ہے : اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما، جبکہ دوسرا کہتا ہے : اے اللہ ! بخیل کو تباہی سے دوچار کر ‘‘۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ترجمہ : ’’ ایسا کون شخص ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے پھر اللہ اس کو کئی گنا بڑھا کر دے اور اللہ ہی تنگی کرتا ہے اور کشائش کرتا ہے اور تم سب اُسی کی طرف لوٹائے جائو گے۔‘‘ ( سورۃ البقرہ)۔
سخاوت و فیاضی یعنی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات پر اپنا مال و دولت خرچ کرنا انسانی معاشرے کے ماتھے کا جھومر کہلاتا ہے۔ بلاشبہ مخلوقِ خدا پر خرچ کرنا اور سخاوت و فیاضی کا مظاہرہ کرنا اللہ اور اُس کے رسولؐ کو انتہائی پسند ہے اور اُس کے بالمقابل مال و دولت اپنے پاس روک کے رکھنا اور کنجوسی کرنا اُتنا ہی ناپسند ہے۔
چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ترجمہ: ’’ ان لوگوں کی مثال جو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں ایسی ہے کہ جیسے ایک دانہ جو سات بالیں اُگائے ہر بالی میں سو سو دانے اور اللہ تعالیٰ جس کے واسطے چاہے بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت جاننے والا ہے۔ ( سورۃ البقرہ )۔
ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ محتاجوں کو ویسے ہی دیکھے جس طرح وہ فائدہ مند تجارت کی طرف دیکھتا ہے، جان لینا چاہئے کہ آج کے دن کی تھوڑی محنت روزِ قیامت کے لئے دو تین گنا فائدے کا باعث نہیں بلکہ کئی گنا فائدے کا باعث ہوگی۔
سخاوت افعال حسنہ اور صفات حمیدہ میں سے ایک انتہائی پسندیدہ عمل ہے، جو اللہ و رسولؐ کو بھی بہت عزیز ہے اور عند الناس بھی اس کا حامل قابل تعریف گردانا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس اس کی ضد یعنی بخالت و کنجوسی اللہ و رسول ؐ کے ساتھ ساتھ عوام الناس کے نزدیک بھی نا پسندیدہ عمل ہے۔ سخاوت کو اللہ پاک بہت پسند فرماتا ہے اور کنجوسی کو بہت ہی ناپسند کرتا ہے۔ اللہ پاک سخی کو جنت عطا فرمائے گا اور کنجوس کو جہنم میں بھیج دے گا۔ احادیث طیبہ میں سخاوت کی بہت فضیلت اور بخالت کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے۔ سخاوت، یعنی دوسروں کو اپنے وسائل، وقت، یا مدد دینے کا عمل، معاشرتی فوائد فراہم کرتی ہے۔
سخاوت معاشرت میں محبت، اعتماد اور بھائی چارے کو فروغ دیتی ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، تو ان کے درمیان مثبت تعلقات استوار ہوتے ہیں، جو معاشرتی ہم آہنگی اور امن کا باعث بنتا ہے۔
سخاوت کرنے والے افراد عموماً ذہنی سکون اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف وصول کنندہ کے لئے فائدہ مند ہوتا ہے، بلکہ دینے والے کی زندگی میں بھی اطمینان اور خوشی بڑھاتا ہے، جس سے معاشرتی خوشحالی میں اضافہ ہوتا ہے۔ سخاوت کے ذریعے معاشرتی مسائل جیسے غربت، بیماری یا تعلیم کی کمی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ جب لوگ دوسروں کی مدد کرتے ہیں، تو اس سے کمیونٹی میں مشکلات کا سامنا کرنے والوں کو سہولت ملتی ہے، اور مجموعی طور پر معاشرتی ترقی اور بہتری میں مدد ملتی ہے۔
قارئین! اس وقت پاکستان میں مہنگائی کا ایسا طوفان سروں پر مسلط ہے تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور اس طوفان کی گردش میں غریب تو پہلے سے ہی خوار تھا اب سفید پوش طبقہ بھی ننگا ہو گیا ہے۔ اس طبقہ کے حالات بہت خراب ہیں اور وہ اپنے حالات کسی گناہ کی طرح چھپا رہا ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ ہم پہ سایہ فگن ہے۔ یہ مُواسات ، ایثار، محبت، انفاق اور سخاوت کا مہینہ ہے۔ کتنے ہی سخت دل لوگ اس مہینے کی برکت سے پگھل جاتے ہیں۔ آئیے سخاوت کریں اور سخی بنیں، ان کے ہاتھ تھام کر دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کریں۔







