Column

ملاوٹ

تحریر : صفدر علی حیدری
ملاوٹ ہرگز مسنون نہیں۔ خواہ رشتوں میں ہو، جذبوں میں یا اشیاء میں۔
ملاوٹ سے میری مراد ایسی ملاوٹ کے جو انسان گناہ کی طرح چھپا کے کرتا ہے اور کر کے چھپاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ بات گناہ کے زمرے میں آتی ہے۔ ملاوٹ کی تاریخ خاصی قدیم ہے ، شاید انسان کی اپنی عمر جتنی۔
قابیل نے وصایت کے مسنون جذبے میں حسد کی ملاوٹ کر کے اس سلسلہ بد کا آغاز کیا تھا۔ شاید یہ انسانی تاریخ کی پہلی ملاوٹ تھی جو انسان کے جذبوں کے ضمن میں کی گئی تھی۔ پھر اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور شیطان کی آنت کی طرح طویل اور بے انت ہو گیا۔
آج حالت یہ ہے کہ یہ ہر معاشرے میں رائج ہے اور قیامت تک اس کے خاتمے کی کوئی امید نہیں نظر نہیں آتی۔
جن معاشروں میں غربت زیادہ ہو ، بے روزگاری کا ماحول ، امن امان کی صورت حال ناگفتہ بہ ہو ، سماجی انصاف نا پید ہو ان معاشروں میں عموماً بے ایمانی سرایت کر جاتی ہے ۔
اپنے بچپن میں سنا کرتے تھے کہ سرخ مرچوں میں لکڑی کا برادہ ملایا جاتا ہے ۔ پھر سنا کہ چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے جانوروں کا خون اور استعمال شدہ پتی ڈالی جاتی ہے۔ تب دودھ میں پانی ملانے کا چلن عام تھا۔ پیمانہ بھی کم ہوتا ہے۔ یوں مقدار اور معیار دونوں طریقوں سے لوٹا جاتا تھا۔ مرے ہوئے جانوروں کا رواج تو آج آن پڑا پہلے یہ ہوتا تھا کہ بیمار اور لاغر جانور بھی چھپ چھپا کے ذبح کر دئیے جاتے تھے۔ جدید دور کی ترقی سے پریشر والا گوشت، حرام جانوروں کا گوشت بھی لوگوں کو کھلا دیا جاتا ہے۔ مری ہوئی مرغیوں کے پیس بڑے چا سے ہوٹلوں پر پیش کیے جاتے ہیں ۔ کڑھائی تیار کی جاتی ہے ۔
جدید دور نے ہمیں اب اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ اب ہمیں چیزیں کے کم تولنے کی بجائے اس پر دھیان دینا پڑتا ہے کہ جو چیز ہم نے خریدی ہے وہ اصل میں وہی چیز ہے بھی یا نہیں۔ دودھ کو ہی لے لیں۔ آج کل کھلے بندوں مصنوعی دودھ بک رہا ہے۔ کیمیکل سے اس طرح دودھ تیار کیا جاتا ہے کہ آپ ان لوگوں کی بے ایمانی پکڑ بھی نہیں سکتے۔ اس مصنوعی دودھ سے دہی بھی بن جاتی ہے، دودھ گاڑھا بھی دکھتا ہے اور ملائی کی ہلکی سے تہہ بھی موجود ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ دودھ نہیں ہوتا۔ اس میں خالص دودھ کا ایک قطرہ بھی نہیں ہوتا۔
آج کل آپ کسی بھی مارکیٹ میں چلے جائیں آپ کو دو نمبر تین نمبر چار نمبر اشیاء بکثرت ملیں گے۔ آپ نے نمبر ون کے پیسے پورے دئیے ہوں پھر بھی آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ وہ چیز اسی کوالٹی کی ہے جس کے آپ نے منہ مانگے پیسے دئیے ہیں ۔ چائنا کی چیزیں دو نمبری میں پہلے نمبر پر ہیں۔ جبکہ جاپان کی چیزوں اپنے معیار کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہوتی ہیں۔ سعودی عرب سے لوگ جاپان کے بنے ہوئے ریڈیو ٹی وی وی سی آر جوسر وغیرہ لایا کرتے تھے ۔ ایسی اشیاء ہاتھوں ہاتھ بکتی تھیں ۔ ہم پاکستانی منہ مانگے پیسے دے کر انھیں خریدنا باعث فخر سمجھتے تھے ۔
اب المیہ یہ ہے کہ سعودی عرب کی مارکیٹیں چین کی بنی اشیاء سے بھری پڑی ہیں۔ وہی غیر معیاری اشیاء جو ہمارے یہاں پائی جاتی ہیں اب وہاں بھی موجود ہوتی ہیں۔ تسبیح سے لے کر جائے نماز تک اور جوتے سے لے کر سکارف تک سب کچھ چائنا کا۔
کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ایک میل کے ایریا میں آپ کو دس مساجد مل جائیں گی، بس نہیں ملے گا تو خالص دودھ ۔ ہم بے ایمانی کو اس حد تک اپنی زندگی میں شامل کر چکے ہیں کہ ہمیں شرمندگی بھی نہیں ہوتی۔ ہمارا ضمیر ملامت بھی نہیں کرتا۔
اب خیر سے ماہ رمضان شروع ہو چکا ہے۔ دس کی چیز تیس روپے میں ملے گی۔ ماہ رمضاں کی برکتیں، رحمتیں اور سعادتیں ہم اشیائے ضروریہ کے مصنوعی اضافے سے کرتے ہیں۔ روزے رکھ کر غریب عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں رمضان آفر اور رمضان کائونٹر بنائے جاتے ہیں جہاں پچاس فی صد تک رعایت دی جاتی ہے ۔ غیر اسلامی ممالک میں بھی مسلمان صارفین کا خیال رکھا جاتا ہے۔ افسوس اسلامی ممالک میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص ایسا کوئی منظر دکھائی نہیں دیتا۔ ماہ رمضان کمائی کا سیزن ہوتا ہے۔ عام دنوں کی نسبت اس میں خریداری کا رحجان بڑھ جاتا ہے۔ اسی نسبت سے اشیاء کی قیمتوں میں من چاہا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ یوں صارف کی جیبیں خالی کی جاتی ہیں اور اپنی تجوریاں بھری جاتی ہیں ۔
اب آخر میں ایک افسانچہ ملاحظہ ہو، جس میں پاکستانی معاشرے کا عکس نمایاں ہے۔۔۔۔
برکتاں ماہ رمضان دیاں
صفدر علی حیدری
افسانچہ۔۔۔
’’ یہ لو نیک بخت یہ سنبھال کے رکھ لو ۔ پرسوں لے لوں گا ۔ ستائس ہے ناں پرسوں ‘‘ ’’ یہ ۔۔ یہ کیا ہے ۔۔۔ ؟ بیوی نے خاکی لفافے کو حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا ۔’’ پیسے ہیں اور کیا ہے ۔۔ پورے ایک لاکھ بیس روپیہ سکہ رائج الوقت ۔۔۔ پرسوں غریبوں کو زکوٰۃ دیں گے ‘‘ ’’ ہیں ۔۔۔ ایک لاکھ بیس ہزار ۔۔ پچھلے سال تو ساٹھ ہزار روپے دئیے تھے ۔۔۔۔ اور اس سال تو کام دھندہ بھی مندا رہا ہے۔ آپ ہی کہتے تھے۔۔۔ ‘‘ ’’ یہ ساری ماہ رمضان کی برکت ہے ۔۔ پورا سال ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہے۔ مگر اس ایک مہینے میں کام اتنا چلا اور اتنی برکت پڑی کہ وارے نیارے ہو گئے۔ لوگ اس مہینے دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔۔ اور منہ مانگے پیسے دیتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں سارا سال رمضان ہو۔۔۔
’’پھر وہ گنگنانے لگا ‘‘
’’ جے دم جیسوں یاد کریسوں برکتاں ماہ رمضان دیاں ۔۔۔‘‘

جواب دیں

Back to top button