Column

ماہ صیام مبارک

تحریر: صفدر علی حیدری
روزہ اسلام کے5 ارکان بنیادی ارکان میں سے ایک ہے ۔یہ ہجرت کے دوسرے سال فرض کیا گیا تھا ۔ اسے عربی میں صوم کہتے ہیں ۔ اس کا مادہ ص، و اور م  ہے۔ لغت میں صوم کہتے ہیں کسی چیز سے رک جانا ۔ صوم عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی مطلقاً رک جانا ہے جیسے چلنے سے رک جانا ، بات کرنے سے پرہیز کرنا، کھانے پینے سے پرہیز کرنا وغیرہ۔
صرف رمضان کے فرض روزوں پر دلالت نہیں کرتا ہے بلکہ اس سے تمام طرح کے روزے مراد ہیں۔ روزے یا تو فرض عین و فرض کفایہ ہوں گے جیسے رمضان کے روزے، رمضان کے علاوہ واجب روزے ہوتے ہیں جیسے قضا روزے یا نذر یا کفارہ کا روزہ ۔
رمضان کی راتوں کا قیام بھی بہت فضیلتیں رکھتا ہے۔ خصوصاً آخری عشرہ میں عبادت کی اہمیت اور ثواب بڑھ جاتا ہے۔ آخری عشرہ میں ہی شب قدر آتی ہے۔ اعتکاف بھی ایک منفرد عبادت ہے جس کا اپنا الگ ثواب ہے ۔ اس ماہ تلاوت قرآن کا بھی بڑا اہتمام کیا جاتا ہے ۔
روزہ کوئی نئی چیز ہرگز نہیں ۔ قرآن مجید نے گواہی دی ہے کہ پچھلی امتوں پر بھی روزے فرض تھے۔ موسیٰ علی نبینا کے دور میں ہر ماہ کی تیرہ چودہ اور پندرہ کو روزہ رکھا جاتا تھا۔ اسلام نے ایک ماہ روزوں کے لیے مختص کر دیا ۔ پہلے پہل یہ قانون تھا
کہ افطاری کے بعد جس شخص کو نیند آ جاتی وہ پھر افطاری سے قبل کچھ کھا پی نہیں سکتا تھا مگر مسلمانوں کو سحری کرنے اور سحری تک کھانے پینے کی اجازت دی گئی ۔ بلکہ سحری کھانا سنت قرار دے گیا ، جس کا الگ سے ثواب مختص ہے۔ ثواب تو اس ماہ کا ایک ایک لمحہ ہے۔ سانس لینے کا بھی جس میں ثواب ہے ۔ روزہ افطار کروانے کا بھی ثواب مقرر ہے ۔
روزے کی عظمت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ثواب متعین نہیں کیا ۔ اللہ فرماتا ہے روزہ میرے لیے اور میں ہی اس کی جزا ہوں ۔ گویا خدا روزی دار کا ہو جاتا ہے ۔ روزے دار خدا کی رضا کا حامل ہو جاتا ہے ۔ روزہ آگ سے ڈھال ہے۔ کیونکہ یہ خواہشات کی قبض ہے اور آگ خواہشات سے بھری ہوئی ہے۔ بات یہ ہے کہ اگر اس نے اپنے آپ کو دنیا میں خواہشات سے روکا تو یہ اس کے لیے آخرت میں آگ سے پردہ ہے ۔
روزہ دار کے منہ کی بو بہتر ہے۔ اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ ہے ، روزے دار کو جن آداب کی پابندی کرنی چاہیے ان میں سے اعضاء کی حفاظت ، فضول گفتگو ، فحش زبان ، جھگڑے اور جھگڑے سے پرہیز اور پر سکون اور باوقار رہنا ۔
چوں کہ روزے کا اجر اللہ کے ہاں ایک جگہ ہے۔ روزہ دار کے لیے ضروری تھا کہ وہ اس فضیلت کو محفوظ رکھے اور ہر اس چیز سے بچتا رہے جو اس سے چھوٹ جاتی ہے، کیونکہ روزے میں لغو باتوں اور فحش باتوں کا مطلب یہ نہیں کہ روزہ فاسد ہو جائے، بلکہ اس سے روزے کی فضیلت ضائع ہو جاتی ہے اور ثواب کم ہو جاتا ہے ۔
جیسا کہ روایات میں ملتا ہے ’’ اگر تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو اسے چاہیے کہ وہ فحش باتیں نہ کرے اور نہ اونچی آواز میں اور اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑے تو کہے: میں روزے سے ہوں‘‘۔
روزہ کے حسی اور اخلاقی فوائد ہیں کیوں کہ یہ نفسیاتی رویے کو نکھارتا ہے اور روح کی کجی کو درست کرتا ہے اور اس طرز کو بدل دیتا ہے جس کا انسان اپنی روزمرہ کی زندگی میں عادی ہوتا ہے۔ اور غریبوں کے
درمیان ہمدردی، پیار اور ہمدردی حاصل کرنے کے لیے۔ اسلام میں روزے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ روح کو پاک کرنے میں مدد کرتا ہے اور ان لوگوں کی خواہش کو توڑنے میں مدد کرتا ہے جو اپنے لیے برہمی سے ڈرتے ہیں اور اس کا ثبوت ایک حدیث سے ملتا ہے: کیوں کہ یہ اس کے لیے شہوت کو توڑنے کا طریقہ ہے ’’ اے نوجوانو! تم میں سے جو شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو ، وہ شادی کر لے اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو، وہ روزہ رکھے‘‘۔
س میں کیا شک ہے کہ روزے کے بے شمار فائدے ہیں ۔ ماہ صیام میں انسان کی سانس سانس عبادت شمار ہوتی ہے ۔ شیاطین باندھ دئیے جاتے ہیں ۔ نیکی پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اس مہینے کو نیکیوں کی بہار کا موسم کہا جاتا ہے۔ لوگ جو نماز میں سستی کر جایا کرتے تھے ، باقاعدگی سے باجماعت نماز ادا کرنے لگتے ہیں۔ جو قرآن کریم کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے ، تلاوت کا باقاعدگی سے اہتمام کرنے لگتے ہیں ۔ روزے سے روح بالیدہ ہو جاتی ہے۔ انسان کے اندر غریبوں کی ہمدردی کا جذبہ موجزن ہوتا ہے۔ انسان صدقہ و خیرات کے ذریعے ان کی مدد کرنے لگتا ہے۔ انسان کے اندر تقویٰ جیسی عظیم صفت پیدا ہوتی ہے۔ اور یہی اس ماہ صیام اور روزوں کا مقصد بھی ہے۔ جب انسان ایک ماہ حلال
کاموں سے بھی خود کو روک لیتا ہے تو اس میں خود بخود یہ وصف پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ عام دنوں میں حرام کاری سے بچے۔ وہ واجبات و مستحبات کی پابندی کرنے لگتا ہے اور محرمات سے بہر طور بچنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ اب اگر اللہ کی عطا کردہ توفیق اسے میسر آتی ہے تو اس کی زندگی کی روش بدل جاتی ہے۔ اس کا مقصد حیات بدل جاتا ہے۔ اسے کیفیت احسان حاصل ہو جاتی ہے جو روحانیت کا جوہر ہے۔ روزے دار اکیلا بھی تو ہو اسے اللہ کا خوف روزے کی حالت میں کچھ بھی کھانے پینے سے بچاتا ہے۔ وہ سورہ رحمٰن کی اس آیت کا مصداق ہو جاتا ہے’’ اور جو شخص اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہونے کا خوف رکھتا ہے اس کے لیے دو باغ ہیں ‘‘۔
گویا احتساب کا جذبہ اس میں پیدا ہوتا ہے۔ اسے ہر لمحہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے ۔ یوں اس پر شریعت کی پاسداری آسان ہو جاتی ہے ۔ رب کے قرب کا احساس اس کے قلب میں جاگزیں ہوتا ہے ۔ ذکر میں لذت اور قلبی سکون حاصل ہونے لگتا ہے۔ یوں اس کی زندگی روحانی مسرت سے بھر جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس ماہ مقدس کی برکتیں اور رحمتیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔

جواب دیں

Back to top button