کراچی بھکاریوں کی دنیا ؟
تحریر : قادرخان یوسف زئی
رمضان قریب ہے، کراچی کی گلیوں میں روشنیوں کا ہالہ پھیل چکا ہے۔ مسجدوں میں تراویح پڑھنے والوں کی قطاریں، بازاروں میں خریداری کرتے ہوئے چہرے، اور فلاحی تنظیموں کی جانب سے افطار دسترخوان سجانے کے مناظر ہر طرف نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔ یہ وہی کراچی ہے جو رمضان میں اپنی دریا دلی کے لیے مشہور ہے، مگر اسی شہر کے ہر ٹریفک سگنل، ہر بازار، اور ہر مسجد کے باہر ایک اور دنیا آباد ہو چکی ہے۔ جیسے ہی رمضان قریب آتا ہے، کراچی میں بھکاریوں کا سیلاب اُمڈ آتا ہے، جن میں کچھ حقیقی ضرورت مند ہوتے ہیں، مگر اکثریت ایک وسیع اور منظم کاروبار کا حصہ ہوتی ہے۔
کراچی کا یہ مسئلہ نیا نہیں، مگر ہر سال کی طرح اس بار بھی رمضان آتے ہی شہر پر بھکاریوں کی یلغار ہو چکی ہے۔ رپورٹس کے مطابق، تقریباً 300000بھکاری اندرون سندھ، پنجاب اور بلوچستان سے کراچی آتے ہیں، جو پہلے سے موجود 130000بھکاریوں میں شامل ہو کر شہر کے مختلف حصوں پر قابض ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ مخصوص ’ بھکاری مافیا‘ کے تحت کام کرتے ہیں، جو انہیں مختلف جگہوں پر تعینات کرتی ہے اور ان کی کمائی کا بڑا حصہ خود رکھ لیتی ہے۔ کراچی کے ہر اہم چوراہے پر، ہر مصروف بازار میں، ہر بڑے شاپنگ مال کے دروازے پر، ہر مسجد کے داخلی راستے پر، اور ہر پوش علاقے کے باہر، ایک منظم انداز میں بھکاری کھڑے نظر آتے ہیں۔ خیرات دینے والا ایک لمحے کو سوچتا ہے کہ شاید یہ حقیقی ضرورت مند ہیں، مگر کیا واقعی ایسا ہی ہے؟
بھیک مانگنا محض ایک مجبوری نہیں، بلکہ ایک وسیع کاروبار بن چکا ہے۔ اداروں کی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ، پاکستان میں بھکاریوں کا کاروبار سالانہ 117ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے، کراچی میں ایک پیشہ ور بھکاری روزانہ 2000 روپے سے زیادہ کماتا ہے، جو ملک کی کم از کم یومیہ اجرت سے بھی زیادہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک بھکاری یومیہ اتنی آمدنی کر سکتا ہے، تو پھر وہ مزدوری یا کوئی اور محنت طلب کام کیوں کرے؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔
یہ معاملہ صرف بھیک مانگنے تک محدود نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا جرائم پیشہ نیٹ ورک کام کر رہا ہے، جو بچوں، خواتین اور معذور افراد کو زبردستی اس دھندے میں دھکیلتا ہے۔ یہ مافیا بچوں کو اغوا کرتی ہے، انہیں جسمانی نقصان پہنچاتی ہے تاکہ انہیں زیادہ رحم طلب بنایا جا سکے، اور پھر ان کے ذریعے روزانہ لاکھوں روپے کمائے جاتے ہیں۔ 2021 میں کراچی میں کیے گئے ایک پولیس آپریشن میں یہ انکشاف ہوا کہ گرفتار ہونے والے ’ بھکاری خاندانوں‘ میں سے 90فیصد کے بچوں کا ان کے ساتھ کوئی حیاتیاتی تعلق نہیں تھا۔ یہ بچے یا تو اغوا شدہ تھے یا پھر انتہائی غربت زدہ والدین سے خریدے گئے تھے۔
کراچی پولیس کے مطابق، رمضان کی دوران اسٹریٹ کرائم میں 60فیصد اضافہ ہوتا ہے، اور اس میں سے اکثر وارداتوں میں بھکاریوں کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق پایا جاتا ہے۔ کچھ بھکاری دن میں خیرات مانگتے ہیں اور رات کو موبائل اور بائیک چوری کے نیٹ ورکس کے لیے کام کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کام مساجد کی باہر خیرات جمع کرنا ہوتا ہے، جبکہ کچھ لوگ گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر اندر کا جائزہ لیتے ہیں اور بعد میں چوری کی وارداتوں میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار کیا ہے؟ کیا وہ اس سارے معاملے سے لاعلم ہیں یا پھر جان بوجھ کر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں؟ 2020ء میں کراچی میں انسدادِ بھکاری فورس (Anti Beggary Force ) قائم کی گئی، مگر اس کے پاس محدود اختیارات ہیں، اور نتیجتاً یہ نیٹ ورکس ہر بار گرفتاریوں کے باوجود دوبارہ فعال ہو جاتے ہیں۔ 1958ء کا بے کاری ایکٹ (Vagrancy Act)اب فرسودہ ہو چکا ہے اور جدید سماجی مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہے۔ سندھ حکومت نے 2017ء میں ایک منصوبہ بنایا تھا، جس کے تحت بھکاریوں کی رجسٹریشن اور بحالی مراکز بنانے کی تجویز دی گئی تھی، مگر بدقسمتی سے وہ منصوبہ بیوروکریسی کی نذر ہو گیا۔
یہاں عوام کا کردار بھی اہم ہے۔ کراچی کے لوگ خیرات کرنے میں سب سے آگے ہیں، مگر اسی دریا دلی کا فائدہ مافیا اٹھا رہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق، 58فیصد کراچی کے شہری روزانہ بھکاریوں کو خیرات دیتے ہیں، اور رمضان میں یہ شرح دوگنا ہو جاتی ہے۔ ایک عام شہری کسی بھکاری کو دس روپے سے لیکر 100روپے دیتا ہے، اور جب لاکھوں افراد یہی عمل دہراتے ہیں تو یہ رقم کروڑوں میں چلی جاتی ہے، جو اصل مستحقین تک پہنچنے کے بجائے کسی مافیا کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ اس کا حل کیا ہے؟ ، اس کے لئے ہمیں جذباتی خیرات کے بجائے منظم خیرات کا نظام بنانا ہوگا۔ مستند خیراتی اداروں کے ذریعے زکوٰۃ، فطرانہ اور صدقات دینا سب سے بہتر طریقہ ہے، تاکہ یہ رقم واقعی ضرورت مندوں تک پہنچے۔ مختلف علماء بھی اس امر پر زور دے چکے ہیں کہ صدقہ اور زکوٰۃ وہاں دی جائے جہاں اس کا صحیح مصرف ہو۔ اسی لیے، کچھ سماجی تنظیموں جیسے کہ#BheekBand ا ور JDCفائونڈیشن نے سوشل میڈیا پر مہم چلائی کہ عوام غیر مستند بھکاریوں کو خیرات دینے کے بجائے مستند اداروں میں عطیات دیں۔ دوسری جانب حکومت کو بھی فوری ایکشن لینا ہوگا۔ سندھ حکومت کو فوری طور پر انسدادِ بھکاری ایکٹ نافذ کرنا چاہیے، جس میں پیشہ ور بھکاریوں اور ان کے نیٹ ورکس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ پولیس کو صرف بھکاریوں کو گرفتار کرنے کے بجائے ان کے اصل سرغنہ تک پہنچنا ہوگا، تاکہ یہ سلسلہ ختم ہو۔
دنیا کے دیگر ممالک میں اس مسئلے کو کیسے حل کیا گیا؟ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات میں پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف سخت قوانین بنائے گئے ہیں، جس کی بدولت وہاں کے بڑے اور مقدس جگہوں اور شہروں میں منظم بھکاری نیٹ ورکس میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف سخت سزائیں متعارف کرائی گئی ہیں، جس سے وہاں اس رجحان میں بڑی حد تک کمی آ چکی ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اپنی زکوٰۃاور صدقات کو مستحقین تک پہنچانے کا کوئی منظم نظام نہ بنایا، تو چند برسوں میں بھکاری مافیا کراچی کو خیرات کی غیر اخلاقی منڈی میں تبدیل کر دے گی، جہاں اصل مستحقین پیچھے رہ جائیں گے اور مافیا کے چہیتے امیر ہوتے رہیں گے۔ اب فیصلہ کریں کہ خیرات کے نام پر ایک صنعت کو فروغ دینا چاہتے ہیں یا حقیقی ضرورت مندوں کی مدد؟ کیونکہ خیرات دینا عبادت ہے، مگر اس کا غلط ہاتھوں میں جانا جرم ہے۔





