ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کا عزم

تحریر : شاہد ندیم احمد
ملک ایک طرف سیاسی افر تفری ،بے یقینی اور عدم استحکام کا شکار ہے تو دوسری جانب غربت ،مہنگائی ، بے روز گاری اپنے عروج پر ہے ، ہر گزرتے دن کے ساتھ امن وامان کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے ، لیکن وزیر اعظم شہباز شریف پرعزم ہیں کہ ملک کو مسائل کے گرداب سے نکا لیں گے ، جبکہ حکو مت کے گڈ گورنس کے سارے دعوئوں کے باوجود عوام کے دیرینہ مسائل جوں کے توں ہی چلے جارہے ہیں ،لیکن عوام کو اشتہاری مہم کے ذریعے باور کرایا جارہا ہے اور اپنے پیچھے لگایا جارہا ہے کہ ملک ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے اور عوام نے حکومت کی کا ر کردگی دیکھتے ہوئے اپنی حمایت کی مہر لگادی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو زمینی حقائق بالکل ہی مختلف ہیں ، عوام کیلئے زند گی گزرنا مشکل ہو گیا ہے اور حکو مت اپنی اشتہاری مہم کے ذریعے عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہے ،جبکہ ملک کے افراط زر میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ، اس کی وجہ سے ایک طرف بنیادی اشیا ضروریہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں تو دوسری جانب بجلی ،گیس کی بڑھتی قیمتوں نے عوام کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے، اس پرحکو مت قرض پر قرض لیے جارہی ہے اور اس کا سارا بوجھ عوام پر ہی ڈالے جارہی ہے ، سر کاری آمد کا انحصار بالواسطہ ٹیکسوں پر ہے ،جو کہ زیادہ تر غریب عوام سے ہی نچوڑا جاتا ہے ،اس ملک میں اسی فیصد ٹیکس غریب طبقہ دیے رہا ہے ،جبکہ امیر ترین طبقہ صرف پانچ فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے ، اس کی باوجود غریب عوام زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ ہر دور اقتدار میں سارے دعوئوں کے باوجود امیر طبقوں پر ٹیکس عائد کر نا اور غریب متوسط طبقے کو ریلیف فراہم کر نا کسی ادنا منصوبے میں بھی شامل نہیں رہا ہے ، اس ملک میں سارے عوامی منصوبوں کے فوائد اُمرا ہی حاصل کررہے ہیں ، غریب کو اشتہارات دکھا کر بہلایا جارہا ہے بہکایا جارہا ہے ، بلکہ ور غلایا جارہا ہے کہ ان کے ثمرات عام عوام کو پہنچیں گے ، جبکہ ان کے ثمرات سے عام عوام محروم ہی چلے آرہے ہیں ، حکومت کی ناقص پا لیسوں کے باعث ہی اندرونی و بیرونی سر مایہ کاری جمود کا شکار ہے ،اس کے نتیجے میں ملکی معیشت دبائو کا شکار ہے ، ملک میں صنعتیں بند ہورہی ہیں ،بے روز گاری میں اضافہ ہورہا ہے ،ملک کا ہنر مند نو جوان طبقہ روز گار کی تلاش میں بیرون ملک جارہا ہے ،اپنی جانوں کو بھی دائو پر لگا رہا ہی ، ملک میں کرپشن قومی روگ بن چکی ہے ، ملکی وسائل کر پشن کی نذر ہو رہے ہیں ، اس نے معاشی ترقی کی راہیں ہی بند کر دی ہیں، ملک کا عدالتی نظام انصاف کی فراہمی میں ناکام ہے، طاقتور با اثر افراد آئین و قانون کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں ،غرض تعلیم و صحت سے لے کر معیشت ،زراعت ،توانائی ،انفرا سٹرکچر تک کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے کہ جس پر حکو مت کی کا ر کردگی کو تسلی بخش کہا جاسکے ، لیکن حکو مت بضد ہے کہ سب کچھ اچھا جارا ہے اور سب کچھ ہی اچھا ہونے جارہا ہے۔
اتحادی حکو مت کچھ بھی کر لے سیاسی ومعاشی بحران کا حل روایتی طور طریقوں یا ڈنگ ٹپائوپالیسی سے ممکن نہیں ہے، سیاست اور معیشت میں غیر معمولی حالات کی موجودگی میں غیر معمولی اقدامات ہی کسی نئی منزل کی طرف لے جا سکتے ہیں، لیکن کیا پاکستان کی طاقت ور سیاسی اشرافیہ یا طاقت کے مراکز معاملات کو روایتی طریقوں سے ہی چلانا چاہتے ہیں یا واقعی ان کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر موجودہ سیاسی و معاشی روش ترک کرنی ہوگی ،کیونکہ اگر واقعی ہم نے سیاسی اور معاشی بحران سے باہر نکلنا ہے تو ہمیں اپنے سیاسی، انتظامی، معاشی اور قانونی محاذ پر ڈھانچوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانا ہوگی، سیاسی، معاشی محاذ پر محض مصنوعی یا میک اپ کے طور پوچا پاچی کا مطلب یہ ہی ہے کہ ہم غیر معمولی تبدیلیوں کے حق میں نہیں ہیں،کیونکہ طاقت کے طبقات یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے سیاسی، معاشی اور انتظامی بنیادوں پر موجود ڈھانچوں میں تبدیلیاں کیں تو اس سے ان کے اپنے سیاسی مفادات کو ضرب لگ سکتی ہے۔
اس وقت بد لتے حالات کے پیش نظر سب کو ہی اپنے ذات سے نکل کر قومی مفاد میں سوچنا ہو گا ، ملک کو مسائل کی گرداب سے نکالنے کے لئے ملکر کام کر نا ہو گا، اہل سیاست کو بھی سیاسی عدم استحکام کے گرداب سے نکلنے کے لئے مذاکرات کار استہ ہی اپنانا ہو گا اور اپنا فوکس ملکی مفادات کے تحفظ پررکھنا ہو گا، لیکن ہم اقتدار کی رسہ کشی میںاپنی منزل سے ہی دور ہوتے جارہے ہیں، اس کھینچاتانی میں اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں، افواج پاکستان ہمارا قیمتی اثاثہ اور ہمارا فخر ہیں، اداروں کی مضبوطی سے ہی ملک کی سلامتی ہے اور ہم نے ملک کی سلامتی کو ہی مقدم رکھنا ہے ، یہ ملک ہے تو ہم ہیں ، ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں رہے گا۔







