ColumnTajamul Hussain Hashmi

علمائے کرام کا کردار

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
حضورؐ کا ارشاد ہے: ’’بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور انبیاء نے درہم و دینار وراثت میں نہیں چھوڑے، بلکہ انہوں نے علم کو وراثت میں دیا۔ پس جس نے علم حاصل کیا، اس نے بہت بڑی دولت حاصل کرلی۔‘‘ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ علمائے کرام کا مقام بہت بلند ہے کیونکہ وہ دین کی صحیح تعلیم کو آگے پہنچانے میں انبیاء کے جانشین ہیں۔ (سنن ابی دائود:3641) قیام پاکستان کے بعد سے ریاست اپنے سٹکچرل نظام اور معاشی نظام کیلئے بہت متحرک نظر آتی ہے، حقیقت میں آنا بھی چاہئے کیوں کہ بارڈر کی تینوں اطراف سے خطرات کا سامنا ہے۔ ملکی سلامتی کی بقا کیلئے ملک کو مضبوط کیا جاتا ہے جوکہ بہت ضروری ہے لیکن کچھ بنیادی نکات جو کئی گنا زیادہ اس نظام کی مضبوطی کیلئے ضروری ہیں، حکومتوں کی طرف سے ان کرداروں پر کبھی بات نہیں کی جاتی ہے۔ ہمارے معاشی نظام میں علمائے کرام کا بڑا اہم کردار ہے اور تاحیات رہے گا۔ بیرونی قوتیں اپنی سازشوں میں بہت متحرک ہیں اور ہمارے نظام پر کئی قدغن لگانے کی ہمیشہ کوشش میں رہی ہیں، یقیناً کئی مرتبہ ان کو
کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ ہمیں اپنے بزرگان دین کی سیاسی جدوجہد کو بھی اجاگر کرنا چاہئے، ان کی کوششوں سے پاکستان معرض وجود میں آیا۔ دور حاضر کے علمائے کرام کی خدمات کو بھی اجاگر کرنا چاہئے۔ ہمارے عالم دین مولانا محمد تقی عثمانی کے والد مفتی محمد شفیع، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا اشرف علی تھانوی نے ڈٹ کر قائداعظم محمد علی جناح کی حمایت کی۔ قائداعظم کو بھی تحریک پاکستان میں علمائے کرام کے کردار کا بخوبی علم تھا۔ تحریک پاکستان کی حمایت میں مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کا کردار بڑا اہم تھا۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے مولانا شبیر عثمانی اور مفتی محمد شفیع کو تحریک پاکستان کیلئے آمادہ کیا۔ مولانا اشرف علی تھانوی کا تعلق دیوبند مکتب فکر سے تھا۔ مولانا نے کھل کر قائداعظم کو سپورٹ کیا۔ مولانا تقی عثمانی صاحب کے والد محترم مفتی محمد شفیع نے بھی ڈنکے کی چوٹ پر قائداعظم پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ مفتی محمد شفیع نے قائداعظم
کے ساتھ پہلی ملاقات 1939میں دہلی میں کی۔ اس ملاقات میں مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی بھی شامل تھے۔ ان تینوں علمائے کرام کو قائداعظم کے پاس مولانا اشرف علی تھانوی نے بھیجا تھا۔ تینوں علمائے کرام قائداعظم سے یہ بات سمجھنا چاہتے تھے کہ سیاست کو مذہب سے علیحدہ کیوں سمجھتے ہیں؟ کتابوں میں لکھا ہے کہ اڑھائی گھنٹے کی گفتگو کے بعد قائداعظم نے کہا کہ میری سمجھ میں اب خوب آگیا ہے کہ اسلام میں سیاست مذہب سے الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہیں۔ اس وضاحت کے بعد مفتی محمد شفیع اور مولانا شبیر احمد عثمانی دارالعلوم سے مستعفی ہوگئے۔ کھل کر تحریک پاکستان میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ مولانا کرام نے اس وقت ان حضرات کا منہ توڑ دیا جو قائداعظم سے متعلق کفر کے فتوے دے رہے تھے۔ آزادی کے بعد بھی ملک کو کئی طرح کے مسائل درپیش ہیں، جن میں سے سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی اور معاشی کمزوری ہے۔ مسلک، زبان کی بنیاد پر ایک دوسرے کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کئی مسائل بندوق سے حل نہیں کئے جاسکتے، اس میں علمائے کرام کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ملک میں سودی نظام کے خاتمہ کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس وقت مولانا تقی عثمانی صاحب اور مولانا فضل الرحمان جیسی شخصیات کا کردار بہت اہم ہے ۔ لوگوں میں ایک دوسرے سے نفرت، شر انگیزی کی شرح میں اضافہ ہے، مذہبی شخصیات کا کردار اس وقت اہمیت کا حامل ہے۔ مولانا تقی عثمانی صاحب مختلف موضوعا ت پر 50سے زائد کتب لکھ چکے ہیں، جن میں اسلامی فقہ، تفسیر، حدیث، معیشت، اور تصوف شامل ہیں۔ ان کی 6مشہور تصانیف ہیں جن میں ’’اسلام اور جدید معیشت و تجارت‘‘ بہترین کتاب ہے۔ رواں سال حکومت مدارس کی رجسٹریشن کے حوالہ سے قانون سازی کیلئے بہت متحرک تھی لیکن مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے سامنے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ ایسا قانون پاس ہونی نہیں دیا جائیگا۔ بے جا مداخلت قبول نہیں ہوگی۔ علمائے کرام کا ملکی معیشت میں اہم کردار ہے، اس کردار کو حکومتوں کو قبول کرنا چاہئے۔ ان کے احترام کو ہر صورت ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔ ملک کی بنیاد اسلام ہے، ’’بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘ غیر ملکی دبائو میں غلط فیصلے یا قانون سازی قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ اس وقت مذہب سے دوری عام ہوتی جارہی ہے، اس وقت علمائے کرام کے کردار کی اہم ضرورت ہے۔ ملک لاقانونیت اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ قوم کو ایک سوچ پر کھڑا کرنا عالم دین کا کام ہے۔ ہر طرف غیر شرعی کاموں کی پشت پناہی جاری ہے۔ حلال حرام کا فرق ختم ہوتا جارہا ہے۔ مولانا حضرات پر کھلی تنقید کی جارہی ہے۔ قوم کو اسلامی تعلیمات سے دور کیا جارہا ہے۔ غیر اسلامی مواد اور ڈراموں سے لوگوں کی ذہن سازی کی جارہی ہے۔ حضورؐ کی تعلیمات سے دوری کیلئے سوشل میڈیا پر مواد شیئر کیا جارہا ہے۔ اس وقت کردار سازی میں والدین اور وقت کے علمائے کرام کا کردار ضروری ہے۔

جواب دیں

Back to top button