Column

ٹریفک، بدنظمی اور اجتماعی بے حسی

آصف علی درانی

اگر کوئی یہ جاننا چاہے کہ ہمارے شہروں میں ترقی کتنی ہوئی ہے، تو بس کسی بھی بڑے چوراہے پر آ کر کھڑا ہو جائے۔ سامنے ایک نہ ختم ہونے والا ٹریفک جام ہوگا، ہر طرف ہارن کا شور، دھویں میں لپٹی سڑکیں، اور ایک ایسا بے ترتیب ہجوم، جو قوانین کو صرف دوسروں کے لیے سمجھتا ہے۔ اگر آپ نے غلطی سے بھی قانون کی پاسداری کی کوشش کی، تو پیچھے سے آتی ہوئی گاڑی کے ڈرائیور کی گالیاں آپ کو فوراً احساس دلا دیں گی کہ یہ شہر نہیں، بلکہ چلتی پھرتی بدانتظامی کا شاہکار ہے۔
پشاور، جو کبھی ثقافت، تاریخ اور تہذیب کا گہوارہ تھا، اب اپنی ٹریفک کے باعث مشہور ہوتا جا رہا ہے۔ شہر کی سڑکوں پر ہر وقت بے ہنگم رش، ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی، اور پیدل چلنے والوں کی بے بسی ایک ایسا منظر پیش کرتے ہیں، جو شاید ہی کسی مہذب ملک میں دیکھنے کو ملے۔ یہاں ہر ڈرائیور قانون سے زیادہ اپنی سمجھ بوجھ پر یقین رکھتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ جہاں جگہ ملے، وہیں سے گاڑی نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک عام
شہری کے لیے ٹریفک سگنل محض ایک تجویز ہے، جس پر عمل کرنا اس کی شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ سگنل توڑ کر، ون وے کی دھجیاں بکھیر کر، اور غلط اوور ٹیکنگ کر کے وہ اپنے ’’ چالاک‘‘ ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔
ہر راہرو کو سفر کی ہے جلدی بہت
مگر راستوں کا شعور اب کہاں؟
بڑھتے قدم بھول بیٹھے یہ نکتہ
کہ پلٹنا بھی لازم ہے، جانا کہاں؟
یہاں کا انفرا سٹرکچر دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہ کسی بہت چھوٹے اور پرسکون شہر کے لیے بنایا گیا ہو، لیکن افسوس کہ اس پر لاکھوں گاڑیاں دوڑنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ سڑکیں یا تو اتنی تنگ ہیں کہ پیدل چلنے والوں کو گاڑیوں سے بچنے کے لیے کرتب سیکھنے پڑتے ہیں، یا پھر اتنی ٹوٹی پھوٹی کہ گاڑی سے زیادہ اچھلنے کا موقع مسافروں کو ملتا ہے۔ قصہ خوانی
بازار، صدر، یونیورسٹی روڈ اور جی ٹی روڈ ایسے مقامات ہیں، جہاں ٹریفک جام محض ایک مسئلہ نہیں، بلکہ روزمرہ زندگی کا لازمی جزو ہے۔
یہ تو وہ مسائل ہیں جو کسی نہ کسی طرح نظر آتے ہیں، مگر اصل مسئلہ وہ ہے، جو ہمیں اندر سے کھوکھلا کر چکا ہے. قانون کی کھلی خلاف ورزی اور اس پر فخر کرنے کی روایت۔ یہاں سگنل کی پابندی کرنے والا شخص یا تو نیا ڈرائیور ہوتا ہے، یا پھر کوئی ایسا بدنصیب، جو اب تک ہمارے روایتی ’’ سیانے پن‘‘ سے واقف نہیں۔
اس سارے ہنگامے میں اگر کوئی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے، تو وہ عام شہری ہے۔ گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہنے سے ذہنی دبائو میں اضافہ ہوتا ہے، کام پر دیر سے پہنچنا معمول بن جاتا ہے، اور مزاج میں چڑچڑا پن مستقل طور پر شامل ہو جاتا ہے۔ دفاتر میں تاخیر سے پہنچنے والوں کی کوئی کمی نہیں، اور ہر کسی کے پاس تاخیر کا ایک مشترکہ بہانہ ہوتا ہے ’’ ٹریفک جام تھا!‘‘ گویا اب یہ ایک ایسا عذر بن چکا ہے، جسے کوئی چیلنج نہیں کرتا، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ یہ سچ ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کی بات کریں، تو وہ بھی کسی مذاق سے کم نہیں۔ ہماری سڑکیں محض گاڑیوں کے لیے نہیں، بلکہ دھویں کے لیے بھی مخصوص ہیں۔ ہر گاڑی سے نکلنے والا دھواں فضا کو زہر آلود کر رہا ہے، مگر اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی فرصت کس کے پاس ہے؟ آخر ہم ترقی کر رہے ہیں نا! بڑی بڑی گاڑیاں خرید رہے ہیں، خواہ سڑکیں ان کے قابل ہوں یا نہیں۔ اگر کسی نے سائیکل یا پیدل چلنے کی بات کی، تو اسے دقیانوسی خیالات رکھنے والا قرار دے کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
یہ سب سن کر شاید لگے کہ یہ مسئلہ بہت سنگین ہے اور اس کا حل نکالنا چاہیے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم سب اس نظام کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہمیں اس بے ترتیبی میں سکون ملتا ہے۔ اگر کل کو کوئی ایسا معجزہ ہو کہ ہمارے شہروں میں ٹریفک قوانین پر صحیح معنوں میں عمل ہونے لگے، ہر کوئی قطار میں رہے، اور کسی کو ہارن بجانے کی ضرورت نہ پڑے، تو یقیناً ہم خود کو کسی اور دنیا میں محسوس کریں گے۔
مسئلے کا حل تو کئی موجود ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ ان پر عمل کون کرے گا؟ اگر حکومت پارکنگ کے بہتر انتظامات کرے، عوام قوانین کی پاسداری کریں، اور پولیس اپنا کام ایمانداری سے کرے، تو شاید اس مسئلے کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ سب خواب و خیال لگتا ہے، کیونکہ ہم اجتماعی طور پر تب تک کسی مسئلے کو نہیں مانتے، جب تک وہ ہمارے دروازے تک نہ پہنچ جائے۔
آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ اگر آپ نے آج ٹریفک جام میں وقت ضائع کیا ہے، تو کل بھی یہی ہوگا، اور پرسوں بھی۔ کیونکہ جب تک ہم خود نہیں بدلیں گے، ہماری سڑکیں بھی نہیں بدلیں گی۔
سڑکیں دراصل کسی بھی معاشرے کے اجتماعی شعور کا عکس ہوتی ہیں۔ اگر وہ بدنظم ہیں، شور سے بھری ہوئی ہیں، اور قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، تو یہ صرف پتھروں اور تارکول کی خرابی نہیں، بلکہ ذہنوں کی بغاوت ہے۔ ہم راستوں میں افراتفری نہیں دیکھتے، بلکہ اپنی ہی سوچ کی بکھری ہوئی کرچیاں دیکھتے ہیں۔ ٹریفک جام درحقیقت صرف گاڑیوں کا ہجوم نہیں، بلکہ ہماری غیر منصوبہ بند زندگیوں، بے صبری، اور اجتماعی بے حسی کا جیتا جاگتا استعارہ ہے۔ جب تک ہم اپنے اندر کے راستوں کو سیدھا نہیں کریں گے، تب تک شہر کی سڑکیں بھی الجھی رہیں گی، اور ہم اسی دھویں، شور اور بدنظمی میں قید رہیں گے، جہاں سے نکلنے کی خواہش تو ہے، مگر ارادہ نہیں۔

جواب دیں

Back to top button