Column

نوجوان ہی ملک کی تقدیر بدلیں گے

شاہد ندیم احمد

حکومت کا اس بات پر زور ہے کہ ملک کو معاشی استحکام کی راہ پر گامزن کر دیا ہے، جبکہ اس کیلئے سیاسی استحکام اولین ضرورت ہے، بلکہ ناگزیر ہے، اس کا ادراک حکومت کے ساتھ اپوزیشن کو بھی ہونا چاہیے، اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات ہوئے، مگر دونوں ہی طرف سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا، اپوزیشن اپنے ساتھ زیادتیوں کا واویلا کرتے ہوئے سسٹم کو ہی تلپٹ کر کے رکھ دینا چاہتی ہے، جبکہ حکومت سسٹم کو بہتر طریقے سے چلانا چاہتی ہے اور اپنے اقتدار کو دوام دینا چاہتی ہے، دونوں کے ہی اپنے مفادات ہیں اور دونوں ہی اپنے حصول مفاد میں سب کچھ دائو پر لگا رہے ہیں، لیکن ان کے درمیان عوام پس کر رہ گئے ہیں، عوام کا کوئی پرسان حال ہے نہ ہی عوام کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا جارہا ہے ، عوام کے نام پر اپنی سیاست کو چمکایا جارہا ہے اور نوجوانوں کو ورغلایا جارہا ہے ، لیکن یہ نوجوان ہی آج نہیں تو کل ملک وقوم کی تقدیر بدل دیں گے۔
اگر اس ملک کی سیاست کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس بے حال عوام کے جو مسائل کل تھے وہی آج ویسے ہی راستے کا پتھر بن کر
کھڑے ہیں، اس ملک کے عوام آج بھی تعلیم، صحت، روزگار اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور ان ہی مسائل کے حل کی امید میں اہل سیاست کے پیچھے سڑکوں پر محض نعروں میں اپنی بے بسی کا ڈھول بجاتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن یہ اہل سیاست جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو عوام کو ان کے مسائل کے حل کرنے کا خواب دکھا کر سڑکوں پر نکال کر ان سے کبھی روٹی، کپڑا مکان تو کبھی گیس بجلی پانی تو کبھی بدعنوانی کے خاتمے تو کبھی امن و امان مہیا کرنے کے نعرے لگواتے ہیں اور جب برسر اقتدار آتے ہیں تو اس عوام کے ہی منہ پر اپنا بیا نیہ بدل کر ایک زور دار طمانچہ رسید کرتے ہیں کہ گزشتہ سارے ہی بیانات سیاسی بیانات تھے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس ملک کے ہر دور اقتدار میں ایسا ہی کچھ ہوتا آرہا ہے ، ہر نیا آنے والا جانے والے کو ہی مورد الزام ٹہراتا رہا ہے اور قومی خزانے خالی ہو نے کی ہی دوہائی دیتا آرہا ہے ، اس کے بعد مزید قرضے لے کر عوام کے لیے مزید مشکلات کھڑی کر دیتا ہے اور اپنی نااہلیوں کا سارا بوجھ دوسروں پر ڈالتے ہوئے نہ صرف خود اقتدار کے مزے لوٹتا ہے ، بلکہ اپنے حواریوں کو بھی نوازتا ہے،اس کے بعد اقتدار چلے جانے پر سڑکوں پر واویلا کرتا دکھائی دیتا ہے کہ مجھے کیوں نکلا گیا ہے؟ اس ملک کی ہر سیاسی قیادت کا ایسا ہی وتیرہ رہا ہے اور اس کو بدلا جارہا ہے نہ ہی اپنے ماضی سے کوئی سبق سیکھا جارہا ہے ، جبکہ عوام کو کل بھی بہلایا اور بہکایا جارہا تھا ، عوام کو آج بھی ایک کے بعد ایک نئے ایشو کے پیچھے لگایا جارہا ہے اور باور کرایا جارہا ہے کہ ملک بچایا جارہا ہے اور اپنی سیاست کو دائو پر لگایا جارہا ہے ، جبکہ اس کے برعکس ہر چیز کو دائو پر لگا کر اپنی سیاست اور اپنے اقتدار کو ہی بچایا جارہا ہے۔
یہ بات عوام کو کب سمجھ میں آئے گی کہ یہ بڑے محلات میں رہنے والے عوام کے نمائندے ہیں نہ ہی عوام ان کی ترجیحات میں کبھی شامل ہو سکتے ہیں ، اس کے باوجود آج بھی بہت بڑے عوامی ہجوم مختلف نعروں کے ساتھ سڑکوں پران ہی کے خلاف اور ان ہی کی حمایت میں نکل رہے ہیں ، اس کا ہر سیاسی و مذہبی جماعت نے فائدہ اٹھایا ہے، لیکن عوام سے کئے کسی ایک وعدے کو بھی پورا نہیں کیا ہے، عوام پھر
بھی ان کے ہی پیچھے لگے ہوئے ہیں، ا ن سے ہی امیدیں باندھے ہوئے ہیں ، ان کے ہی پیچھے سڑکوں پر آئے ہوئے ہیں، جبکہ یہ کبھی اتحاد بنا کر حکومت کرتے ہیں تو کبھی اتحاد بنا کر اپوزیشن کر رہے ہیں اور دونوں ہی جانب عوام کو تقسیم کر رہے ہیں، عوام کو بے وقوف بنارہے ہیں ، حکومتی اتحاد نے عوام کو ریلیف دینا ہے نہ ہی اپوزیشن اتحاد نے کوئی انقلاب لانا ہے ، یہ آئین و قانون کی بحالی کی زبانی کلامی باتیں محض عوام کو اپنے پیچھے لگانے کیلئے کی جارہی ہیں، انہوں نے اپنی حصول مفاد اور حصول اقتدار کیلئے عوام کو ورغلانا ہے ، اپنے پیچھے لگانا ہے اور عوام نے بھی ہمیشہ کی طرح دو حصوں میں تقسیم ہو کر ان کے پیچھے لگ جانا ہے۔
یہ کب تک ایسے ہی چلے گا اور کب تک عوام آزمائے کو ہی بار بار آزماتے رہیں گے ، موجودہ حالات کے پیشِ نظر ہم پر بحیثیت قوم فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اپنے اندر سیاسی اور نظریاتی شعور پیدا کریں اور آزمائے ہوئی مفاد پرست قیادت سے جان چھڑائیں ، کیونکہ قوم ہمیشہ ایک نظریہ پر بنتی ہے، اس قوم کا ایک فکر اور ایک مرکز ہوتا ہے، وہ قوم طبقاتی گروہی، ذاتی مفادات کے آگے سر جھکاتی ہے نہ ہی آزمائے کوہی بار بار آزماتی ہے ،اس میں رنگ نسل مذہب کی بنیاد پر اختلاف نہیں ہوتے ہیں، بلکہ وہ مل کر اپنے بنیادی مسائل حل کرنے کیلئے جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرتی ہے ،اس میں نوجوانوں کا کردار سب سے زیادہ ہوتا ہے ، یہ نوجوان ہی ہوتے ہیں جو کہ ایک مضبوط و مستحکم جماعت کی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اور ملک و قوم کی تقدیر بدل دیتے ہیں، اس ملک کے نوجوان باشعور و با صلاحیت ہیں ، یہ آج نہیں تو کل ملک و قوم کی تقدیر ضرور بدل دیں گے ۔

جواب دیں

Back to top button