عالمی تحفظ ختم نبوت کانفرنس پچنند

تحریر : فیصل رمضان اعوان
الحمدللہ اس بار عالمی تحفظ ختم نبوت کانفرنس پچنند ضلع تلہ گنگ کی تیرہویں سالانہ کانفرنس میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔ قصبہ پچنند ایک پسماندہ اور دور افتادہ علاقہ ہے، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے لگ بھگ دو سو کلو میٹر دور مغربی سمت میں واقع اس علاقے میں تحفظ ختم نبوت کانفرنس کے اغراض و مقاصد کا علم ہونا ضروری تھا۔ بچپن سے یہ تو سن رکھا تھا کہ یہاں قادیانی فتنہ کا وجود بھی ہے، لیکن اس فتنہ کے دجل و فریب کی داستان کا علم ہرگز نہیں تھا، یہاں لوگوں کی زندگیاں اسی غفلت میں ہی گزر رہی تھیں اور قریب ہی ایمان فروشی جیسا گھٹیا ترین عمل جاری تھا اور مسلسل پھیل رہا تھا۔ سادگی اور آگہی نہ ہونے کی وجہ سے یہ غلاظت تعفن پھیلانے کا سبب بنتی رہی، برطانوی راج کے دوران چالاک انگریز نے مرزا قادیانی کو اپنا شر پھیلانے میں کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ اس دوران بہت سے مسلمان مرتد ہوئے اور ہمارے سچے مذہب اسلام کو نقصان پہنچایا گیا۔ پچنند میں قادیانی فتنہ کا آغاز یہاں کے مقامی ایک شخص محمد خان سے ہوا، جو برطانوی فوج کا ملازم تھا، یہ 1914ء میں قادیانی ہوا انگریز سرکار کی طرف سے اسے نوازا گیا اور اس نے پچنند میں باقاعدہ اپنی چودھراہٹ قائم کرلی۔ تب انتظامی امور انگریز کے ہاتھ میں تھے، جس کی وجہ سے یہاں قادیانیت کے شر کو پھیلانے میں آسانی تھی۔ اس دوران بیس کے قریب مسلمان قادیانی ہوئے ، جن کی اولادیں اکثریت میں آج بھی اسی فتنہ کی پیروکار ہیں۔ پچنند کے سرکاری سکولوں میں قادیانی ٹیچرز بھرتی کئے گئے، سادہ لوح لوگوں کو بھٹکانے کے لئے مختلف طریقے استعمال کئے گئے، مالی طورپر مستحکم ہونے اور بااثر ہونے کی وجہ سے ایک وقت میں پچنند کا نمبردار بھی قادیانی تھا، یعنی قادیانیت اپنے عروج پر تھی اور یہ چالاکی اور بدمعاشی سے اپنا مکروہ دھندہ جاری رکھے ہوئے تھے۔
97سال بعد اس دھرتی پر اللہ رب العزت نے کرم کیا، عالمی تحفظ ختم نبوت تلہ گنگ کے امیر حضرت مولانا عبیدالرحمٰن انور اور بزم شیخ الہند کے جید علمائے کرام نے اس فتنہ کی روک تھام کے لئے 2011ء میں اپنا عملی کردار ادا کرنا شروع کیا اس دجل و فریب اور ان کفریہ عقائد سے ایمان بچانے کے لئے ان علمائے کرام کا اس سر زمین پر ایک بہت بڑا احسان ہے ۔ میں نے کانفرنس سے پہلے جماعت کے ضلعی امیر مولانا عبیدالرحمٰن انور سے مقامی سطح پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کانفرنسز پر بات کی کہ یہاں سادگی اور شعور کی کمی کی وجہ سے رسولؐ اللہ کی زندگی جو ایک عملی نمونہ ہے اس بارے لوگوں کے اندر شعور پیدا کیا جائے، لیکن چونکہ مجھے تحفظ ختم نبوت کانفرنس کے انعقاد کی بنیادی ضرورت کا علم نہیں تھا، جو بعد ازاں انہی علمائے کرام کی محنت سے میرے علم میں لایا گیا، میں نے محسوس کیا کہ بلاشبہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متعلق ہی تو یہ بنیادی درس ہے، جو اسی کانفرنس میں لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے، اسی فتنہ کے خاتمے کے لئے جب اتنا بڑا کام کیا جارہا ہے تو یقیننا عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شعور ہی تو پیدا ہورہا ہے، مجھ جیسے بہت سے سادہ لوح شاید اس کام کو چھوٹا سمجھیں لیکن ختم نبوت پر ایمان ہی اصل ایمان ہے اور یہی وہ بنیادی عقیدہ ہے جس کا تحفظ ہم مسلمانوں پر فرض ہے۔ آج عالمی تحفظ ختم نبوت اور بزم شیخ الہند کے علمائے کرام کی محنت سے یہ فتنہ مقامی سطح پر زوال کا شکار ہے اور ان شاء اللہ یہ جلد ہی اپنے بھیانک انجام کی طرف چلا جائے گا۔ اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے صرف علمائے کرام یا مولوی حضرات کی ذمہ داری نہیں، بلکہ ہر کلمہ گو مسلمان خاتم النبین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عقیدے کا محافظ ہے، اور اس کے لئے عملی کردار ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ پچنند کے مقام پر اس تئیس کنال رقبے پر محیط پنڈال میں لوگوں کی ہزاروں کی تعداد میں عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سپاہی ہونے کا عملی مظاہرہ دیکھ کر دلی خوشی ہوئی۔ اللہ رب ذوالجلال کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اے باری تعالیٰ تو اس علاقے سے ان کفریہ عقائد کے پیروکاروں کو جلد ہدایت دے دے پچنند کی سر زمین پر اور پوری دنیا میں اس فتنہ کا نام و نشان مٹا دے، آمین ثم آمین!
فیصل رمضان اعوان







