ایٹمی طاقت سے خود مختاری تک

ملک شفقت اللہ
28 مئی 1998ء کا دن پاکستان کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے جب پاکستان نے بھارت کے ایٹمی تجربات کے جواب میں اپنے ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ دن پاکستان کی دفاعی طاقت اور قومی وقار کا مظہر تھا۔ اس وقت یہ خیال کیا گیا کہ ایٹمی طاقت حاصل کرکے پاکستان نہ صرف اپنا دفاع ناقابلِ تسخیر بنا لے گا بلکہ عالمی سطح پر خود مختاری اور معاشی ترقی کی راہ پر بھی گامزن ہوگا۔ تاہم، آج تقریباً تین دہائیاں گزرنے کے باوجود پاکستان عالمی سیاست میں وہ خود مختاری حاصل نہیں کر پایا جس کا خواب اس وقت دیکھا گیا تھا۔
پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کا بنیادی مقصد خطے میں طاقت کا توازن قائم کرنا اور بھارت کے ایٹمی تجربات کا جواب دینا تھا۔ ان دھماکوں کے ذریعے پاکستان نے دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ وہ اپنی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ دفاعی اعتبار سے پاکستان نے اپنے دشمنوں کو موثر جواب دیا۔ اعداد و شمار کے مطابق، 1998ء کے بعد پاکستان نے اپنے دفاعی بجٹ میں نمایاں اضافہ کیا جو کہ 1999ء میں 160ارب روپے سے بڑھ کر 2024ء میں تقریباً 1900ارب روپے تک جا پہنچا۔ تاہم، دفاعی اخراجات میں اضافے کے باوجود معاشی ترقی کی رفتار وہ نہیں رہی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر زیادہ موثر طریقے سے اجاگر کیا جا سکتا تھا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ پاکستان نے بارہا سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھایا، لیکن عالمی برادری نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔2001ء میں آگرہ مذاکرات، 2004ء میں پاک، بھارت امن پیش کش، اور 2019ء میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے جیسے مواقع پر پاکستان نے عالمی برادری کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی، لیکن کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہو سکی۔ اعداد و شمار کے مطابق، 2024ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے 6500سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے، جبکہ 1998ء میں یہ تعداد 3500 تھی۔ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو وہ اہمیت حاصل نہیں ہو سکی جس کا تقاضا تھا، اس کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی معاشی کمزوری اور سفارتی ناکامی ہے۔
ایٹمی دھماکوں کے بعد ملک میں قومی یکجہتی اور جوش و خروش کی فضا پیدا ہوئی، لیکن اس کامیابی کا سیاسی سطح پر بھی بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔ نواز شریف کی حکومت نے اسے اپنی سیاسی کامیابی کے طور پر پیش کیا اور عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ بعد کے ادوار میں بھی سیاسی رہنما اس کامیابی کو اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے استعمال کرتے رہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، 1998ء کے بعد ملک میں غربت کی شرح 30%سے کم ہو کر 2001ء میں 25%تک آ گئی تھی، لیکن 2024ء میں یہ دوبارہ 41%تک جا پہنچی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی مفادات کی خاطر عوامی فلاح کو نظرانداز کیا گیا۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہمیشہ سے طاقتور رہا ہے۔ ایٹمی دھماکوں کے فیصلے میں بھی فوجی قیادت کا کلیدی کردار تھا۔ دفاعی اخراجات میں اضافے کے پیچھے بھی اسٹیبلشمنٹ کا اثر نمایاں رہا ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ایٹمی طاقت کے حصول نے فوج کو مزید اثر و رسوخ دیا اور قومی پالیسی سازی میں سویلین حکومتوں پر دبا بنائے رکھا گیا۔ مزید برآں، خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے اہم معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کا اثر رسوخ 1998ء کے بعد مزید بڑھ گیا۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا زیادہ تر محور دفاعی ضروریات اور اسٹیبلشمنٹ کی
ترجیحات رہی، جس نے سیاسی قیادت کی خودمختار فیصلے کرنے کی صلاحیت کو محدود کیا۔پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے باوجود آج ملک عالمی سطح پر حقیقی خودمختاری حاصل نہیں کر پایا۔ اس کی بڑی وجوہات میں معاشی بدحالی، سیاسی عدم استحکام اور بیرونی قرضوں پر انحصار شامل ہیں۔ پاکستان کی معیشت کا بڑا حصہ آج بھی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر انحصار کرتا ہے۔ یہ بیرونی قرضے نہ صرف ملکی خودمختاری پر سوالیہ نشان ہیں بلکہ قومی پالیسیاں بھی عالمی مالیاتی اداروں کے مطالبات کے مطابق ترتیب دی جاتی
ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان کا بیرونی قرضہ 1998ء میں 32ارب ڈالر تھا، جو 2024ء میں 135ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ یہی قرضے پاکستان کی عالمی خود مختاری پر سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پابندیوں نے ملک کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا اور بین الاقوامی سرمایہ کاری میں کمی کا باعث بنیں۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت میں شدید بحران پیدا ہوا، جس کے اثرات کئی سالوں تک محسوس کیے گئے۔ 1999ء سے 2003ء تک پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو 3.1%رہی، جبکہ 2024ء میں یہ شرح منفی 0.5%تک گر چکی ہے۔ ایٹمی طاقت
حاصل کرنے کا مقصد صرف دفاعی طاقت نہیں تھا بلکہ قومی ترقی اور عوامی فلاح کو فروغ دینا بھی تھا۔ تاہم، تعلیم، صحت، انفرا سٹرکچر اور معاشی ترقی کے شعبوں میں پاکستان آج بھی پسماندہ ہے۔
تعلیم کے شعبے میں 1998ء میں خواندگی کی شرح 45% تھی، جبکہ 2024ء میں یہ صرف 60%تک پہنچ سکی۔ اسی طرح، صحت کے شعبے میں فی کس اخراجات 1998ء میں 18ڈالر تھے، جو 2024ء میں صرف 48ڈالر تک پہنچے۔ پاکستان نے 28مئی 1998ء کو جو سنگِ میل عبور کیا، وہ دفاعی لحاظ سے انتہائی اہم تھا، لیکن یہ کامیابی حقیقی خود مختاری اور قومی ترقی میں تبدیلی نہ لا سکی۔ اس کی بنیادی وجہ معاشی بدحالی، سیاسی بدعنوانی، اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی اور بیرونی طاقتوں پر انحصار ہے۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی مسلسل ناکامی اس بات کی عکاس ہے کہ ایٹمی طاقت محض دفاعی تحفظ فراہم کر سکتی ہے لیکن عالمی سیاست میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے مضبوط معیشت، سفارتی مہارت اور سیاسی استحکام ناگزیر ہیں۔ اگر پاکستان نے حقیقی خود مختاری حاصل کرنی ہے تو اسے معاشی ترقی، تعلیم، اور سیاسی استحکام کو ترجیح دینا ہوگی۔ یومِ تکبیر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ قومی دفاع کے ساتھ ساتھ قومی ترقی بھی ضروری ہے، ورنہ ایٹمی طاقت محض ایک علامتی حیثیت تک محدود رہے گی۔







