کنٹریکٹ ملازمین اور محکموں کی ذمہ داری

تحریر : امتیاز عاصی
وفاقی اور صوبائی محکموں میں کنٹریکٹ پر ملازمین کی بھرتیوں کی روایت بہت پرانی ہے۔ عام طور پر کنٹریکٹ پر انہی لوگوں کو ملازمت دی جاتی ہے جن کی کوئی نہ کوئی سفارش ہوتی ہے یاپھر متعلقہ محکموں میںان کا کوئی رشتہ دار یا عزیز پہلے سے ملازمت کر رہا ہو۔ بلاشبہ کسی کو روزگار دینا کوئی جرم نہیں کوئی بھی محکمہ ہنگامی حالات میں کنٹریکٹ یا یومیہ اجرت پر ملازمین کی بھرتی کر سکتا ہے ۔تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کنٹریکٹ ملازمین کو ملازمت کرتے برسوں گذر نے کے بعد انہیں ملازمت سے نکال دیاجائے۔وفاق اور صوبوں میں کنٹریکٹ پر ملازمین کی بھرتی رکنے کا نام نہیں لیتی حالانکہ ہونا تو چاہیے کنٹریکٹ ملازمین کو کچھ عرصے بعد باقاعدہ ٹیسٹ اور انٹرویو کے پراسیس سے گزرا جائے جس کے بعد ان کی مستقلی یا ملازمت سے فارغ کئے جانے کا فیصلہ کیا جائے ۔وفاق اور صوبوں میں باوا آدم نرالا ہے کنٹریکٹ پر ملازمت کرنے والوں کو دس سے پندرہ سال گزر جاتے ہیں جس کے بعد انہیں ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ سوال ہے سرکاری محکموں میں کسی کو بیس سال کی عمر میں کنٹریکٹ پر بھرتی کیا جائے اور پندرہ سال ملازمت کرنے کے بعد برطرف کر دیا جائے تو کیا ایسے افراد کسی سرکاری محکمہ میں ملازمت کے حصول کے لئے درخواست دینے کے اہل رہ جاتے ہیں۔عجیب تماشا ہے کنٹریکٹ ملازمین کو برطرف ہی کرنا ہو تو انہیں ملازمت کیوں دی جاتی ہے۔وفاق میں یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے ملازمت سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ۔قومی بچت کے محکمہ کی بات کریں تو پندرہ پندرہ سال کنٹریکٹ پر ملازمت کرنے والوں کو چھ ماہ پہلے ملازمت سے فارغ کیاجا چکا ہے۔ اللہ کے بندوں بجٹ میں نئی اسامیاں تخلیق کی جاتی ہیں سیدھی سی بات ہے جن ملازمین کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا ہو انہیں باقاعدہ ٹیسٹ اور انٹرویو کے پراسیس سے گزارا جائے جو ملازمین امتحان میں کامیاب ہو ں انہیں باقاعدہ ملازمت دے دی جائے ۔وفاق اور صوبوں میں ملازمین کی تنظیموں کے دبائو میں آکر کنٹریکٹ پر ملازمین بھرتی کر لئے جاتے ہیں جنہیں کنٹریکٹ پر ملازمت کرتے کئی کئی برس گزر جاتے ہیں۔ درحقیقت کنٹریکٹ ملازمین کی بڑی تعداد سفارشیوں کی ہوتی ہے اس لئے وہ ٹیسٹ اور انٹرویو کے پراسیس سے گزرنے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کنٹریکٹ ملازمین کو بغیر کسی امتحان پاس کئے ریگولر ملازمت دینے سے حق داروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔سوال ہی کنٹریکٹ پر ملازمت دیتے وقت امیدواروں کی اہلیت کی جانچ پڑتال کر لی جائے تو ایسے ملازمین کو ریگولر کرنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں ہوتا۔اصولی طور پر کنٹریکٹ ملازمت کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے باقاعدہ ایک طریقہ کار کے مطابق سرکاری محکموں میں بھرتی کا عمل ہونا چاہیے ۔کئی صوبائی محکموں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں کنٹریکٹ ملازمین نے ریگولر نہ کرنے کی صورت میں متعلقہ ہائی کورٹ سے رجوع کرکے باقاعدہ ملازمت اختیار کرلی۔پہلے تو بھرتی پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہونی چاہیے اگر کسی محکمہ میں اسامیاں خالی ہیں تو انہیں فوری طور پر پر کرنا چاہیے اس مقصد کے لئے باقاعدہ امیدواروں کا امتحان لینے کے بعد کامیاب ہونے والوں کو انٹرویو کرکے بھرتی کے عمل کو مکمل کرنا چاہیے ۔کنٹریکٹ پر ملازمت دینے کے روایت ختم ہونی چاہیے ۔کنٹریکٹ پر بھرتی کرنے سے ایک طرف اہل لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہے تو دوسری طرف کنٹریکٹ ملازمین کئی کئی سال کنٹریکٹ ملازمت کے دوران سرکاری ملازمت کے لئے مطلوبہ عمر سے زائد العمر ہو جانے سے کہیں کے بھی نہیں رہ جاتے ہیں۔ریاست پاکستان میں سرکاری ملازمتوں میں اقرباء پروری کا عمل دخل رہا ہے انگریز سرکار ایک ہی خاندان کے دو افراد کو ایک محکمہ میں ملازمت نہیں دیتے تھے جب کہ ہمارے ہاں سرکاری محکموں میں خاندان کے خاندان بھرتی کر لئے جاتے ہیں جس سے سرکاری محکموں کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔مملکت میں میرٹ نہ ہونے سے سرکاری محکموں میں کام کرنے والوں کی اکثریت کسی نہ کسی ذریعے سے ملازمت میں آجانے سے رشوت خوری کا بازار گرم ہے ۔ملک کے شہری جائز کاموں کے لئے سرکاری محکموں کے چکر لگا لگاکر رل جاتے ہیں جب تک مبینہ طور پر رشوت نہ دیں ان کے جائز کام نہیںہو پاتے۔ملک کے بڑے بڑے ادارے جیسا کہ پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل کی بربادی کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ سیاسی طور پر بھرتی ہونے والے ملازمین کا عمل دخل ہے۔پی آئی اے اور اسٹیل مل میں ملازمین کی کئی کئی یونینز ہیں جن کی سفارش پر لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ میرٹ سے ہٹ کر لوگوں کو ملازمتیں دی جائیں گی تو ایسے محکموں کی کارکردگی کیا ہوگی۔ پی آئی اے جس کی شہرت کو کبھی طوطی بولتا تھا نفع بخش ادارہ ہونے کی بجائے حکومت کے بیل آئوٹ پیکیج پر چلایا جا رہا ہے۔ پاکستان ریلویز کو دیکھ لیں انگریز نے جس مقام پر چھوڑا تھا آج ریلویز ترقی کی بجائے پستی اختیار کر چکا ہے ۔جن محکموں میں ملازمین کی یونیز ہوں ایسے محکموں کی ترقی خواب بن جاتی ہے ۔ پاکستان اسٹیل جیسا بڑا قومی ادارہ خسارے میں ہے سیاسی جماعتوں کے ورکرز کی بھرتی نے ان تمام قومی اداروں کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔حکومت کسی ادارے کی نج کاری کرنے کی خواہاں ہو تو ایسے محکموں کے ملازمین ہڑتالوں پر چلے جاتے ہیں۔ سوال ہے جن ملازمین نے اپنے فرائض دیانت دری اور خوش اسلوبی سے ادا کرنے ہوں انہیں نج کاری کا خوف نہیں ہوتا۔جو ملازمین گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہوں نج کاری سے ان کی جان جاتی ہے ۔ظاہر ہے جس ادارے کو پرائیویٹ سیکٹر میں دیا جائے گا وہاں تو ملازمین کو فرائض کی انجام دہی پورے طریقہ سے کرنا ہوگی ورنہ اگر ملازمین نے صدق دل سے اپنے فرائض کی انجام دہی کرنی ہو تو انہیں نج کاری کا کوئی نہیں ہونا چاہیے۔ہماری ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ مبینہ بدعنوانی ہے سرکاری محکموں سے بدعنوانی کا خاتمہ ہو جائے تو ملک کے بہت سے مسائل خودبخود حل ہو سکتے ہیں۔ آج جس چیز کی اشد ضرورت ہے اس میں ملازمتوں کے حصول میں کنٹریکٹ سسٹم کا خاتمہ ، میرٹ پر بھرتی اور بدعنوانی کے عنصر کی بیخ کنی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے ورنہ ہمارا ملک کبھی ترقی نہیں کر سکے گا۔







