Column

پریشانی کی کوئی بات نہیں

تحریر : سیدہ عنبرین
سوا کھرب سے زائد اندرونی و بیرونی قرضوں، گزشتہ سات ماہ میں ہر روز پچپن کروڑ روپے، روزانہ کے حساب سے لیے گئے قرضوں کی کہانیاں، چینی مافیا کے کارنامے، اپٹما کی دی گئی تفصیلات کے مطابق درجنوں ٹیکسٹائیل ملوں کا بند ہونا، گروتھ ریٹ روئے زمین پر نظر نہ آنا، کمر توڑ مہنگائی، ممبران قومی اسمبلی و سینیٹر ز کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے، ریونیو جمع کرنے والے ادارے کیلئے ایک ہزار سے زائد گاڑیوں کی خریداری، چھبیسویں آئینی ترمیم جیسے آہنی ترمیم بھی کہا جاتا ہے اور بجلی کے بلوں کے میں 21ارب روپے کی اوور بلنگ کے ذمہ داروں کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہ کر پانے جیسی ناکامیوں کو بھارت کے خلاف کرکٹ میچ میں کامیابی کے پردے میں چھپانے کے تمام انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے، اس میچ میں کامیابی کے بعد ہائوس اینڈ کیٹل شو کا سلسلہ جوڑ کر اس عظیم کامیابی کا جشن پورا سال جاری رکھا جانا تھا لیکن بھارتی بلے باز ویرات کوہلی نے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا ، یوں اس میچ کی کہانی شیر افضل مروت کی زبانی ایک جملے میں کہنی مقصود ہو تو کہا جا سکتا ہے ’’ میچ تو مکمل طور پر وڑ گیا ‘‘۔ ویرات کوہلی تیرا شکریہ! یہ دن بھی ہمارے نصیب میں لکھے تھے کہ چیمپئن ٹرافی کا میزبان ملک پہلے ہی مرحلے میں ٹورنامنٹ سے آئوٹ ہو جائیگا، ٹورنامنٹ بھی وہ جس میں حصہ لینے والوں کی تعداد درجن سے بھی کم ہے اور کچھ ملک تو ایسے ہیں جن کے یہ ابتدائی مجرے ہیں، ابھی ان کے پائوں ڈھولک کی تھاپ اور ہارمونیم کی سر کے مطابق نہیں تھرکتے۔ دبئی کے کرکٹ گرائونڈ میں کھیلا گیا ہائی وولٹیج میچ رسوائی کا وہ سامان کر گیا ہے جسے عرصہ دراز تک کرکٹ کے ناخدائوں کو سرپر اٹھانا ہو گا اس یکطرفہ میچ میں ناقص کارکردگی کے متعدد ریکارڈ قائم ہوئے، پاکستانی کھلاڑی حماقتیں کرتے رہے، وکٹیں گنواتے رہے اور موقع ملنے کے باوجود خاطر خواہ سکور نہ کر سکے ، یہی پرفارمنس بائولنگ اور فیلڈنگ کے شعبے میں رہی، پوری ٹیم اڑھائی سو سکور بھی نہ کر سکی، بھارت نے242کا ہدف تینتالیسوں اوور میں حاصل کر لیا اور پاکستانی ٹیم کو ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا، جس کے بعد ہم اس امید پر زندہ رہے کہ اب بنگلہ دیش، نیوزی لینڈ کو شکست دے تو ہمارے تن مردہ میں جان پڑ سکتی ہے۔ نیوزی لینڈ نے بنگلہ دیش کو شکست تو دی لیکن اس کے ساتھ ہی ہماری ٹیم کو اٹھا کر سٹیڈیم سے باہر پھینک دیا، جہاں کبھی ہمارے شہرہ آفاق بیٹرز کے چھکے جا گرتے تھے، کبھی گیند ہی گم ہوجاتا تھا، آج ہماری ٹیم گم ہوگئی۔ نیوز ی لینڈ نے بنگلہ دیش کو شکست دینے سے قبل ہمیں شرمناک شکست سے دوچار کیا اور ٹورنامنٹ کے پہلے ہی میچ میں ہمیں ہماری اوقات یاد دلا دی، جیت وہی ہوتی ہے جو مقررہ اوورز ختم ہونے سے کم از کم پانچ اوورز قبل حاصل کر لی جائے، جو میچ آخری اوورز تک جائے اور جیت لیا جائے، وہ حقیقی جیت نہیں ہوتی۔ میچ کے آخری اوور تک جانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مقابل ٹیم بہترین انداز میں مقابلہ کر رہی ہے اور میچ جیت بھی سکتی ہے، ایک کیچ مس اور بس۔
بھارت سے شکست میں تمام تر تکلیف میں ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ کرکٹ بخار اتر گیا، جو اب کرکٹ عذاب بن چکا ہے، اس کے بعد زندگی کے دیگر اہم شعبوں کی طرف توجہ دی جا سکے گی، لیکن ضروری نہیں ایسا کیا جائے، کوئی اور میلہ ٹھیلہ شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس اصل چیمپئن تو ہم انہی کاموں کے ہیں، یوں ہی نہیں ہم 1988ء تک بھارت سے آگے تھے اور اس کے بعد ایسا زوال شروع ہوا کہ آج تک ختم ہونے میں نہیں آ رہا، یاد رہے 1988ء کے بعد جمہوریت آ گئی تھی، جس نے سب سے پہلے جمہور کو ڈنگ مار ا پھر وہ ملکی معیشت کو نگل گئی، آج ہماری معیشت کی کوئی کل سیدھی نہیں، ادھار کی پی کر خوش ہوتے ہیں اور اسے ترقی کا زینہ قرار دیتے ہیں۔ کرکٹ میچ میں شکست سے ہر بار لاکھوں دل ٹوٹتے ہیں، پھر وقت مرہم بن جاتا ہے، اس مرتبہ عوام کے ساتھ خواص کے بھی دل ٹوٹے ہیں، ان میں گورنر سندھ بھی شامل ہیں۔ دل ٹوٹنے والوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے بڑی بڑ ی شرطیں لگا رکھی تھیں، محتاط اندازے کے مطابق پاک بھارت میچ پر بارہ ارب روپے کا جوا کھیلا گیا۔ کرکٹ اور جوئے کا چولی دامن کا ساتھ ہے، کرکٹ شائقین کیلئے کھیل جبکہ ایک خاص طبقے کیلئے کاروبار ہے، اسے اب انڈسٹری کا درجہ مل چکا ہے، لیکن ملک میں غیر سرکاری طور پر ناکامیوں کی ذمہ داری دوسروں کے سر پر ڈالنے کا چلن برقرار ہے۔ کسی شخص میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ اپنے حصے کی ناکامی تسلیم کرے اور مستعفی ہو کر گھر چلا جائے، زندگی کے کسی شعبے میں میرٹ نظر نہیں آتا، ہر جگہ پرچی مافیا ہے، جو اپنی جگہ چھوڑنے کیلئے تیار نہیں، بلکہ ایکسٹینشن کا خواہاں ہے۔
شکست کا ذمہ دار کوئی ایک شخص نہیں، چیئرمین بورڈ سلیکشن کمیٹی، کوچ اور کھلاڑی ہر ایک نے اپنا حصہ ڈالا ہے، مختلف فارمیٹ کی چیمپئن ٹیم اور ملک اس طرح رسوا ہوگا کسی نے کبھی سوچا نہ ہوگا، انتظامات پر نظر ڈالیں تو سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ ایک میچ میں آسٹریلیا کا قومی ترانہ چلنا تھا یہاں بھی بھارتی ترانہ چل گیا، پلے لسٹ آئی سی سی نے تیار کی، بھارت کے پاکستان میں نہ ہونے باوجود بھارت کا ترانہ شامل کیا گیا، اس سے زیادہ ہماری بے بسی کیا ہوگی یا بھارت نوازی کیا ہو گی، ہم ہر معاملہ میں طوطوں اور بابوں کے پیش گوئیوں یر یقین رکھتے ہیں، جبکہ بھارتی کرکٹ بورڈ، سلیکٹرز اور کھلاڑی منصوبہ بندی پر عمل کرتے ہوئے میدان میں اترتے ہیں، مقام افسوس ہمارے کھلاڑی میدان میں یوں اترتے ہیں جیسے جوتے کھانے کیلئے جا رہے ہیں، جبکہ بھارتی کھلاڑی ایک فاتحانہ انداز میں میدان میں داخل ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیائی دانشوروں نے شکست کے غم کو بانٹنے کی کوششیں کی ہیں، ان کے مطابق پاکستان کو شکست سے بچانے کا ایک ہی نسخہ ہے، وہ یہ کہ انہیں کوئی میچ نہ کھلایا جائے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم اپنی خراب کارکردگی کی وجہ سے نہیں بلکہ بنگلہ دیش کی ناقص کارکردگی کے سبب ٹورنامنٹ سے آئوٹ ہوئے ہیں۔ ایک کھلاڑی سے منسوب مزاحیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہماری پرفارمنس پر تنقید چھوڑیں اپنی فکر کریں۔24کروڑ عوام میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کی دعا سے ہم میچ جیت سکتے، ایک دانشور نے کہا صرف دعائوں سے میچ جیت جانا اللہ کا قانون نہیں ہے، سعی کا حکم دیا گیا ہے، ورنہ کشمیر آزاد ہو چکا ہوتا۔ فلسطین کا قیام عمل میں آ چکا ہوتا اور اسرائیل کا نام و نشان مٹ چکا ہوتا، آج کل ہماری دعائوں کا رخ امریکہ کی طرف ہے، ہم منتظر ہیں ہماری دعائیں کب رنگ لاتی ہیں اور امریکہ کب ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہے، اہم ترین اتحادی حکومت پاکستان جناب مولانا فضل الرحمان نے اسمبلی میں بلوچستان کے بارے میں جو کہا وہ سنسر ہو چکا ہے، پس یقین رکھیئے وہاں سب اچھا ہے، پریشانی کی کوئی بات نہیں ، پی ٹی وی نے ان کی آواز میوٹ کر دی تھی کیوں؟۔

جواب دیں

Back to top button