Column

کیا زیلنسکی اور اشرف غنی کے ساتھ امریکہ کا ایک ہی طرز عمل دہرایا گیا؟

تحریر : عبد الرزاق برق

دنیا کے ایک سپرپاور ملک امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی بار ایک ہفتے کے اندر ایک بولڈ قدم اٹھاتے ہوئے یوکرین اور روس کے درمیان جاری تین سالہ جنگ ختم کرنے کیلئے ریاض کی میزبانی میں تعمیری اور مثبت مذاکرات شروع کر دیئے ۔ مذاکرات کا یہ منظر یوکرین اور یورپ کیلئے تکلیف دہ ہے جو دونوں کیلئے ایک بین الاقوامی دھماکہ تھا کیونکہ مذاکرات میں نہ یوکرین کی نمائندگی تھی نہ یورپ کی جس سے ایک تو خود یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے مذاکرات میں شامل نہ کرنے پر کہا ان کے ساتھ ایک ہاتھ ہوگیا اور انہوں نے اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا کہ ان کے ساتھ یہ کیسا طرز عمل کیا گیا اور روس سے مذاکرات کے لئے انہیں کیوں اعتماد میں نہیں لیا گیا؟ اور مذاکرات میں شمولیت کی دعوت کیوں نہیں دی گئی؟ لیکن آج وہ عالمی سیاست کے چوک میں ہکا بکا کھڑا اپنی شاخت پوچھ رہاہے لیکن جب وہ استعمال ہوا تواب اسے کہا جارہا ہے کہ سیاست ڈرامہ یا فلم نہیں جس میں شہرت کام آتی ہے۔ زیلنسکی نے امریکہ کی مکمل حمایت حاصل کی نہ ان کے ملک کو نیٹو میں شامل کیا گیا بلکہ اپنا ملک تباہ کیا کیونکہ ایک ہفتے کے دوران صدر ٹرمپ نے جو چند بڑے اعلانات کئے ہیں ان میں سرفہرست یہی ہے کہ یوکرین نیٹو کا ممبر نہیں بنے گا ۔ یوکرین کو یہ پیغام دیا گیا کہ اسے 2014 کی سرحدوں کی واپسی کا خواب دیکھنا ترک کر دینا چاہیے۔ امریکہ یوکرین کی سلامتی کی ضمانت دینے کو تیار نہیں، جس بھی یورپی ملک نے یوکرین کو امن فوج کے نام پر فورس بھیجی تو اس کا ذمہ دار وہ ملک خود ہوگا۔ نیٹو یا امریکا اس کے دفاع کے لئے نہیں پہنچے گا لیکن اسی زیلنسکی کے ذریعے ایک پورا انقلاب بیچا گیا۔ افغان مجاہدین کی طرح واشنگٹن بلاکر انہیں زبردست قسم کا کھانا دیا گیا اور آزاد دنیا کا ہیرو بنایا گیا لیکن آج امریکی صدر انہیں ڈکٹیٹر اور آمر کا خطاب دے رہے ہیں۔ اسی طرح کا طرز عمل جنوبی ایشیا کے ایک اور ملک افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ساتھ بھی دہرایا گیا جب امریکہ نے فروری 2020 میں امریکہ کے دشمنوں طالبان کے ساتھ دوحا میں اشرف غنی کو اعتماد میں لئے بغیر پہلے اٹھارہ مہینے مذاکرات کو جاری رکھا گیا اور پھر اشرف غنی کی غیر موجودگی میں طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ کیا گیا جس کی روح سے امریکہ اور نیٹو فورسز 20سال کے بعد افغانستان سے نکل گئیں۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں مذاکرات ایک ایسے وقت میں جاری رکھے گئے تھے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی صدارتی ہائوس میں آرام سے تشریف فرما تھے لیکن ان کے اپنے ملک افغانستان کے سر پر قطر میں ان کے دشمنوں سے معاملے ہورہے تھے۔ مذاکرات کے دوران امریکہ نے اشرف غنی کوایک حکم دیا کہ طالبان کے پانچ ہزار جنگجو افغان حکومت کے قیدی ہیں انہیں خیر سگالی کے طورپر رہا کر دیا جائے۔ اشرف غنی نے جواب میں کہا کہ امریکی فوج نے ان پانچ ہزار طالبان جنگجوئوں کو اس لئے گرفتار کیا تھا کہ وہ دہشت گرد تھے۔ اب دہشت گردوں کو رہا کر دیا جائے تاکہ وہ دوبارہ افغان آرمی اور امریکن فوج سے لڑیں۔ لیکن اشرف غنی نے بہ امر مجبوری ان پانچ ہزار طالبان قیدیوںکو رہاکر دیا۔امریکہ نے اپنے دشمنوں کوایک طرف گوانتانامو میں قید رکھا اور دوبارہ انہیں رہا کر دیا دوسری طرف امریکہ اور نیٹو نے افغانستان میں افغان حکومت بنانے کیلئے 20سال میں ایک ٹریلین ڈالر خرچ کئے لیکن اتنی بڑی رقم کو سمندر میں پھینک دیاگیا اورکابل کو اپنے دشمنوں کے حوالے کیا گیا جس کے خلاف انہوں نے بیس سال جنگ لڑی تھی۔
جب 14اگست 2021 کو نیٹو اور امریکی فورسز کابل سے جارہی تھیں تو اسی وقت اشرف غنی، ان کی حکومت کے تمام وزراء بھی کابل سے نکل گئے اور اس وقت کابل میں نہ وزیردفاع تھا نہ ان کی آرمی جو بھی امریکیوں کی غلامی کرتے ہیں اس کا انجام اشرف غنی اور زیلنسکی کی طرح ہوگا۔ امریکہ نے اشرف غنی کو ایسے آدھے راستے پر چھوڑ دیا جس طرح زیلنسکی کو امریکہ نے آج آدھے راستے پر چھوڑ دیا۔ یہی امریکہ اب تک تین برسوں میں افغانستان میں طالبان حکومت پر21بلین ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ امریکہ نے UNO کے ذریعے افغانستان میں تعلیم ، انسانی حقوق اور صنفی آزادیوں کے چند ادارے بنا رکھے ہیں یہ ادارے نام کے ہیں، افغان معاشرے میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے لیکن امریکہ UNOکے ذریعے ہر ہفتے افغانستان کو40ملین ڈالر دیتا رہاہے۔ یہ رقم کینیا کے ذریعے کابل پہنچائی جاتی رہی۔ ہر منگل کے دن نیروبی سے UNO کا خصوصی جہاز کابل آتا تھا جس سے 40 ملین ڈالر کے باکس اتارے جاتے تھے اور یہ رقم افغانستان کے ریزور بینک سے افغانی کرنسی میں نکال کر این جی اوز کو دی جاتی تھی اور یہ طالبان حکومت کے لئے امریکہ کی سیدھی سادی مدد ہے۔ یہ افغانستان کی چھوٹی معیشت کیلئے ایک بہت بڑی مدد ہے، امریکی CIAافغانستان میں فنڈنگ کر رہی ہے۔ سی آئی اے کا ڈائریکٹر اور اس کا سٹاف کابل میں موجود ہے۔ یہ لوگ القاعدہ داعش کے کنٹرول کے نام پر طالبان کی اکانومی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ امریکہ کا افغانستان میں اشرف غنی کے ساتھ ایک ہاتھ کر دیا گیا دوسری طرف اسی امریکہ اور یورپ نے اپنے غلیظ مفادات کی تکمیل کے لئے زیلنسکی جیسے مہرے کو یوکرین کے عوام پر مسلط کرکے بہت بڑا ظلم کیا اور انہیں جنگ میں دھکیل دیا اور اب اس مہم جوئی اور بے وقوفی کی سزا شکست کی صورت میں بھگت رہے ہیں یہ امریکہ اور برطانیہ کی پرانی برائی ہے کہ جہاں جہاں قابض ہوئے ہیں یا جنگ مسلط کرکے جاتے ہوئے ایسی الجھن میں اس ملک کو مبتلاکر کے جاتے ہیں جس کا خمیازہ زندگی بھر انکی عوام کو بھگتنا پڑتا ہے لیکن خود یوکرین کے صدر نے بھی اپنے ہاتھوں سے اپنے ملک کا بیڑہ غرق کیا وطن تباہ کیا، اپنے لوگ مہاجر بنائے گئے اور جنگ بھی ہار گئے۔مگر وہ مذاکرات کی میز کی بجائے شطرنج کی بساط سجانے میں دلچسپی لیتے رہے جس سے یوکرین نہ گھرکا نہ گھاٹ کا لیکن یوکرین کے پاس اب وقت ضائع کئے بغیر روس سے صلح کر لینی چاہئے اور اپنے ملک کی ازسرنو تعمیرکرکے روس کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے چاہئیں تاکہ یوکرین کی آنے والے نسلیں امن سکون سے رہ سکیں اور امریکہ کا رویہ آنے والی نسلوں کے نصاب میں شامل کرکے انہیں پڑھائیں۔ امریکہ نے سب سے زیادہ 175ارب ڈالر کے ہتھیار یوکرین کو فراہم کیا گیا جس سے ہزاروں یوکرینی ہلاک ہوئے۔ آج دنیا میں کوئی نر کا بچہ نہیں کہ امریکہ کو یہ سچ کہے کہ آپ نے زیادہ ہتھیار یوکرین کو دیئے۔ امریکہ نے یورپ کے مقابلے میں زیادہ مصارف برداشت کئے۔ آخر اس بندے کو کس نے کہا کہ امریکہ پر اعتماد کرکے روس کے ساتھ جنگ شروع کرے، یہ بڑی جنگ کس لئے لڑی گئی اور کس ہدف کے لئے ؟امریکہ اسرائیل کے علاوہ ساری دنیا کے ساتھ دوغلی پالیسی رکھتا ہے جو قومیں کسی کی سیڑھی پر پائوں رکھ کر ترقی کرنا اور جنگیں لڑنا چاہتی ہیں ان کے ساتھ زیلنسکی اور اشرف غنی کی طرح ہی دھوکہ ہوتا رہے گا جو بھی کرنا چاہیے اپنے بل بوتے پر کرنا چاہیے کسی اورکے آسرے پر جنگ نہیں کرنی چاہئے نہ ہی جیتی جاتی ہے۔اسلحہ بھی اپنا ہو اور فوجی بھی اپنے پھر کامیابی ملتی ہے۔ اب زیلنسکی کا وہی حال ہوگا جو اشرف غنی کا ہوا۔ امریکہ کا موڈ مکمل بدل گیا اور طالبان کو کابل دے دیا اور اب کیف کو پوتن کے حوالے کر رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے امریکہ نے ہمیشہ اپنے فائدے کے لئے جنگوں میں ملکوں کی مدد کی اور وہاں کا خزانہ لوٹا گیا اور دوسرا ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مذاکرات میں یوکرین اور یورپ کو شامل نہ کرنے سے یورپ پہلے سکتے پھر ماتم اور گریہ کے مرحلے میں ہے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ میونخ سکیورٹی کانفرنس سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے اسی کانفرنس کے صدرکرسٹوہیوسگن باقاعدہ رو پڑے وہ شدت غم سے اپنی تقریر جاری نہ رکھ سکے۔ ادھر یوکرین کے صدر نے ریاض مذاکرات میں شامل نہ کرنے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنگ میں شامل دوسرے فریق کی مرضی کے بغیر کسی جنگ کے خاتمے کی شرائط کیسے طے ہوسکتی ہیں ۔ گزشتہ چند روز سے انہوں نے اس حوالے سے شدید بے چینی کا اظہار بھی کیا اور واضح کیا کہ یوکرین کسی ایسے امن معاہدے کو نہیں مانے گا جس میں اس کی مرضی شامل نہ ہو۔ ٹرمپ نے یوکرینی صدر پر شدید حملے کئے اورکہا کہ آپ کے پاس تین سال کا وقت تھا یہ جنگ کسی ڈیل کے ذریعے بہت پہلے ختم ہوسکتی تھی۔ یوکرینی صدر اس میں بری طرح ناکام رہے بعد میں یوکرینی صدرولادیمیر زیلنسکی کو آمر قرار دیا اور کہا کہ انہیں امن معاہدے سے پہلے ملک میں انتخابات کرانے چاہئیں۔زیلنسکی 2019میں پانچ سال کے لئے صدر منتخب ہوئے تھے تاہم جنگ کی وجہ سے اس وقت سے ملک میں مارشل لاء نافذ ہے اور انتخابات نہیں کرائے جاسکتے۔ ریاض میں امریکہ کی روس سے مذاکرات شروع کرنے کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ان مذاکرات میں یورپ کو اس سے باہر رکھا ہے۔ یورپ میں فرانس برطانیہ جرمنی ایسے ممالک ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد بالعموم اور سوویت یونین زوال کے بعد سے بالخصوص خود کو دنیا کے مالکان سمجھتے آئے ہیں جب بھی کوئی عالمی بحران کھڑا ہوا امریکی صدر نے ان ممالک کے اس وقت کے سربراہوں کو بطور مالکان ساتھ ہی رکھا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اس روایت کو بھی توڑا۔ اصل میں امریکہ کا پلان یورپی یونین اور یورو کا خاتمہ ہے حالانکہ یہ وہی ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جن کے متعلق 2016 سے لبرل امریکی میڈیا نے یہ تاثر پھیلانا شروع کر دیا تھا کہ وہ ایک مسخرے سے زیادہ کچھ نہیں۔

جواب دیں

Back to top button